کپتان، رشتے مانگنا نہیں، بنانا سیکھو


\"wisi-baba\" ہم پیار نہ کرتے تو حکومت کرتے۔ شاعر نے جانے کس ترنگ میں کہہ دیا تھا۔ مخدوم امین فہیم نے یہ مصرعہ ایک پروگرام میں سنایا تھا۔ وہ اپنی جگہ سچے تھے۔ انہوں نے اپنی پارٹی سے وفا محبت کی مثال قائم کی۔ عہدوں کی پیشکش ہوتی رہی وہ ٹھکراتے رہے۔ حکومت کرنے کے لئے سیاست کا فن سیکھنا پڑتا ہے۔ سیاست محبت جیسی ہے۔ جسے محبت والی کمٹمنٹ کے بغیر سرے نہیں پہنچایا جا سکتا۔

استاد نے ایک بزرگ سیاستدان کی اپنے بیٹے کو نصیحت سنائی۔ جس نے اپنے وارث سے کہا۔ لوگوں سے براہ راست تعلق بنانا۔ جب ان سے ملنا تو ان کا ہاتھ تھامے رہنا۔ جب ان سے بات کرنا تو انہی کو توجہ دینا۔ ان کا مطالبہ جیسا بھی نامناسب ہو غور سے سننا۔ جب انکار کرنا تو اپنی مجبوری بتانا۔ ہاں انہیں کچھ باتوں کی ان کاموں کی وضاحت کر دینا ۔ جو تم نہیں کر سکو گے۔ وہ کام جب نہیں کرو گے تو کوئی تم سے گلہ نہیں کرے گا۔

لوگوں کو صرف اپنی سوچ سے آگاہ کرنا کافی نہیں ہے۔ ان کی سوچ سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے۔ ہر صورت یہ جاننے کی کوشش کرنا کہ لوگ کیا پسند نہیں کرتے۔ لوگ جو بات ناپسند کریں اس سے بچتے رہنا۔ لوگوں کی خوشیوں غموں میں ان کے درمیان رہنا۔ عید پر جب لوگ ملنے آئیں تو تحفوں کا حساب رکھنا۔ اگر یہ تحفے پچھلی عید سے کم ہوں۔ جا کر اپنے لوگوں کو منا لینا ان سے رابطے بڑھانا۔

ان باتوں میں ایسا کیا ہے جو محبت میں تعلق میں نہیں ہوتا۔

آپس کی باتیں محفل میں نہیں کرنی۔ محفل میں ذاتیات پر بات نہیں کرنی۔ اک زرا سا عزت احترام اپنے ساتھیوں کو دینا ہے۔ اپنی مہم اعلی اخلاقی قدروں پر اٹھانی ہے۔ یہ سب وہ سادہ سی باتیں ہیں جو سب جانتے ہیں۔ نہیں جانتا تو کپتان نہیں جانتا۔ جس کی پرائیویٹ پر پبلک میں بات ہوتی ہے۔ کپتان اپنے معاملات کو خود بکھیر لیتا ہے۔

رائے ونڈ رشتہ لینے نہیں جا رہا۔ یہ کہہ کر کپتان نے اپنی مہم کو آسمان سے زمین پر دے مارا ہے۔ یہ تب کہا جب طاہر القادری کے کپتان کے ساتھ رائے ونڈ نہ جانے پر سوال ہوا۔ کپتان کا کہنا تھا انہیں پتہ نہیں کیا تکلیف ہے۔ میں کونسا رشتہ لینے جا رہا ہوں۔ یہ کہہ کر کپتان نے پھر ثابت کیا ہے۔ وہ اپنے لوگوں کو نہیں جانتا۔ ان سے اس کا کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔ وہ ان کے مزاج کو نہیں سمجھتا۔ وہ اس سے بھی واقف نہیں ہے کہ یہ اس کی باتیں ہیں۔ جو اس کی سیاست کو لے بیٹھی ہیں۔

کپتان کی سیاست کا جائزہ لیا جائے۔ اس کی حکمت عملی بری نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے اس کی پارٹی اس وقت تقسیم ہو رہی ہے۔ بار بار شکست کھا کر مقبولیت کا گراف \"imran-rehan\"گراوٹ کا شکار ہے۔ پارٹی کو متحد اور توانا رکھنے کے لئے اب ایک ہی حل ہے۔ ایک احتجاجی مہم مسلسل جاری رکھی جائے۔ جو لیڈر اپنی مقبولیت روڈ پر دکھا دے۔ اس کے ساتھی اس کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔

احتجاجی موڈ میں مستقل رہنا ہی کافی نہیں ہے۔ جو پیغام دیا جا رہا ہے اس پر بھی غور کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ لیکن کپتان کا ایک مسئلہ ہے۔ گمان غالب ہے کپتان نے کبھی محبت نہیں کی۔ اس نے فلرٹ کئے ہیں۔ اس کی مہارت بریک اپ کی ہے۔ اس کا تعلق گلیمر سے رہا ہے۔ وہ چاہے جانے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ کیمرے کے سامنے رہنے کو ہی سیاست کے لئے کافی سمجھتا ہے۔ یہ اس کا مزاج ہے جو اسے لے بیٹھا ہے۔

چیچہ وطنی کے بعد ٹیکسلا میں اپنی جیتی ہوئی سیٹیں وہ ہار گیا ہے۔ یہ اس کی اپنی باتیں ہیں جس نے ووٹر کو اس سے دور کر دیا ہے۔ اس کے قریبی ساتھی اسے چھوڑ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انہیں صرف استعمال کیا گیا۔ اپنی الیکشن مہم میں سرگرم رہنے والے اپنے کزن کی وفات پر کپتان افسوس کرنے نہیں گیا۔ اس دن اپنی سالگرہ کا کیک کاٹنے میں مگن رہا۔ یہ سب باتیں لوگوں سے رسموں سے رواج سے لاتعلقی ظاہر کرتی ہیں۔

کپتان صاحب آپ ایک غلط بات کر بیٹھے ہیں۔ اس پر ایک معذرت بنتی ہے۔ آپ کی اپنی پارٹی میں آپ کے ساتھی بھی اس کو پسند نہیں کر رہے۔ رہ گئی بات رشتوں کی تو رشتے تو آپ نہیں نبھا سکے۔ وہ بھی جو خود بنائے، وہ بھی جو آپ کو بنے بنائے ملے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments