جنگل کی آگ


ایمیزون کے جنگلات میں آگ لگنے کا سلسلہ جاری ہے۔ دنیا احتجاج کر رہی ہے اور برازیل کی حکومت کے خلاف پابندیاں لگانے کا غوغا اٹھ رہا ہے۔

ادھر ہمارے ہاں سنا گیا تھا کہ پلاسٹک کے شاپر ختم کیے جائیں گے، بات چل پڑی ہے۔ اسلام آباد سے خبریں مل رہی ہیں کہ شاپر کی جگہ پھر سے سودا سلف لانے کا تھیلا متعارف کرایا جا رہا ہے۔

خیر بات ہے ماحول کی۔ ماحول کی بات پہلے کوئی نہیں کرتا تھا، اب ہر کوئی کرتا ہے مگر ماحول کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ اسی رفتار سے ہوتا رہتا ہے۔

شاپر کی جان کے لاگو ہونے والوں کی ایک دعوت پر ہم نے آج ہی کچھ دیر پہلے دیکھا کہ شرکا میں سے ہر فرد کے سامنے پلاسٹک کی بوتل میں پانی لا کر رکھا گیا۔ پلاسٹک کے شاپر استعمال کرنے والوں پہ بہت غصہ تھا، ہمیں بھی تھا لیکن کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سرکاری احدی، ایک سپر سٹور کے شاپر میں کاغذ بھرے ادھر سے ادھر دوڑتے پھر رہے تھے۔

حبس شدید تھا، ایئر کنڈیشنر کام کرنے سے منکر تھا اور کھڑکیاں دروازے پچی کر کے بند کر دیے گئے تھے۔ شیشوں کے باہر، مال روڈ کے ہرے کچور درخت اور ان میں سے جھانکتا، بادلوں بھرا آسمان آنکھ مارتا تھا، کیوں کیسی رہی استاد؟ یہ ماحول کی بات ہو رہی ہے؟ پتے دیر تک تالیاں بجا بجا کے ہم پہ ہنستے رہے۔

ایمیزون کے جنگل کہیں لاطینی امریکہ میں جل رہے ہیں اور شور فرانس کے صدر مچا رہے ہیں۔ آخر ایسا کیوں؟

ایک جنگل میں آگ بھڑک اٹھی۔ بائیں طرف نظر آنے والا ہرن بھی جل کر ہلاک ہو گیا۔ مقامی کسان کے کتے مردہ ہرن کے پاس افسردہ بیٹھے ہیں۔

وجہ یہ ہے کہ انسان اس سیارے پہ فقط ایک اور جانور ہے، جو کسی وجہ سے دو ٹانگوں پہ چلنے لگا اور بولنے لگا۔ اس کی فطرت میں ایک خوف ہے، جنگل سے خوف۔ اس جنگل سے خوف جس کی غذائی زنجیر میں انسان کے پرکھے باقی جانوروں سے کہیں نیچے پائے جاتے تھے۔ سب جانوروں سے کمزور، سب سے کم خوراک حاصل کرنے والا۔ یہ بھوک، ندیدہ پن بن کے انسان کی سرشت میں حلول کر گئی۔

ہم جس خطے میں بس رہے ہیں یہاں کئی ہزار سال قبل بہت بھاری جنگل پایا جاتا تھا جس میں باگھ بگھیلے گھومتے تھے اور گینڈے کی وضع کا ایک جانور پایا جاتا تھا جو اب ناپید ہے۔ وہ جنگل ہم نے( یا ہم سے پہلے یہاں بسنے والوں نے) مبینہ طور پہ اینٹیں بنانے کے بھٹوں میں جلا جلا کے ناس کر دیا۔

ایمیزون کی وادی بھی کچھ ہماری سندھ کی وادی جیسی ہی ہے۔ وہ ہم سے پانچ ہزار سال پیچھے ہیں۔ جی ہاں، یہ جس شے کو ہم ترقی یا بستی بسانا کہتے ہیں یہ اس سیارے کی بربادی ہے۔ ہم یہ ترقی پانچ ہزار سال قبل کر چکے اور بھر پائے۔

ایمیزون والے مبینہ طور پہ آج کھیتی باڑی، مویشی پالنے اور لکڑی بیچنے کے لئے جنگل جلا رہے ہیں۔

جنگل کے جلنے سے درخت، جنگلی جانور اور آکسیجن پیدا کرنے والے درخت اور پودے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔

ایمیزون کے جنگلوں کی یہ آگ، مارگلہ کی پہاڑیوں پہ سال کے سال لگنے والی آگ جیسی ہی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ یہ جنگل امریکہ کے دو تہائی رقبے کے برابر ہے۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ اس آگ کا اثر کتنا بھیانک ہو سکتا ہے۔

جنگل کی آگ دو طرح سے لگتی ہے۔ ایک تو خشک موسم میں گیاہ، گرمی سے آگ پکڑ لیتی ہے یا پھر آسمانی بجلی سے آگ لگ جاتی ہے۔ پھر جب خس و وخاشاک میسر ہوں تو آگ کہاں رکتی ہے؟

دوسری بات تو سامنے کی ہے، انسانوں کی لگائی ہوئی آگ۔ دونوں طرح کی آگ جب بے قابو ہو جائے تو ایک قدرتی آفت یا کیٹسٹروف بن جاتی ہے۔ فطرت میں اس آفت کے لئے جگہ موجود ہے۔ کیٹسٹروف کے بعد دوبارہ جنگل اگتا ہے۔ پھر سے سب اپنے ٹھیے پہ آ جاتا ہے۔ گڑبڑ تب ہوتی ہے جب انسان جنگل جلنے یا جلانے کے بعد وہاں قابض ہو کے اپنی بستیاں بسانے بیٹھ جاتا ہے۔

برازیل کے صدر آگ لگانے کا الزام این جی اوز پہ دھر رہے ہیں اور باقی دنیا صدر کی پالیسیوں کو کوس رہی ہے جو ملک کی معاشی ترقی کے لئے ان جنگلات کو ہر طرح استعمال کرنا جائز سمجھتے ہیں۔

جس دوران یہ ساری جھک جھک جاری ہے، ایمیزون کے جنگل خاموشی سے جل رہے ہیں۔ ایک ایک پتہ، ٹہنی، ٹہنی پہ بنا گھونسلہ، درخت کی کھوہ میں بیٹھا ہارن بل، جنگل کے فرش پہ اگی گھاس اور درختوں سے لپٹی بیلیں اور ان بیلوں میں ٹنکے، شگوفے اور کلیاں، سب جلتے جارہے ہیں۔

رینگنے والے جانور اور پرندے، کیڑے مکوڑے، ممالیہ، گول آنکھوں والے، پلکیں جھپک جھپک کے انسان کے پاگل پن کو دیکھنے والے، مچھلی کی طرح ایک ٹک تاڑنے والے سب جل رہے ہیں۔ یہ جنگل جو زمین کے پھیپھڑے ہیں اور دنیا کو بیس فیصد آکسیجن فراہم کرتے ہیں بھسم ہوتے جا رہے ہیں۔

ایمیزون

ایک طرف ایمیزون جل رہا ہے دوسری طرف جنوبی ایشیا سلگ رہا ہے۔ ہم اپنے خطے کا جنگل برباد کر چکے ہیں، جانور مار چکے ہیں۔ کوؤں، چیلوں، گیدڑوں، چوہوں اور کاکروچوں کے علاوہ ہر نوع ناپید ہونے کے قریب ہے۔

تو اب انسان صدیوں کی اس غنڈہ گردی کا بدلہ خود سے لینے کو ایٹم بم بنائے ایک دوسرے کا گریبان پکڑے کھڑا ہے تو مجھے مار میں تجھے ماروں گا اور ایسے میں ہم گھبرا گھبرا کے کبھی جلتے ہوئے جنگل کو دیکھ رہے ہیں اور کبھی بلیوں کی طرح لڑتی دو ایٹمی طاقتوں کو اور پلاسٹک کی بوتلوں میں بھرا پانی پیے جاتے ہیں۔

پلاسٹک کے خلاف قانون بناتے جاتے ہیں اور میز کے اوپر نیچے، آگے پیچھے ہر طرف پلاسٹک کی بوتلوں کا ڈھیر لگتا جاتا ہے۔ ایٹم بم نہ بھی چلا تو پلاسٹک بم چل چکا ہے۔ پلاسٹک کی بوتل اور شاپر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکے ہیں۔ جتنا خطرناک شاپر ہے اسی قدر خطرناک یہ بوتل بھی ہے۔ آپ اپنی میزوں سے تو اس چنگاری کو ہٹا دیجیے، باقی جنگل بھی بچ ہی جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).