دوپٹہ عورت کے لئے نہیں ہے


آپ عنوان دیکھ کر یقیناً سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ اگر دوپٹہ عورت کے لئے نہیں ہے تو پھر کس کے لئے ہے۔ یہ آپ کی ذہنی وسعت کا امتحان ہے۔ پہلے ہم تنگ نظر ہوتے تھے اور لباس کھلے۔ لیکن جوں جوں ہماری وسعت نظر بڑھتی جارہی ہے لباس کی تنگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ذہنی تنگی انتہائی بری لگتی ہے لیکن لباس کی تنگی انتہائی دلکش لگتی ہے۔ تنگ ذہنیت اور چھوٹی سوچ انتہائی معیوب بات ہے لیکن اس کے بر عکس خواتین کے لباس کی تنگی اور اس کا چھوٹا ہونا ان کے اعلی ذوق کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔

عورت جتنی مختصر لباس میں نظر آنے لگی ہے مرد اتنا ہی سوٹڈ بوٹڈ ہو گیا ہے بلکہ وہ تو اب کف لنکس بھی نہیں کھول سکتا جبکہ پہلے مردوں کی شرٹ کا اوپری بٹن ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ لیکن اب تو اگر غلطی سے بھی کسی کی شرٹ کا اوپری بٹن کھلا رہ جائے تو اس کے ایم این اے ہونے کا بھی لحاظ نہیں کیا جاتا اور اسے اسمبلی اجلاس میں ہی ڈانٹ پڑ جاتی ہے کہ مرد تو ڈھکے چھپے ہی اچھے لگتے ہیں البتہ خواتین کے لئے معیار دوسرا ہے۔

اور آپ خود سوچیں کہ دور جدید میں عورت دوپٹہ کیسے لے سکتی ہے۔ دوپٹہ اوڑھنے میں سو طرح کے مسائل ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ مسئلہ ہے کہ آپ بڑی بڑی بوتیکس پر چلے جائیں ادھر آپ کو اپنے من پسند سوٹ کے ساتھ دوپٹہ نہیں ملے گا۔ انتہائی دیدہ زیب و دلکش کپڑوں کے ٹو پیس ملیں گے۔ ان کے ساتھ دوپٹہ ندارد ہوگا۔ پھر یہ کہ ماڈرن خواتین اول تو دوپٹے کا جھنجھٹ پسند نہیں کرتیں اور اگر کسی لباس کے ساتھ دوپٹہ پہن لیں تو یوں لگتا ہے کہ وہ اس دوپٹے سے بدن کے نشیب و فراز چھپانے کی بجائے دوپٹے کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

ماڈرن طبقہ دوپٹے کو پسند نہیں کرتا سو انھوں نے اسے بھی ضمیر پہ پڑے بوجھ کی طرح اتار پھینکا ہے۔ سو اب بدن اور ضمیر دونوں ہر طرح کے اضافی بوجھ سے آزاد ہیں۔ پھر دوسرا یہ کہ لڑکیاں بالیاں اور کچھ بالیاں کہلوانے کی شوقین آنٹیاں اب جینز پہننا پسند کرتی ہیں۔ جینز کے ساتھ یا تو ”تیس انچ“ کا کرتا ہوتا ہے یا پھر شارٹس۔ جینز کے ساتھ اگر بنا آستین کے شارٹس پہنی ہے تو اس کے ساتھ دوپٹا تو ہر گز اچھا نہیں لگے گا۔

یہ تو کھلی حماقت ہوئی کہ اگر شارٹس کے ساتھ ڈھائی گز کا دوپٹہ ہی پہننا ہے تو پھر شارٹس پہننے کا فائدہ۔ جینز یا اسکرٹ کے ساتھ دوپٹے کی بُکل مارے خاتون کچھ بھی لگ سکتی ہے لیکن عورت نہیں۔ ہماری با شعور خواتین آدھا تیتر آدھا بٹیر بننا پسند نہیں کریں گی۔ ویسے بھی آج کل صنف نازک جتنی نازک ہو چکیں میرا نہیں خیال کہ وہ بھاری دوپٹے کا بوجھ سہار سکیں۔ وہ اپنے نازک سے بدن پر اگر تھوڑا سا لباس چڑھا لیں تو بڑی بات ہے کہاں کہ خود کے ساتھ دوپٹے کو بھی سنبھالتی پھریں۔

دوپٹہ اب اولڈ فیشن ہو چکا یہ گئے وقتوں کی بات ہے جب مرد عورت کو دوپٹے میں دیکھ کر کلستا رہتا تھا۔ اور عاشق حضرات تو اس تاڑ میں رہتے کہ ان کی محبوبہ کا دوپٹہ فرش کی زینت بنے اور وہ دوپٹے کو اٹھا کر سینے سے لگا اور چوم کر انتہائی شرافت سے نگاہیں نیچی کیے محبوبہ کے ہاتھوں میں تھما دیں کہ ان دنوں محبوبہ کو تو چومنے کا سوال ہر گز پیدا نہیں ہوتا تھا بلکہ محبوبہ تو بہت دور کی بات ہے ان دنوں تو شوہر اپنی ”سگی بیوی“ کو بھی چومنے سے ڈرتا تھا سو لے دے کے بات دوپٹے تک محدود رہتی تھی۔

دوپٹے کا ذکر ہمارے قدیم شاعروں کے ہاں بھی کثرت سے ملتا ہے ( جدید شاعر ”پرانی جینز“ کو استعمال کرتے ہیں ) قدیم شاعروں کی زبان میں دوپٹہ آنچل کہلاتا تھا۔ کئی حسینائیں اس آنچل یعنی دوپٹے سے اپنے رخ روشن کو چھپا لیتی تھیں۔ دوپٹے کا ایک استعمال بیٹے سے بات منوانے کے لئے بھی ہوتا جب بیٹا دشمن کی بیٹی پر دل ہار جاتا تو ماں اس کے آگے دوپٹہ بچھا کر اپنی دل پسند لڑکی سے شادی کے لئے راضی کرتیں۔ سو یہ دوپٹہ عاشقوں کے لئے ایک دیوار اور بیٹوں سے بات منوانے کے لئے ماؤں کا جذباتی ہتھیار بھی ثابت ہوتا رہا ہے۔

کچھ مرد ایسے تھے جنھیں یہ دوپٹہ بہت پسند تھا۔ لیکن وہ خود مرد ہونے کے ناتے اسے اوڑھ نہیں سکتے تھے کہ اگر غلطی سے پکڑ بھی لہتے تو زنانہ کا خطاب مل جاتا۔ یقیناً وہ یہ بات گوارا نہیں کرتے سو دل کی حسرت کو دل ہی میں دبا لیتے۔ البتہ سردیوں میں ”لوئ“ گرم چادر لے کر اپنی خواہش پوری کر لیتے جس کا سردی سے بھی بچنے سے پہلے کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ وہ اس کی اوٹ میں گھر والوں کی نظر سے چھپا کر نئی نویلی دلہن کے لئے دودھ جلیبی لے جاتے تھے۔

عورت کے دوپٹہ اتارنے کا مردوں کو بہت فائدہ ہوا ہے کہ دوپٹہ مردوں کے لئے فیشن انڈسٹری بن گیا ہے۔ اس سے مردوں کی دیرینہ خواہش پوری ہو گئی ہے کہ وہ مرد جو محبوبہ کے دوپٹے کو سنبھال کر رکھے ہوئے تھے وہ اب نکال کر اوڑھ لیں کہ سیانوں کا کہنا ہے کھاؤ من بھایا پہنو جگ بھایا۔ خواتین نے دوپٹے اتار پھینکے اور مرد اسے بطور فیشن استعمال کر رہے ہیں۔ ویسے بھی خواتین کو دوپٹے کی ضرورت نہیں کہ ہر وہ کام جو بھاری ہو وہ مردوں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔

اور دوپٹہ پہننا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اسی لئے اب عورتوں کی بجائے مردانہ سوٹوں کے ساتھ جسے شال کا نام دیا گیا ہے دوپٹے آ رہے ہیں۔ نہیں یقین آتا تو کسی بھی مردانہ کپڑوں کی شاپ پہ جا کر دیکھ لیں۔ وہاں آپ کو ہر قسم کی ورائٹی مل جائے گی۔ مہندی کے فنکشن کے لئے لال، پیلے، سبز، گولڈن دوپٹے ہوں گے۔ بارات کے لئے شیروانی کے ساتھ بھاری کامدانی دوپٹے ہوں گے۔ پارٹی ویئر کے ساتھ بھی شال کی اچھی ورائٹی مل جاتی ہے البتہ سوٹ کے ساتھ ابھی شال کا رواج نہیں آیا لیکن مردانہ شوق کو دیکھتے ہوئے جلد سوٹ کے ساتھ ایسی ورائٹی مل جائے گی۔

دوپٹے کے اس رحجان کو دیکھتے ہوئے سیاسی پارٹیاں بھی جماعت میں شامل ہونے والوں کو مفلر نما دوپٹے پہنا کر انھیں خوش آمدید کہا جاتا ہے اس رحجان کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے اگر مفلر نہ پہنایا جائے گا تو اس کارکن کی جماعت میں شمولیت مشکوک رہے گی۔ مرد سیاسی جلسوں میں دوپٹہ نما مفلر پہن کے آتے ہیں۔ جبکہ خواتین اس کی قید سے آزاد ہوتی ہیں۔ ویسے بھی اب دوپٹے مردوں کے لئے ڈیزائن کیے جاتے ہیں عورتوں کے لئے نہیں۔

گواہی کے لئے فیشن شوز دیکھ لیں۔ کراچی سے لاہور تک کوئی بھی فیشن شو کور کر لیں۔ سو صاحب مان لیجیے زمانہ بدل گیا ہے۔ سو زمانے کے رحجان کو دیکھتے ہوئے دفتر میں کام کرنے والے مردوں کو پابند کیا جائے کہ وہ دفتری اوقات میں دوپٹے پہن کر آئیں۔ خدا کے لئے اسے صرف فیشن شوز کی زینت نہ بنا دیا جائے یا پھر اسے شادی بیاہ و دیگر تقریبات کے لئے مختص نہ کریں۔ اسے عید شب برات کے علاوہ بھی پہننے کا رحجان عام کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).