انڈیا دہائیوں پرانے جوہری معاہدے پر نظر ثانی کیوں کر رہا ہے؟


انڈیا کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا کہ انڈیا ‘جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کرنے کی اپنی نو فرسٹ یوز پالیسی پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔ ‘

ان کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خطے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ویسے ہی بڑھی ہوئی ہے۔

22 اگست کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھی نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ انڈیا پاکستان کے خلاف عسکری جارحیت کے لیے کشمیر میں جعلی کارروائی کا ڈرامہ رچا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں پاکستان جواب دینے پر مجبور ہو گا جس کا مطلب یہ ہوگا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس دو ممالک کو آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا دیکھ رہے ہوں گے اور پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

امریکہ کی میساچیوسیٹس انسٹٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر وپن نارنگ اور یونی ورسٹی آف البانی کے پروفیسر کرسٹوفر کلیری نے ان حالیہ واقعات کے تناظر میں اور ان کے جنوبی ایشیا پر ممکنہ اثرات کے حوالے سے بی بی سی کے لیے یہ تجزیہ تحریر کیا ہے.


انڈیا کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے حال ہی میں انڈیا کے جوہری ہتھیاروں کی پالیسی کے اہم ستون کی دوبارہ توثیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہیں کریں گے۔ لیکن انھوں نے ساتھ ساتھ یہ بھی سوال اٹھایا کہ یہ پالیسی کب تک چلتی رہے گی۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انڈیا اس پالیسی پر ابھی تک تو قطعی طور پر کاربند ہے لیکن ‘مستقبل میں کیا ہوگا، اس بارے میں حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے گا۔’

ان کا اشارہ انڈیا کی جانب سے نو فرسٹ یوز یعنی این ایف یو کی پالیسی کی جانب تھا کہ یہ پالیسی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے اور نہ ہی انڈیا اس پالیسی پر عمل کرنے کا پابند ہے۔

راج ناتھ سنگھ کا بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب صرف چند روز قبل ہی انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت برقرار رکھنے والی آئینی شق آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا جس پر پاکستان کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا۔

یہ بھی پڑھیے

ایٹمی ہتھیار:’استعمال کا فیصلہ حالات کے مطابق ہو گا‘

عمران خان: انڈیا سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں

’انڈیا کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے جعلی آپریشن کر سکتا ہے‘

دنیا کے جوہری ہتھیار کہاں کہاں ہیں؟

یہ کوئی معمولی بیان نہیں تھا۔ راج ناتھ سنگھ نے یہ بیان پوکھران کے مقام پر دیا جہاں انڈیا نے 1998 میں جوہری تجربہ کیا تھا۔

اس کے بعد انھوں نے اسی نوعیت کا ایک اور بیان اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کیا اور پھر انڈیا کے پریس انفورمیشن بیورو نے بھی اسی بیان کو باضابطہ طور پر شائع کیا۔

انڈیا کی جانب سے یہ اقدام ایسا اشارہ دیتے ہیں کہ شاید پہلی بار انڈیا نے باضابطہ طور پر این ایف یو سے پیچھے ہٹ جائے یا اس کی جگہ کوئی مبہم فیصلہ لیں۔ اس سے یہ نظر آتا ہے کہ شاید ایک دن انڈیا اپنی حفاظت کی خاطر جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔

این ایف یو ڈاکٹرائن کیا ہے؟

سرد جنگ کے دوران امریکہ، سویت یونین، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جنگ کی صورت میں وہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کرنے میں کوئی حجت نہیں کریں گے۔

ایسا کرنا دو صورتوں میں ممکن تھا۔

1) میدان جنگ میں اگر کوئی ملک شکست کا سامنا کر رہا ہو، تو وہ شکست سے بچنے کے لیے دشمن فوج کے خلاف چھوٹے جوہری ہتھیار استعمال کرے گا۔

2) اگر ایک ملک کو یہ خطرہ درپیش ہو کہ اس کا دشمن دھاوا بول دے گا، تو وہ اس صورت میں خود جوہری ہتھیار سے حملہ کر دے گا تاکہ دشمن فوج کا زیادہ سے زیادہ نقصان ہو جائے۔

جب انڈیا نے 1998 میں کیے گئے جوہری تجربے کے بعد اپنی جوہری صلاحیتوں کا اظہار کیا تو انھوں نے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ ‘جوہری جنگ’ کو مسترد کرتے ہیں۔ انڈیا کے مطابق انھوں نے اپنی جوہری قوت صرف اس وقت کے لیے تیار کی ہیں جب انھیں دشمن کی جانب سے حملے کا خدشہ ہو۔

پوخران

انڈیا نے سنہ 1974 میں پوکھران میں پہلے زیرِ زمین جوہری تجربات کرنے کا دعویٰ کیا

‘انڈیا کا این ایف یو پر عمل پیرا ہونے میں چین نے بھی ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔

چین نے جب 1964 میں جوہری تجربہ کیا تھا تو اس کے بعد انھوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ کبھی بھی، کسی بھی صورت میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے میں پہل نہیں کریں گے۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ انڈیا نے کبھی بھی چین کے اس دعوی پر یقین نہیں کیا اور یہی وجہ تھی کہ انھوں نے جواب میں 1998 میں اپنا جوہری تجربہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ چین اور انڈیا کے علاوہ دنیا کا کوئی اور ملک این ایف یو پر عمل پیرا نہیں ہے۔

ایک وقت میں شمالی کوریا نے بھی اس معاملے پر غور کیا تھا لیکن کسی نے ان کی بات پر دھیان نہیں دیا کیونکہ شمالی کوریا کی جانب سے جوہری ہتھیار تیار کرنے کا مقصد ہی یہی رہا ہے کہ وہ امریکی اور جنوبی کوریائی فوجوں کے حملے کے جواب میں اُن پر جوہری ہتھیار سے حملہ کرنے میں پہل کریں۔

امریکہ نے کئی بار این ایف یو کے بارے میں سوچا ہے تاکہ مستقبل میں روس یا چین کی جانب سے کسی بھی قسم کا عسکری تنازع سامنے آنے کی صورت میں معاملہ قابو میں رہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی یہ بھی خواہش رہی ہے کہ جوہری ہتھیاروں کو سیاسی استعمال یا دھمکیوں کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔

لیکن ان وجوہات کہ باوجود انھوں نے کبھی بھی این ایف یو کو نہیں اپنایا ہے۔

راج ناتھ سنگھ

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا این ایف یو کے بارے میں بیان پہلا موقع نہیں تھا جب انڈیا میں اندرونی طور پر اس پالیسی کے بارے میں بحث ہوئی ہو۔

انڈیا کے روایتی حریف اور پڑوسی ملک پاکستان نے ہمیشہ واضح طور پر یہ موقف اپنایا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کرنے سے دریغ کریں گے۔

ان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ روایتی جنگ کی صورت میں متوقع شکست کی صورت میں وہ جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔ پاکستانی دفاعی موقف نے اب تک انڈیا کو خود پر ہونے والے متعدد شدت پسندی کے واقعات کا جواب دینے سے روکے رکھا ہے جن کا ذمہ دار وہ پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔ انڈیا اب کیوں این ایف یو پر نظر ثانی کر رہا ہے؟

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا این ایف یو کے بارے میں بیان پہلا موقع نہیں تھا جب انڈیا میں اندرونی طور پر اس پالیسی کے بارے میں بحث ہوئی ہو۔ لیکن جس عہدے پر راج ناتھ براجمان ہیں، وہاں سے ایسی بات کا آنے کا مطلب ہے کہ یہ پہلے سے زیادہ کہیں زیادہ سنجیدہ معاملہ ہے۔

جب انڈیا نے سنہ 1998 میں جوہری دھماکے کیے تو اس کے بعد انھوں نے این ایف یو پر عمل پیرا ہونے کا اعلان کیا۔

پانچ سال بعد انڈیا نے اس پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے ایک ترمیم شدہ ڈاکٹرائن پیش کیا جس میں انھوں نے واضح طور پر کہا کہ کیمیکل اور بائیولوجیکل حملوں کی صورت میں انڈیا جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔

کئی ماہرین نے اس بات کو معنی خیز انداز میں لیا کہ جہاں انڈیا نے این ایف یو کی پابندی کرنے کا اعادہ کیا ہے، یہ ترمیم شدہ پالیسی ان کی بدلتی سوچ کی عکاسی کر رہی تھی۔

اس کے بعد سنہ 2016 میں انڈیا کے اُس وقت کے وزیر دفاع، منوہر پاریکر نے سوال اٹھایا کہ انڈیا نے خود کو این ایف یو کے شکنجے میں کیوں جکڑا ہوا ہے۔

منوہر پاریکر کے مطابق بہتر یہ ہوتا کہ انڈیا کے دشمنوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ انڈیا کیا قدم لے گا۔

تاہم بعد میں انھوں نے وضاحت پیش کی کہ یہ خیالات انھوں نے ذاتی حیثیت میں پیش کیے تھے۔ لیکن راجناتھ سنگھ نے ایسی کوئی وضاحت نہیں پیش کی ہے۔

چین کے جوہری تجربات

چین نے جب 1964 میں جوہری تجربہ کیا تھا تو اس کے بعد انھوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ کبھی بھی، کسی بھی صورت میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے میں پہل نہیں کریں گے

دوسری جانب انڈیا نے اپنی ٹیکنالوجیکل صلاحیتوں میں اضافہ جاری رکھا جن کی مدد سے دشمن پر سبقت پانے کے لیے جوہری ہتھیار استعمال کرنے میں پہل کرنا ان کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

سنہ 1998 میں انڈیا کے پاس صرف گنتی کے بلیسٹک میزائل تھے۔ خفیہ معلومات حاصل کرنے کے ذرائع بھی کم تھے اور ہوا سے زمین پر باریکی سے ہدف پر گرانے والا اسلحہ بھی زیادہ تعداد میں نہیں تھا۔

لیکن اگلی دو دہائیوں میں انڈیا نے اپنی صلاحیتوں میں قابل ذکر اضافہ کر لیا ہے اور اب ان کے پاس بلیسٹک اور کروز میزائل بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ خلا سے تصاویر لینے اور جاسوسی کرنے والی سیٹلائٹ اور حتی کے بغیر پائلٹ کے جہاز جن کی مدد سے وہ دشمن کی سرحدوں کے اندر جاسوسی کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ انھوں نے مختلف نوعیت کے ایسے جدید اسلحے کو جمع کر لیا ہے جو ہدف کو باریکی سے نشانہ بنا سکتا ہے اور ان میں سے کئی تو ایسے ہیں جو ہدف سے بہت فاصلے پر رہ کر بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔

ان تمام اضافی صلاحیتوں کے باوجود انڈیا اب نہ صرف مقامی طور پر بلیسٹک میزائل سے دفاع کا نظام تیار کر رہا ہے بلکہ ساتھ ساتھ روس اور اسرائیلی ساختہ میزائل سے دفاع کا نظام مہنگے داموں خرید رہا ہے۔

ان دفاعی نظام کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اگر دشمن کی جانب سے کیا گیا وار پہلے سے کیے گئے حملے سے تباہ نہ ہوا تو یہ دفاعی نظام یقینی طور پر اس کا خاتمہ کر دیتا ہے۔

ایسا ہونا تو شاید مشکل ہے اس لیے یہ سوچنا اب ناممکن نہیں رہا کہ انڈیا کا کوئی رہنما یہ فیصلہ کرے کہ دشمن کی جانب سے کیے گئے حملے کی صورت میں ہونے والے نقصان سے بچنا کا طریقہ اس دشمن پر خود حملہ کرنے میں پہل کرنا ہوگی جس کی مدد سے وہ شاید انڈیا کے شہروں پر ہونے والے نقصانات کو محدود کر سکیں۔ یہ کیوں ضروری ہے؟

راجناتھ سنگھ نے اپنے بیان میں زور دیا تھا کہ ‘انڈیا کا ایک ذمہ دار جوہری ریاست ہونا قومی فخر کی بات ہے۔’

اس فخریہ لمحے اور انڈیا کی ساکھ کی وجہ عرصے سے انڈین حکومت کی جانب سے دیے گئے پیغامات تھے جس میں انھوں نے ہمیشہ یہ واضح کیا کہ صلاحیت اور قابلیت ہونے کے باوجود انھوں نے وہ اقدامات نہیں لیے جو وہ لے سکتے تھے اور وہ ان کے صبر کا مظاہرہ تھا۔

لیکن موجودہ حکومت کی جانب سے لیے گئے فیصلوں کے ناقدین میں سے ایک، سابق لیفٹیننٹ جنرل پراکاش مینون کہتے ہیں کہ اس معاملے پر انڈیا کو جو اخلاقی سبقت پاکستان پر حاصل تھی وہ کچھ کم ہو گئی ہے۔

دوسری جانب پاکستانی ریاست سے نہایت سخت پیغامات آ رہے ہیں۔ حتی کہ وزیر اعظم عمران خان نے خود انڈیا کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت پر سوالات اٹھائے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا کہ ‘انڈیا کے جوہری ہتھیار ایک فسطائی اور نسل پرست ہندو وزیر اعظم کے زیر انتظام کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟’

https://twitter.com/ImranKhanPTI/status/1162994699885584386

لیکن انڈیا کی جانب سے این ایف یو پر نظر ثانی کرنے کا سب سے زیادہ اثر پاکستان کے رد عمل سے واضح ہو گا۔

پاکستان کے جوہری اثاثوں کے رکھوالوں نے گذشتہ ہفتے اس بات پر زور دیا کہ انھوں نے انڈیا کی جانب سے این ایف یو کی پالیسی پر کاربند رہنے کے عہد پر کبھی یقین نہیں کیا۔

لیکن اب انڈیا کی بڑھتی صلاحیتوں اور راجناتھ سنگھ کے حالیہ بیان کے بعد پاکستان کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ مزید جوہری ہتھیار تیار کرے، انھیں بوقت ضرورت استعمال کرنے کے لیے جگہ جگہ پر پہنچائے اور انڈیا کی جانب سے اس اسلحہ کو تباہ کرنے کی کوشش سے پہلے ہی وار کر سکے۔

واہگہ

پاکستان کے جوہری اثاثوں کے رکھوالوں نے گذشتہ ہفتے اس بات پر زور دیا کہ انھوں نے انڈیا کی جانب سے این ایف یو کی پالیسی پر کاربند رہنے کے عہد پر کبھی یقین نہیں کیا

لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو ان ہتھیاروں کے تحفظ، حادثے سے بچاؤ اور کسی بھی قسم کی غلط فہمی کے نتیجے میں ہونے والی صورتحال کو سمجھنے میں وقت لگے گا۔

مگر شاید جنوبی ایشیا اسلحے کی اس خطرناک دوڑ کو روکنے میں شاید ناکام رہے جو سرد جنگ کا خاصہ تھی۔


کرسٹوفر کلئیری یونی ورسٹی آف البانی میں پولیٹیکل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

وپن نارنگ میسا چیوسیٹس انسٹٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پولیٹیکل سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp