راہل گاندھی کشمیر سیاست کرنے آئے تھے: گورنر کشمیر


راہل گاندھی

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں کانگرس رہنما راہل گاندھی کو ایئرپورٹ ہی سے واپس بھیجے جانے پر وہاں کے گورنر ستیا پال ملک کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی ایک پرانے دعوت نامے پر کشمیر محض سیاست کرنے آئے تھے اور انھیں اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق انڈین کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی نے سرینگر پہنچنے پر یہ موقف اپنایا تھا کہ وہ یہاں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے گورنر کی دعوت پر گئے تھے۔

جبکہ گورنر ستیاپال ملک نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ پہلے دیے گیے دعوت نامے کو اب سیاست کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں اور اسی لیے انھیں واپس بھیجا گیا ہے۔

واضح رہے کہ سنیچر کو راہل گاندھی حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کے 12 رکنی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے سرینگر پہنچے تھے لیکن حکام نے انھیں ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

راہل گاندھی: ’کشمیر میں حالات ٹھیک نہیں‘

نماز جمعہ کے بعد صورہ میں مظاہرہ اور پرتشدد جھڑپیں

’کرفیو ختم ہوا ہے مگر ہماری ناراضی ختم نہیں ہوئی‘

کشمیر میں زندگی کیمرے کی آنکھ سے

راہل گاندھی

بی بی سی نامہ نگار کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے گورنر نے کہا ہے کہ کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35- اے کو ختم کیے جانے کے ثمرات کا فائدہ بتدریج عوام کی سمجھ میں آئے گا اور عنقریب ریاست کے لیے چند مالی پیکجز کا اعلان بھی کیا جائے گا۔

بی بی سی نامہ نگار نے بتایا کہ ریاستی انتظامیہ نے حزب اختلاف کے وفد کو سرینگر سے واپس بھیجے جانے کو صرف نظر کیا ہے اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے گورنر نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس معاملے پر سیاست کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اس سے قبل 23 اگست کی شب حکومت کے تعلقات عامہ کے ادارے کی جانب سے ایک ہدایت جاری کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ اپوزیشن رہنماؤں کو ایسے وقت میں دورہ نہیں کرنا چاہیے جب یہاں دفعہ 144 نافذ ہے اور اپوزیشن رہنماؤں کےدورے سے دفعہ 144 کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔

یاد رہے کہ گورنر نے راہل گاندھی سے کہا تھا کہ اگر انھیں لگتا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حالات خراب ہیں تو وہ خود وہاں آ کر حالات کا جائزہ لے لیں۔

پابندیاں اور بندشیں

بی بی سی کے نامہ نگار نے وادی کشمیر کے حالات کے بارے میں بتایا کہ بیس روز گزر جانے کے بعد بھی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں خوف اور اضطراب پایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حالات سنہ 2016 کی طرح نہیں ہیں جب روزانہ چند افراد مارے جا رہے تھے۔ مگر یہ ضرور ہے لوگوں کو قید کا احساس ہو رہا ہے۔ وادی کشمیر میں مواصلاتی نظام بدستور بند ہے۔ کسی بھی خوشی یا غمی کی اطلاع یا کسی کی ہلاکت کا گرفتاری کی خبر پہنچنے میں بہت وقت لگ رہا ہے۔

حساس علاقوں میں داخلے پر پابندی کے ساتھ ساتھ شاہراہوں پر رکاوٹیں بھی کھڑی کی گئی ہیں۔ جس کے سبب بین الاضلاع سفر آدھے گھنٹے کے بجائے ڈھائی گھنٹوں میں ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس حوالے سے بات کی جائے تو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں لیکن چند شہری علاقوں میں رکاوٹوں میں کمی آئی ہے اور شاہراؤں پر نجی ٹرانسپورٹ چل رہی ہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ، رکشہ، ٹیکسی سروس تاحال بند ہے۔

انھوں نے بتایا کہ شہر میں اب تک دکانیں بند ہے اور کاروباری سرگرمیاں مکمل طور ہر معطل ہیں۔

کشمیر

کارگل اور لیح میں صورتحال

بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق کارگل سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق شروع میں کارگل میں کافی مظاہرے ہوئے تھے۔ لیکن اب وہاں حالات بتدریج بہتر ہو رہے ہیں اور کچھ علاقوں میں محدود پیمانے پر انٹرنیٹ سروس بحال کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کارگل سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس فیصلے کی کشمیر کے لوگوں کی طرح یکسر مخالفت نہیں کی مگر اپنے حقوق کے حق میں آواز اٹھائی کہ جو حقوق لیح کو دیے گیے ہیں وہ ہی کارگل کے عوام کو بھی دیے جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ لیح میں بدھ مت کے پیروکاروں نے محتاط انداز میں اپنااحتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے یہ کہا ہے کہ انھیں بھی آرٹیکل 370 کو ختم کیے جانے پر اعتراض ہے کیونکہ ان کے معاشی مفادات کو ضرب پہنچتی ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انھیں شمال مشرقی علاقوں کی طرح قبائلی سطح کا درجہ دیا جائے تاکہ باہر سے آنے والے ان کے علاقوں کے وسائل اور کاروبار پر قابض نہ ہو سکیں۔

یاد رہے کہ لداخ دو حصوں پر مشتمل ہیں جس میں ایک مسلم اکثریتی علاقہ کارگل جبکہ دوسرا بدھ مت اکثریتی علاقہ لیح ہے۔

جموں میں حالات

بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق جموں شہر میں حالات کم و بیش معمول پر ہیں اور وہاں پر نجی اور پبلک ٹرانسپورٹ چل رہی ہے۔ مقامی حکام کی جانب سے جموں، سانبہ اور رام بن کے چند علاقوں میں سکول کھلیں ہیں اور درس و تدریس کا عمل جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جموں صوبے کی بات کی جائے تو حالات وہاں ابھی بھی کشیدہ ہیں کیونکہ وہاں کے بیشتر علاقوں میں بندشیں اور پابندیاں لگی کوئی ہیں، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کی سہولت بھی مکمل طور پر فعال نہیں کی گئی ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق اس کی وجہ وہاں کی ہندہ مسلم آبادی میں فرق کا تناسب بہت کم ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ وہاں مذہبی فسادات کا خدشہ ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر مظاہرہ

جبکہ امریکہ سے صحافی سلیم رضوی نے بی بی سی کو بتایا کے امریکہ میں رہنے والے کشمیری اور پاکستانی نژاد افراد نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے کشمیریوں کے حق میں اور انڈیا کے خلاف مظاہرہ کیاہے۔

اس مظاہرے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان بھی شریک تھے۔

اس مظاہرے میں قریباً 300 شامل افرادنے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیریوں کے حق میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور جنھوں نے اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی۔

مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ کشمیر مسئلے کا حل نکالنے کا وقت آ گیا ہے اور انڈیا جو اپنے زیر انتظام کشمیر میں کر رہا ہے وہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp