چیف ٹریفک افسر جناب لیاقت ملک صاحب کے نام


جناب لیاقت ملک صاحب میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں۔ آپ کا کام کرنے کا طریقہ کار اور ہر مشکل صورت حال میں اپنے جوانوں کے ساتھ موجود رہنا پچھلے عہدے داروں سے مختلف ہے۔ وقتا فوقتاً آپ کی ویڈیوز اور تصاویر میں آپ کو غیر روایتی انداز میں کام کرتے دیکھ دیکھ کر مجھے لگا کہ چلو کوئی تو ہے جو کچھ نئے انداز میں اور جدید خطوط پر نظام کو استوار کرنا چاہتا ہے۔ میں شاید اس خوش فہمی میں مزید رہتا لیکن آج دفتر سے واپسی پر آپ کے ایک ٹریفک وارڈن سے اتفاقیہ آمنا سامنا ہو گیا جو کچھ موٹر سائیکل والوں کو دھمکیاں دے رہا تھا (دھمکیوں کے الفاظ ناقابل تحریر ہیں)۔

جواب میں غریب موٹر سائیکل سوار کہہ رہا تھا جناب معاف کر دو میرے بھائی کو 102 بخار ہے اور میں اسے صرف پل کے اس پار گلزار مجید ہسپتال میں ٹیسٹ کروانے لے کر جا رہا ہوں۔ پریشانی میں ہلمٹ نہیں پہن سکا میں آئندہ خیال رکھوں گا بس آج جانے دو۔ لیکن وردی بردار شخص اپنی دھن کا پکا تھا اس نے کہا تمہارا چالان ہو گا نہیں تو موٹر سائیکل بند ہو گی۔ تم جلدی اپنا لائسنس، شناختی کارڈ یا بائیک کے کاغذ دو۔ موٹر سائیکل سوار اور اس کے بھائی نے اپنی جیبیں ٹٹولیں مگر کوئی قابل قبول کاغذ برآمد نہ ہو سکا جس پروہ دوبارہ التجا لے کر معافی خواستگار ہوئے اور جانے دینے کی التجا کی جس کو فورا ہی وردی والے بابو نے ٹھکرا دیا اس دوران اپنے بھائی کی خراب ہوتی طبیت دیکھ کر سوار کا ضبط جواب دے گیا اور اس نے وارڈن کو کہاکہ اگر میرے بھائی کو کچھ ہوا تو تم ذمہ دار ہو گے۔

لیکن قوم کے ہونہار فرزند نے بہت رعونت سے جواب دیا کہ جاؤ پولیس کو بتاؤ یہ ساتھ کھڑا ہے کرو میری شکایت۔ تم نے مجھ سے زبان درازی کی ہے اب میں تمہیں 1000 روپے جرمانا کروں گا اور تمہاری موٹر سائیکل بھی بند کروں گا اور ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر اس کو بیمار بھائی سمیت دھکا دے کر اتارا اور موٹر سائیکل کی چاپی چھین لی اور دوسرے مرغوں کو روکنے میں مصروف ہو گیا۔ موقع پر موجود لوگوں نے مریض کی حالت دیکھتے ہوئے مداخلت کی کوشش کی لیکن آپ کی فورس کے ہونہار فرزند نے جو تاریخی کلمات کہے وہ سنہرے فریم میں لگا کر آپ کے دفتر کے صدر دروازے پر لگانے کے قابل ہیں۔

موصوف فرماتے ہیں ”کوئی مرتا ہے تو مرتا رہے میرا کام چالان کرنا ہے کسی کا علاج کرنا نہیں“۔ اسی دوران کچھ اور وارڈن تشریف لے آئے اور پکڑ دھکڑ تیز ہو گئی اور کارکردگی ملاحظہ کرنے کے لیے ایک سنت رسول کا حامل افسر بھی پولیس ڈالے میں وہاں سے گزرا لیکن غریب موٹر سائیکل سوار کی شنوائی نہیں ہوئی بالآخر قدرت کو مریض پر رحم آ گیا اور اس کا ایک محلے دار اس دیکھ کر وہاں رکا اور سارا معاملہ معلوم ہونے پر اپنا شناختی کارڈ دے کر اس غریب کی جان چھڑائی۔

مریض نے جاتے ہوئے وارڈن سے کہا کہ ”اعظم صاحب آپ نے وردی کے تقدس کو پامال کیا ہے اور اپنی اتھارٹی کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مجھے تکلیف دی ہے میں نے اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں درج کروا دیا آپ طاقتور ہیں میں کمزور اب ہمارا فیصلہ سب سے طاقتور کرے گا“ موٹر سائیکل سوار تو چلا گیا لیکن طاقتور وارڈن جو تھوڑی دیر پہلے فرعون بنا ہوا تھا۔ اس نے ایک ہنڈا والے بغیر ہیلمٹ سوار کو روکا جس نے جھٹ سے فون نکالا اور کسی سے کال ملا کر بات کروائی اور دو منٹ کے اندر اس کو معذرت کے ساتھ چھوڑنے کا منظر بھی ان گناہ گار آنکھوں نے دیکھا۔ یہ سب دیکھنے کے بعد آپ کی عظمت کا جو بت میرے تخیل میں تھا وہ ٹوٹ کر پارہ پارہ ہو گیا اور اس کی جگہ چند سوالوں نے لے لی۔

آخر یہ دوغلا رویہ کب تک؟

مملکت خداداد میں آج بھی امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قانوں اور رویہ کیوں؟

کیا ٹریفک پولیس کا کام صرف چالان کرنا ہوتا ہے؟

کیونکہ کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ وارڈن ٹریفک کی روانی کو کنٹرول کرنے کی بجائے چالان کرنے کو فرض اولین سمجھتے ہیں۔ جس جگہ کا واقعہ میں نے گوش گزار کیا اسی جگہ سے پچاس میٹر دور ایک گول چکر ہے جس پر سارا دن چنگچی کھڑے رہتے ہیں لیکن کئی مرتبہ شکایت کرنے کے باوجود ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی شاید وہ اپنی دھاڑی سے باقاعدگی سے نذرانہ دیتے ہیں جو متعلقہ پولیس سٹیشن، وارڈنز اور گشت پر موجود ڈالفن فورس میں تقسیم ہوتے ہوں گے۔

آخر میں لیاقت ملک صاحب سے گزارش ہے کہ اپنی فورس کو اخلاقیات کے کچھ کورس کروائیں تاکہ انہیں انسانوں سے بات کرنے اور اس وطن عزیز کے لوگوں سے محبت سے پیش آنے کا سلیقہ آ جائے۔ میری تحریر کا ہرگز یہ مطلب نہیں سارا ڈیپارٹمنٹ ہی وارڈن اعظم جیسا ہے بلکہ میرا حسن ظن ہے کہ ایسے لوگ چند ایک ہی ہوں گے اور زیادہ تر لوگ اپنے گھر والوں کے لیے رزق حلال کمانے والے ہوں گے لیکن زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھتے ہوئے یہ چیز سمجھنی چاہیے کہ ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).