سماجی مکالمے کی کچھ لسانی مشکلات


\"aasem-bakhshi\"

عصری لسانیاتی فلسفے کی ایک مخصوص جہت بہت تیزی سے مشاہداتی اور تجرباتی بنیادوں پر یہ واضح کرتی چلی جا رہی ہے کہ الفاظ کچھ ایسے معنویاتی گروہوں سے مضبوطی سے منسلک ہوتے ہیں جو اپنی ٹھوس سماجی و تاریخی بنیادیں رکھتے ہیں۔ہماری رائے میں بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ مکالمے میں کسی اٹل اصرار کو کچھ دیر کے پسِ پشت ڈالتے ہوئے پہلے ذخیرۂ الفاظ و اصطلاحات کی پیچیدگی پر سمجھوتہ کر لیا جائے تاکہ ایک دوسرے کی تفہیم کے ذریعے نہ صرف سماج کے مختلف فکری دھارے ایک دوسرے سے شناسائی پیدا کر سکیں بلکہ ہو سکے تو خود بخود تفہیم کے کچھ بنیادی مسائل پر سمجھوتے کی صورت پیدا ہو سکے۔

کسی بھی معاشرے کی طرح ہمارے ہاں مکالمے میں کچھ بنیادی اصطلاحات و الفاظ کا استعمال کثرت سے دیکھا گیا ہے۔ ذرا عمومیت پر سمجھوتا کیا جائے تو ان الفاظ و اصطلاحات کو دو بنیادی گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں اول گروہ تو وہ ہے جہاں اصطلاحات بنیادی طور پر تکنیکی ہیں اور مکالمے کے دوران چونکہ تمام فریقین اپنے ذہن میں ان اصطلاحات کے مختلف معانی فرض کر تے ہیں لہٰذا نہ صرف خلط مبحث پیدا ہوتا ہے بلکہ کئی دفعہ تو ایک دوسرے کے زاویۂ نگاہ کے بارے میں بنیادی تفہیم کا پڑاؤ بھی پار نہیں ہو پاتا۔ پھر اسی گروہ میں موجود اصطلاحات اپنا مخصوص تکنیکی تناظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک عام فہم روزمرہ اور محاورے سے بھی تعلق رکھتی ہیں لہٰذا ان کے سطحی معنی پر مسلسل اصرار کسی ایسے مکالمے میں کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا جہاں سماجی خاکہ بندی اور نظریہ سازی کے پیچیدہ معاملات زیرِ بحث ہوں۔ ہم اس گروہ کی تعریف اس طرح کر سکتے ہیں کہ یہاں موجود ذخیرۂ الفاظ etymologically تو تکنیکی ہے لیکن روزمرہ میں بھی کچھ مخصوص معنی سازی سے گزر کر عام فہم معنوں میں مستعمل ہے۔ اس پر بحث ممکن ہے کہ وہ عام فہم معنی کیا ہیں۔ مثال کے طور’تہذیب’ ہمارے ہاں بہت زیادہ استعمال ہونے والا ایک ایسا ہی لفظ ہے ۔بچہ بچہ جانتا ہے کہ علامہ اقبال کا حکم ہے کہ نئی تہذیب کے گندے انڈے اٹھا کر باہر پھینک دئیے جائیں تو سوال پید ا ہوتا ہے کہ وہ انڈے کس ٹوکری میں موجود ہیں؟ انہیں کہاں تلاش کیا جائے، ان انڈوں کے استعمال سے پرہیز کیوں کر ممکن ہے او ر استعاراتی گلی محلوں کو ان سے گندا کیوں جائے؟ ظاہر ہے کہ یہ تمام سوالات اسی ایک لفظ ”تہذیب“ کی تفہیم سے جڑے ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے سے منسلک دو الفاظ ”جدید“ اور”جدیدیت“ ہیں۔ ہمارے ہاں جدید علم، جدید زندگی، جدیدیت پسندی بمقابلہ روایت پسندی اور روشن فکری بمقابلہ رجعت پسندی یا خرد دشمنی وغیرہ جیسے مرکبات اور ا ن سے جڑی بحثیں عام ہیں اور فریقین ان اصطلاحات کو نہ صرف اپنی مرضی کے معنی پہنانے پر قادر ہیں بلکہ کئی موقعوں پر تو یہ مفروضے بھی باندھتے نظر آتے ہیں کہ مخاطب ان کے کیا معنی رکھتا ہے۔ اوپر اتفاق سے استعمال ہو جانے والابالکل ایسا ہی ایک اور لفظ ’روایت‘ بھی ہے۔

اس کے برعکس الفاظ کا دوسرا گروہ ایسا ہے جہاں الفاظ بنیادی طور پر تو روزمرہ کی زبان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن مختلف علمی مناہج کے زیرِ اثر نہ صرف پیچیدہ ہو چکے ہیں بلکہ ان کے معنی مسلسل وسعت پزیر ہیں۔ اس ذخیرۂ الفاظ کی پیچیدگی کا تعلق کسی زمانے میں تو صرف فلسفے سے تھا لیکن اب سماجیات، سائنس ، تاریخ اور بشریات سے بھی جڑا ہے ۔ یہ معانی کے کچھ ایسے ظروف ہیں جن کی وسعت لاانتہا محسوس ہوتی ہے۔ یہ ذخیرہ ٔ الفا ظ پہلے گروہ کے مقابلے میں کافی ضخیم ہے اور اس میں موجود الفاظ بادیٔ النظر میں بہت عام فہم اور آسان محسوس ہوتے ہیں اور جب مکالمے میں استعمال ہوتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ہرگز تعریف کی حاجت نہیں لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو مکالمے کی تمام تر پیچیدگی بنیادی طور پر ان الفاظ کے گرد ہی گھوم رہی ہوتی ہے۔ الہامی متون، نیم مذہبی روایتیں یہاں تک کہ کلاسیکی ادب بھی ان سے جڑے مباحث اور معنی کی تہیں کھولنے کا کام مسلسل جاری رکھتا ہے۔ کچھ مثالوں سے کام لیا جائے تو ’انسان‘ ایک ایسا ہی لفظ ہے جسے ویسے تو تعریف کی حاجت نہیں لیکن ذرا سا غور و فکر بھی اس کی پیچیدہ تہوں سے شناسائی کے لئے کافی ہے۔ بالکل یہی حال ”کائنات“، ”خدا“، ”شعور“، ”فہم“ وغیرہ جیسے الفاظ کا ہے۔

مثال کے طور پر اگر صرف لفظ ”عقل“ ہی کو سامنے رکھ کر تاریخِ فلسفہ کا سرسری مطالعہ کیا جائے تو باآسانی معلوم ہو سکتا ہے اس بظاہر معمولی سے لفظ کی تعریف میں کیا عظیم مشکلات پائی جاتی ہیں۔ قدیم فلسفیانہ ادوار ہی سے اس کا تعلق ‘ارادے’، ‘شعور’، اور یونانی ‘لوگوس’ وغیرہ سے قائم کیا جانے لگا۔ ارسطو کی بدن اور روح کی نظریہ بندی کے بعد تصورِ تعقل میں ایک ایسی دوئی پیدا ہوئی جو کئی صدیاں قائم رہی اور ابن رشد اور ابن طفیل سمیت کئی مسلم ،عیسائی اور یہودی فلسفہ و حکماء تعقل کو عقل بالفعل اور عقل بالقوۃ میں تقسیم کرتے رہے۔ یہ دوئی درحقیقت اس مفروضے پر قائم تھی کہ انسانی ذہن میں تعقلی استعداد کا ایک حصہ تو حسی ادراک سے وصولی کے وظیفے میں مشغول رہتا ہے اور دوسرا حصہ اس حسی تجربے میں موجود تجرید کی قابلِ فہم نسبتوں میں تشکیل کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم حسی ادراک سے یہ تجربہ تو فوراً کر سکتے ہیں کہ فلاں شکل ایک تکون کی ہے لیکن اس تکون کے تینوں زاویوں میں تعلق فوری تجربے نہیں بلکہ دریافت سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ دونوں کام مختلف قسم کی تعقلی استعداد کو لازم کرتے ہیں۔ قرون وسطی کے ابتدائی فلسفیانہ ادوار تک فلسفے، مذہب اور سائنس وغیرہ میں کوئی خاص تقسیم نہ تھی اور ایک مربوط لسانی منطق کسی حد تک تینوں سطح پر ہی ایک مشترکہ ذخیرۂ الفاظ کے ساتھ کارفرما رہتی تھی ۔یورپ میں تنویری تحریک جن متنوع فلسفوں کے باعث ممکن ہوئی انہوں نےدراصل اس مشترکہ منطق کا نظری اور سماجی دونوں سطح پر ربط ختم کر دیا یا یوں کہئے کہ اس ربط کے تناقضات کو نمایاں کر دیا ۔ اس کا واضح نتیجہ تمام مابعدالطبیعاتی قضایا کی ایمانیات اور معقول استدلال کے درمیان ایک مبہم سی تقسیم تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی گئی۔ اس سلسلے میں جہاں ایک طرف کانٹ اور ہیگل وغیرہ جیسے عظیم فلسفیوں نے نادر منطقی نظام متعارف کروائے ، وہیں پاسکل اور چارلس پرس جیسے سائنسدان فلسفیوں کا خالص عقلی استدلال کو قلب کی استدلالی قوت، انسانی ارادے، میلانِ طبع اور احساسات کے طابع کرنا بنیادی طور پر اسی خلیج کو پاٹنے کی غیر مدرسی کوشش تھی۔ یہاں ہابس وغیرہ جیسے ان فلسفیوں کو چھوڑ کر جو استدلال کو خالص مادی نقطۂ نظر سے ایک میکانی وظیفے کے طور پر دیکھتے ہیں، ہمیں زیادہ تر فلسفی عقلی استدلال کو مابعدالطبیعاتی اعتقادات کی پرکھ کے لئے ایک آلہ سمجھتے نظر آتے ہیں۔ کم و بیش یہی صورت حال مدرسی روایتوں میں مذہبی متکلمین کی ہے جو واضح الہامی اشاروں کی بنیاد پر انسانی عقل ہی کو خدا کا مخاطب گردانتے ہیں ۔

لفظ ”عقل“، ”تعقل“ یا ”معقول استدلال“ کے گرد بنے گئے اس نہایت سطحی سے سرسری خاکے سے ہمارا مقصد ادنٰی درجے میں بھی کوئی وسیع تاریخی احاطہ نہیں بلکہ صرف سماجی مکالمے کی تہوں میں موجود نفسیاتی پیچیدگیاں اور باجواز تعصبات کی تفہیم میں حائل مشکلات کی جانب اشارہ ہے۔ ہم ان تعصبات کو باجواز اس لئے سمجھتے ہیں کہ یہ مختلف میلانات و تجربات کے نتیجے میں ایک انسان کے علمی و عقلی سفر کا نتیجہ ہیں اور ان کے مطابق اپنی وجودی تفہیم اس کا بنیادی حق۔ ہماری رائے میں کسی بھی سماج میں فکری تنوع کا ہونا ایک امرِ لازم ہے اور مکالمے کا بنیادی مقصد باہمی تفہیم کے ذریعے ان ذہنی خاکوں کی مشکلات تک رسائی ہے جو فریقِ مقابل کے ذہن میں موجود ہیں۔ جہاں ہمارے سماجی مکالمے میں موجود فریقین میں سے ایک کو اخلاقی اضافیت اور مادی تجربیت پسندی پر اعتقادی یقین ہے وہیں دوسرے کا اٹل اعتقاد یہ ہے کہ آج بھی دنیا میں کوئی ایسی مشترکہ اور مربوط منطق پائی جاتی ہے جو الہامی اعتقادات اور انسانی استدلال کی تہوں میں یکسر کام کرتی ہے۔ ہماری رائے میں فی الوقت ان دونوں اعتقادات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اس کم سے کم بنیادی قضئیے پر اتفاق ممکن ہے کہ امکانات کا دائرہ یقیناً وسیع ہے اور اس کی وسعت یہ لازم کرتی ہے کہ ہم اپنے اپنے اعتقادات کو واضح کرنے کی کوشش اس طرح کرتے رہیں کہ ہر اعتقاد سے برآمد ہوتی عملی جہت کو ساتھ ساتھ اس طرح متصور کریں کہ سماج میں موجود فرد پھلوں کے ذائقے سے پیڑوں کے بارے میں کوئی واضح رائے قائم کر سکے۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments