جامعہ پنجاب کے ”غنڈے“ (3)


\"zia-ur-rahman\"(گزشتہ سے پیوستہ)
اپنے اندر احساسات کا تپش لیکر میں سقوط ڈھاکہ کانفرنس سے ہاسٹل پہنچ گیا۔ وہ رات شاید زندگی کی لمبی ترین راتوں میں سے ایک رات تھی۔ گھڑی میں منٹوں کی سوئی جیسے ایک جگہ پر اٹکی ہوئی تھی۔ دن ڈھلتے گئے اور دسمبر کی یخ بستہ دھندلی شامیں کہ جس دھند کے اٌس پار بہت کچھ تھا لیکن میری نگاہ اس کو دیکھنے سے قاصر تھی۔ 16 دسمبر کے بعد میرا لاشعوری خوف بتدریج کم ہوتا جارہا تھا اور تیسرے چوتھے دن ناظم صاحب سے ملاقات ہونی لگی۔ ناظم کا رہائشی تعلق کراچی سے تھا اور کیمیکل انجیئرنگ کا طالب علم تھا۔ ایک رات عشاء کی نماز کے بعد وہ مجھے دو تین کتابیں دے گیا اور کہا کہ یہ ہمارا لٹریچر ہے پڑھنے کے بعد واپس کردینا۔

چونکہ اس وقت ہمارے مڈ ٹرم امتحانات میں چار دن باقی تھے اسی لئے میں نے معذرت کی کہ آج کل تیاری میں کافی مصروف ہوں اور امتحانات کے ختم ہونے کے بعد خود آکر کتابیں لوں گا اور توقعات کے برعکس وہ میری بات مان گئے۔

انسان کا فطرت بھی عجیب ہے یہ جس بھی نظروں سے کسی چیز کو دیکھتا ہے اسی طرح وہ لاشعوری طور پر اسکے روح پر وہی چھاپ چھوڑ دیتا ہے۔ میں شروعات میں ان لوگوں کو ”غنڈے“ سمجھنے لگا تھا اور جب ان میں سے کسی کو راہ چلتے ہوئے دیکھتا تھا۔ لاشعوری طور پر میرے نظریں ان کے ہاتھوں کے جانب ”سوٹے“ کی تلاش میں جاتی تھیں۔ سوٹا تو نظر نہیں آتا تھا البتہ ہاتھوں پر ”تشدد“ اور ”جرائم“ کی نشانات محسوس ہوتے تھے۔ لیکن اب وہ مجھے عام انسان لگ رہے تھے اگرچہ میرے نظروں کی دھندلاہٹ بدستور قائم تھی پر کم از کم پہلے کی طرح ”مجرم“ دکھائی نہیں دے رہے تھیں۔

امتحانات اپنے اختتام کو پہنچ کو گئے اور ابھی چونکہ کلاسز میں دو دن چھٹی تھی۔ اسی لئے میں نے حسب وعدہ ناظم سے وہ کتابیں مستعار لے لیں۔ اور تو یاد نہیں البتہ ایک کتابچے کا سر ورق ”شہادت حق“ تھا۔ عشاء کے بعد کمرے میں جاتے ہی کتابیں پڑھنا شروع کیا۔ اور تقریباً دو گھنٹے میں تینوں کتابچے پڑھ لیے۔ لیکن جس چیز کو میں ڈھونڈ رہا تھا وہ نہیں ملی اور یہاں پر میرا ”دل“ ورلڈ کپ کا پہلا میچ جیتتے ہوئے ”دماغ“ کو کوسنے لگا۔ یہاں پر میں نے فیصلہ کیا کہ اب کے بعد ان لوگوں کو ”غنڈوں“ اور ”بدمعاشوں“ کے پیرایوں میں نہیں پرونا ہے۔ اور عام لوگوں کی طرح ”جماعتی“ ہی کی اصطلاح استمعال کرنی ہے۔ کیونکہ جس کام اور مقصد کے لئے یہ لوگوں کو بٌلا رہے ہیں وہ کوئی عام مقصد نہیں۔

کل پٌرانے کتابیں واپس کرکے میں دو اور کتابیں لے آیا تھا لیکن اب کی بار میں وہاں ”کچھ“ ڈھونڈنے“ کے بجائے ”سب کچھ“ سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔اب میرا لاشعوری خوف تقریباً ختم ہوچکا تھا اور میں بلا تکلف ناظم سے ملتا تھا۔

اس دوران جماعتیوں نے ”پائیونیر کرکٹ لیگ“ کا بھاشن دینا شروع کیا۔ اب کی بار میں کوئی ”ایسا ویسا“ سوچنے نہیں لگا تھا البتہ ایک بات ذہن میں آرہی تھی کہ شاید یہ ایک کاروباری قسم کا ٹورنامنٹ ہوگا کہ جس میں جماعتیے اپنے لیے مال بناتے ہونگے۔ اسی لئے جانچ کے خاطر میں ٹورنامنٹ میں کافی دلچسپی لینے لگا۔ ٹورنامنٹ تین دن اور دورانیہ رات نو سے دو بجے پر مشتمل تھا۔ جو کہ مین گراونڈ میں بیک وقت دو پچوں پر فلڈ لائٹس میں کھیلا جارہا تھا۔ میرے لئے عجیب بات یہی تھی کہ جامعہ سے 128 ٹیمیں اس میں حصہ لے رہی تھی اور ہر کھلاڑی کے لئے جامعہ کا طالب علم ہونا ضروری تھا۔ پھر بھی انتظامیہ کے طرف سے بجلی منقطع تھی اور یہ لوگ جنریٹر پر سارا سسٹم چلاتے رہے۔

افتتاحی تقریب میں نظریں عمر اکمل اور فاسٹ باؤلر چیمہ پر پڑ گئی تو میں نے سوچا ان جماعتیوں میں بہت کچھ ہے وگرنہ ڈنڈوں اور تشدد سے انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو نہیں لایا جاسکتا۔ تین دن بڑے انہماک سے اپنی ”کھوج“ کے خاطر ٹورنامنٹ انجوائے کرتا رہا لیکن میرا حوصلہ اس وقت ٹوٹ گیا جب اختتامی پروگرام میں پتہ چلا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنے طور پر چیزوں کی فراہمی کو سپانسر کیا تھا اور روپے پیسے کا کوئی بھی چکر نہیں تھا۔

اس ”ڈرامے“ کے بعد میرے سوچ کے زاویے الگ تھے۔ اتنے بڑے سطح پر منظم انداز میں ایسا ٹورنامنٹ کہ جس میں عالمی کھلاڑی بھی شرکت کرے کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ میرا دل ناچاہتے ہوئے بھی داد دینے لگا تھا۔ طالب علموں کی شرکت اور جوش و خروش دیدنی تھا۔ اب میرا دل اور دماغ ایک پیج پر تھے۔ اور مجھے قطعی یہ لوگ انسان دشمن نہیں لگ رہے تھے۔

ٹورنامنٹ ختم ہونے کے تین کے بعد ناظم مجھے کہنے لگے کیسی لگی جمعیت؟ میں نے زیر لب مسکراتے ہوئے تائید کی۔ کہنے لگے شامل ہونا چاہتے ہو؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ہم ناظم جامعہ کے کمرے میں چلے گئے۔ وہاں پر میرا تعارف کرایا گیا۔

اس وقت ناظم جامعہ عبدالمقیت صاحب تھے۔ شخصیت میں ظرف اور منکسر المزاجی کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی تھی اور اس کا اظہار مخالفین بھی برملا کیا کرتے تھے۔ پڑھے گئے کتابچوں میں سے چند سوالات پوچھے اور ساتھ ہی میں جمعیت کا رفیق بن گیا۔

رفاقت کے چھٹے دن ویٹنگ لسٹ پر مجھ سے اوپر کے لوگوں کا داخلہ ہوگیا اور مجھے اگلے مہینے ایوب میڈیکل کالج میں داخلے کا گرین سگنل مل گیا۔ اور اسی طرح میرے جامعہ میں رہنے کے 25 دن رہ گئے۔ میرا دل جامعہ چھوڑنا نہیں چاہ رہا تھا لیکن سوال میرے پروفیشنل فیلڈ کا تھا۔

چند دنوں کے بعد کیمیکل گراونڈ میں ”پائیونیر فیسٹول“ کے نام سے انتظامات شروع ہوئی۔ اس فیسٹول میں ایک اور نئی بات دیکھنے کو ملی وہ یہ کہ اس میں طلبا اور طالبات دونوں شریک تھیں۔ اور مزے کی بات یہی تھی کہ جتنے بھی سٹال لگے تھے وہ سارے ”غیر جماعتی“ تھے۔ سوالات اور جوابات کاسیشن تھا کہ جس میں باقاعدہ ایک سوال لڑکیوں اور ایک سوال لڑکوں کے جانب سے پوچھا جاتا تھا اور ٹھیک جواب کے صورت میں انعامات تقسیم ہوتے تھے۔ یاد رہےجمعیت کا کوئی بھی کارکن سوال و جواب سیشن میں شرکت نہیں کرسکتا تھا۔

اور بھی بہت سی چیزیں تھے لیکن میں تحریر کی طوالت سے مجبور ہوں۔ مختصراً نظم و ضبط کا صورتحال جو میں نے دیکھا وہ قابل رشک تھا۔ ہلڑ بازی اور نہ ہی اوازیں کسنا۔ سیٹیاں اور نہ ہی دھکے۔ الغرض ایک مہزب ماحول میں صحت مند تفریح دیکھنے کو ملی۔ میں سوچ رہا تھا یہ تو خوشیاں بانٹنے والے لوگ ہیں کبھی کرکٹ کے صورت میں کبھی فیسٹول اور کبھی ویلکم پارٹی کے صورت۔ یہ تو خدائی کاموں کے ذمہ دار لوگ ہیں۔ کبھی ہسپتالوں میں زندگی کا جنگ لڑنے والوں لوگوں کو خون کی فراہمی اور کبھی دھرتی ماں کا جنگ لڑنے والے افواج کے شانہ بہ شانہ خون کا نذرانہ۔ کبھی سیلابوں اور زلزلوں کی صورت میں غریبوں کا سامان سر پر اٌٹھائے ہوئے اور کبھی انہی غریبوں کے حقوق کے لئے سڑکوں پر یخ بستہ راتیں۔ میں نے سوچا جو انسانیت کے خدمت کی جزبے سے سرشار ہوں وہ کبھی ”غنڈے“ نہیں ہوسکتے۔ اور اس ایک بات نے میرے ذہن پر ایک چھاپ چھوڑ دی کہ میڈیا پر اتنا واویلا اور پروپیگنڈا ہونے کے باوجود یہ لوگ کتنی خندہ پیشانی کے ساتھ اپنے کام میں مگن ہیں۔ نہ ان کے حوصلے ڈگماگاتے ہیں اور نہ ہی تعصب کے نشتر سے دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں۔ میرا جامعہ پنجاب کا تجربہ بہت سی ڈھلانوں اور پٌر پیچ راستوں سے ہوتا ہوا اپنی منزل پر پہنچ گیا۔ زندگی کی اس دورانیے میں کیا سیکھا؟ یہی چند الفاظ کہ ”سچ ہمیشہ خاموشی سے اپنے اپ کو منواتا ہے اور جھوٹ سینکڑوں دلائل کے باوجود منافقت کا پردہ چاک کرتے ہوئے ایک نہ ایک دن روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے“

(نوٹ: ایوب میں پہلے دن سے میرا جمعیت سے کوئی عملی تعلق نہیں رہا۔ اور تحریر کی پہلے قسط میں لاتعلقی کا جو عرض کیا تھا وہ یہی تھا۔ اور شاید یہاں کے ایک بھی جماعتی کو میرے بیک گراؤنڈ کا پتہ نہیں ہوگا۔ وجہ یہی ہے کہ بچپن سے لکھنا میرا شوق رہا ہے اور ایک لکھاری کے لئے نیوٹرل پلیٹ فارم پر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اور شاید کچھ اختلافات بھی ہوں۔

پس میں نے جو محسوس کیا وہ لکھا ہے۔ نتیجہ قاری کا حق ہوتا ہے۔ وہ جو چاہے تشریح کرے، میرے لیے بیتے ہوئے لمحے آپ کے سامنے رکھنے ضروری تھے۔ میرے پاس لکھنے کو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن وقت سے مجبور ہوں امتحانات سر پر ہیں۔ اگر زندگی نے وفا کی تو دسمبر میں کوشش کرونگا۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments