مراد سعید بھی ڈاکٹر بابر اعوان کے نقش قدم پر


مرا د سعید کی تقریر سنتے ہوئے بلوچستان کے علی احمد کرد یاد آجاتے ہیں۔ وہی جو ش و جذبہ، وہی لفظ لفظ میں زندگی، وہی بجلی کی سی گرج کڑک۔ دونوں کی تقریر کا ایک ہی آہنگ ہے۔ سنبھلو، جھپٹو، اٹھو، دوڑو اور لو وہ ٹوٹی زنجیریں۔ دونوں ہی مجمع کو آگ لگانا جانتے ہیں۔ علی احمد کرد وکلا سیاست کی راہ سے شہرت کی بلندیوں تک پہنچے۔ مراد سعید نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز طلبا سیاست سے کیا۔ (چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک! مدیر) قسمت اتنی اچھی پائی کہ پہلے الیکشن میں ہی قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔ 2013ء کی اسمبلی کے کم عمر ترین ممبر ثابت ہوئے۔ مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے یہ نوجوان اب دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ہیں۔ ورنہ ہماری سیاست میں اب مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں کا اسمبلی تک پہنچنا محال ہو گیا ہے۔ جیسے اِدھر مکان سر چھپانے کیلئے نہیں، فاضل دولت کی نمائش اور اسے کھپانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ یہ فاضل دولت کی نمائش اور اسے کھپانے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ اسی طرح اب سیاست بھی خدمت کی بجائے دھن دولت والوں کا ایک گھناﺅنا کھیل ہو کر رہ گئی ہے۔ امیر زادوں کو اپنی گاڑی کیلئے پرکشش نمبر کے ساتھ ساتھ اس پر  MPAاور  MNA کی ”پھٹّی“ بھی لگوانا اچھا لگتا ہے۔ پھر یہی شوق انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی گاڑی کرنسی نوٹوں سے بھریں اور میریٹ ہوٹل اسلام آباد پہنچ جائیں۔

کالم نگار کے 6 مئی 2013ء کے روزنامہ ”نوائے وقت “ میں شائع ہونے والے کالم سے ایک اقتباس:”میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی بورڈ کا اجلاس ہو رہا تھا۔ موضع کوہلو والہ تحصیل گوجرانوالہ کے چوہدری بلال سانسی کو پچاس لاکھ روپے لے کر وہاں پہنچنے کا حکم ملا۔ اس نے نوٹوں کی گڈیوں سے تھیلا بھرا اور اسلام آباد کی طرف چل دیا۔ میریٹ ہوٹل کے قریب پولیس چیک پوسٹ پر سپاہی نے ڈگی کی تلاشی لیتے ہوئے پوچھا۔ ”اس تھیلے میں کیا ہے “؟ بلال سانسی نے جواب دیا۔ ”کرنسی نوٹ ہیں “ سپاہی بے ساختہ بولا۔ ”اچھا تو آپ بھی میریٹ ہوٹل جا رہے ہیں۔ وہاں جو بھی جا رہا ہے، کرنسی نوٹوں سے لدا پھندا جارہا ہے۔ نجانے وہاں کیا کاروبار ہو رہا ہے“؟ اب بلال سانسی کی بدقسمتی کہ اس کے حلقے کا ٹکٹ اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی فروخت کیا جا چکا تھا“۔

آج ہمارے حالات 2013 کی نسبت بہت گھمبیر اور سنگین ہیں۔ آج پی ٹی آئی کو نسبتاً بہتر تنظیم کی ضرورت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ آج بھی وہی لوگ پی ٹی آئی کی تنظیم میں طاقتور ہیں جو 2013 میں با اختیار تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں دو ایٹمی طاقتیں اک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک کی دونوں اپوزیشن جماعتیں کچھ اچھا رول ادا نہیں کر رہیں۔ ان حالات میں تحریک انصاف کی تنظیم میں اوربہتر لوگ چاہئیں۔ گذشتہ ادوار میں ہماری اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی دونوں جماعتوں نے یہ تاثر کبھی نہیں دیا کہ وہ اپنی فوج سے شیر و شکر ہیں۔ اب تو کچھ ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ کھل کر اس کے مقابلہ میں آگئی ہو۔ ایک موقعہ پر تو آصف زرداری نے تو ان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کر دیا تھا۔

بولے۔ ”آپ صرف تین سال کیلئے آتے ہیں۔ تین سال بعد آپ ریٹائرمنٹ کی دھول میں گم ہو جاتے ہیں۔ جبکہ ہم سیاستدان ہمیشہ اقتدار کے تخت پر براجمان ہوتے ہیں“۔ (برادرم انصاری صاحب، حوالہ اگر واوین میں ہو تو مفہوم نہیں، اصل لفظ لکھے جاتے ہیں۔ مدیر) مزے کی بات ہے کہ آج موصوف جیل میں اے کلاس کی سہولتوں کیلئے درخواست گذارہیں۔ جنہیں وہ تین سال کے بعد گھر جانے کا طعنہ دے رہے تھے، وہ مزید تین سال کی توسیع لئے بیٹھے ہیں۔ (یہ اتحاد مبارک ہو مومنو کے لئے – مدیر) دوسری جانب میاں نواز شریف اپنی سیاسی جماعت کا مقابلہ پی ٹی آئی کی بجائے سیدھا فوج سے ہی سمجھے بیٹھے ہیں۔ وہ مقتدر اداروں پر اپنی حدود سے تجاوز کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے چشم پوشی کر رہے ہیں کہ ایک مضبوط فوج کے باعث ہی پاکستان عراق اور شام بننے سے محفوظ رہا ہے۔ (حضور انصاری صاحب، آپ کے بدخواہ کہتے ہیں کہ عراق اور شام مضبوط فوج کی مدد سے عوام کا ٹینٹوا دباتے چلے جانے ہی سے اس حال کو پہنچے ہیں۔ مدیر) اگر مقتدر ادارے اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں تو کیا ہماری سیاسی جماعتیں پٹڑی پر چڑھی ہوئی ہیں؟ (اس جملے کا آئینی مفہوم “معنی شعر در بطن شاعر” سمجھا جائے؟ مدیر)

میاں نواز شریف جمہوریت کا صرف ایک مطلب سمجھتے ہیں کہ کوئی ان کا احتساب نہ کر سکے۔ یہ کتنی تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ان کی تعداد میں روز بروز بڑھتے صنعتی اداروں کا سارا منافع باہر چلا جاتا ہے۔ صرف دھواں ہی ملک میں رہ جاتا ہے۔ ہندوستانی اپوزیشن پارٹیاں الزام لگا رہی ہیں کہ کشمیر کے مسئلے پر مودی کی غلط پالیسی کے باعث کشمیر ہندوستان کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ ادھر ہماری اپوزیشن پارٹیاں محض ذاتی حسد، بغض اور نفرت میں عمران خان پر کشمیر بیچنے کا بھونڈا الزام لگائے جا رہی ہیں۔ ہمارے سیاستدان ابھی اجتماعی شعور اور قومی مفاد سے بہت دور ہیں۔ اب تک ہمارے شعلہ بیاں مقرر مراد سعید نے خطابت کا مورچہ ہی سنبھالا ہوا تھا۔ اب موصوف قلم پکڑے ڈاکٹر بابر اعوان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کالم نگاری کے میدان میں آن اترے ہیں۔ ان سے پہلے تحریک انصاف کے صف اول کے قائدین میں سے صرف ڈاکٹر بابر اعوان ایک قومی روزنامہ میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ ان کے ہفتے میں دو بار شائع ہونے والے کالم بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ اپنے پہلے اخباری کالم ”عمران خان کا احساس“ سے مراد سعید یہ احساس دلانے میں کامیاب رہے ہیں کہ ان کی تحریریں اپنی جماعت کیلئے بہت مفید ثابت ہونگی۔ ایک اچھی تحریر جادو سا اثر رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کا تو کیس ہی بہت مضبوط ہے۔ ورنہ باکمال لکھنے والے ہتھیلی پر سرسوں جمانا بھی جانتے ہیں۔ اسی لئے حضرت بےخود دہلوی لیلیٰ مجنوں کی کہانی کسی لکھنے والے کا کمال ہی سمجھتے تھے۔

سودائے عشق اور ہے وحشت کچھ اور شے

مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا

(اللہ اللہ، مدیر درویش جانتا ہے کہ بھائی فاروق عالم انصاری اپنا کالم خود لکھتے ہیں۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ بابر اعوان اور مراد سعید کے بھاڑے پر لکھوائے کالموں کی پہچان نہیں رکھتے۔ فدائے تو شوم، بیا بیا کہ تو بہرصورتے می آید، من ترا خوب می شناسم)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).