سیلفی : ایک افسانہ


اکبر کے گلابی چہرے پر روئی جیسی بھوری مونچھیں اب زیادہ ہی گہری ہو گئی تھیں۔ قلموں نے کانوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے مونچھوں کی قربت حاصل کر لی تھی۔ ٹھوڑی پر بھی روئی جیسے بھورے بال سیاہی مائل ہو چکے تھے۔ پہلے تو وہ انہیں ہٹانے کے لئے مشین کا استعمال کرتا تھا لیکن ایک دن حجام کے کہنے پر ٹھوڑی کے بالوں کوموٹی مشین سے صاف کروادیا، مونچھوں کی قینچی سے تراش خراش کروائی اور کانوں کی لوؤں تک بڑھی ہوئی قلموں کی بھی حد بندی کروادی۔

اْس کے بننے سنورنے کے شوق کا گھوڑا بھی دن بدن بے لگام ہوتا جا رہا تھا۔ ڈراموں اور فلموں میں لباس یاجوتوں کا جو بھی فیشن ’اِن‘ ہوتاوہ اْسے حتی الامکان حد تک اپنانے کی کوشش کرتا۔ بعض اوقات تو وہ شرٹ یا جوتے تلاش کرنے کے لئے کئی کئی دن مارکیٹوں کے چکر کاٹتا رہتا۔

تبدیلی اْس کے جسم میں ہی نہیں آرہی تھی اْ س کا مزاج بھی نت نئے رنگ بدل رہا تھا۔ پہلے وہ اپنا زیادہ وقت گھر میں گزارتا لیکن اب وہ گھر والوں کی نسبت باہر والوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کی کوشش کرتا۔ کل وہ جن لوگوں کو نظرانداز کر دیا کرتاتھا اب وہ اْن کا بھی حال چال پوچھتا۔ دکان پر جانا، گلی میں دوستوں کے ساتھ کھڑے ہونا، عامیانہ سے مزاح کے حامل لطیفوں پر ہنسنا اور لڑکیوں کو دیکھ کر خفیہ سی مسکراہٹ کا اظہار کرنا بھی اْس کی عادت میں شامل ہو گیا تھا۔

اْس دن تو وہ کچھ خاص طور پر تیار ہوا تھا، نیلی زین کی پینٹ، اوپر سیاہ ٹی شرٹ اور پیروں میں سروس کی پمپی جسے عرف عام میں پمپ کہا جاتا تھا پہن کر وہ خودکو انگریزی فلموں کا ہیرو سمجھ رہا تھا۔ دو تین پرفیومز کے اچھے خاصے فوارے کپڑوں پر چلانے کے بعد اْس نے اپنے سنورے ہوئے بالوں کو دوبارہ سنوارا ا ور پتلی پتلی بھوری روئی جیسی دائیں طرف کی مونچھ کے اْن بالوں کو کریم سے بٹھانے کی کوشش کی جو باقی بالوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی تیزی سے بڑھ رہے تھے۔

اْس نے سوچا،

”اب کسی نہ کسی بہانے سے ریزر لگوا ہی لیتاہوں۔ “

لیکن اْسے ماں کا یہ جملہ یاد آگیا،

”اگر کم عمری میں بالوں کو ریزر لگوا لیں تو بال بہت موٹے ہوجاتے ہیں۔ “

”مناسب ہے پتلی مشین ہی پھروا لوں۔ “

گویا فیصلہ ہو گیا۔

ناک پر نیلے رنگ کی چمکدار عینک بٹھا کر اْس نے اپنے بیڈ کے دراز سے اپنا نیا موبائل فون اور اْس کا ہیڈ فون نکالا۔ ہیڈ فون کو کانوں میں گھسانے کے بعد موبائل پر کچھ میسیج اور مس کالیں چیک کیں۔ یہ موبائل اْسے اِس سال گرہ پر اْس کے ابا کی طرف سے تحفہ کی صورت میں ملا تھا۔ اس طرح کا تحفہ شاید پچھلے سال ہی مل جاتا لیکن چونکہ یہ تحفہ اچھے نمبروں کے حصول سے مشروط تھا اس لئے اْسے اس کے لئے پورا سال انتظار اور محنت کرنا پڑی۔

ایک زمانہ تھا کہ سال گرہ یا امتحان میں اچھی کارکردگی دکھانے پر جو تحفہ بچہ کو ملتاتھا وہ ایسا ہوتا کہ بچہ کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوتی لیکن اب تو وقت ایسا بدلا ہے کہ بچے کو سال پہلے ہی پتا ہوتا ہے کہ اگلی سال گرہ پر اْسے کون سا تحفہ ملے گا۔ بلکہ جونہی سالگرہ کی رات ختم ہوتی ہے اگلے تحفہ کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔ ماں باپ بھی سمجھتے ہیں چلو دینا تو ہے اْس کی مرضی سے ہی دے دیں تو زیادہ بہتر ہے۔

تیاری کو حتمی شکل دے کر وہ اپنے گھر کے دروازے سے باہر گلی کے کونے میں پہنچ کرادھر ادھر دیکھتا ہوا بائیں طرف کی ایک گلی میں مڑ گیا۔ اس دوران اُس نے چلتے چلتے ایک میسج بھی داغ دیا۔ گلی میں ایک گھرکے سامنے رک کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اور کسی کو نہ پا تے ہوئے پہلے سے ہی کھلے یا ابھی ابھی اْس کے لئے کھولے گئے دروازے کے اندر داخل ہوگیا۔

دروازے کے بالکل پیچھے اندر کی طرف اْسی کی عمر کی ایک پیاری سی گڑیا نما بچی صائمہ نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا،

”اس وقت کیوں آئے ہو۔ اگر کوئی آگیا تو۔ “

”ہم سب خبر رکھتے ہیں جناب! اندر کی بھی اور باہر کی بھی۔ امی ابا ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ بھائی ٹیب پر مصروف ہے۔ کسے خبر۔ خیر چھوڑ۔ “

اْس نے موبائل جیب سے نکالا،

”سیمسن گلیکسی ہے۔ سیمسن کا سب سے اچھا۔ موبائل۔ “

صائمہ نے موبائل اْ س کے ہاتھ سے لیا،

” ہاں یہی ہے۔ ماموں کے پاس بھی یہی ہے۔ “

صائمہ نے موبائل کو اْلٹتے پلٹتے کہا۔

”اس کا رزلٹ بہت اچھا ہے۔ “

اکبر نے موبائل کی خوبی بتائی لیکن صائمہ نے اْسے اہمیت نہ دیتے ہوئے پھرکہا۔

”ہاں ماموں کے پاس جو ہے وہ اس سے اچھا ہے۔ بہت مہنگا ہے۔ لیٹیسٹ ہے نا۔ لیٹیسٹ ہو گا تو مہنگا بھی ہو گا۔ “

اپنے موبائل کی بے قدری دیکھ کر اکبر نے پھر کہا،

”ظاہر ہے یہ بھی بہت مہنگا ہے۔ “

”ہاں لیٹیسٹ موبائل مہنگے ہی ہوتے ہیں ماموں والابھی مہنگا ہے نا۔ اسی لئے تو اْس میں فنکشنز اور ایپلیکیشنز بھی باقی موبائلوں سے زیادہ ہیں۔ “

صائمہ نے اْس کے موبائل سے بے اعتنائی برتتے ہوئے کہا جو اکبر سے ہضم نہ ہو سکی اْ س کا دل تو چاہا کہ کہہ دے بھاڑ میں گیا تیرا ماموں لیکن کچھ تربیت ایسی تھی کہ کہہ نہ سکا اور سارے جملے اپنے اندر ہی سمیٹ لئے۔

اب ضرورت تھی موضوع بدلنے کی لیکن ابھی اْس نے کچھ کہنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ صائمہ بولی،

”کس نے لے کر دیا ہے۔ “

اکبرنے ذرا سختی سے جواب دیا،

”ابا ہی لے کر دیں گے اور ماموں تھوڑے ہی لے کر دیتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو تمہارے ماموں تمہیں نہ لے دیتے۔ “

”نہیں جی۔ میرے ماموں تو دس لے کر دے دیں۔ لیکن میرے ابا کا خیال ہے کہ موبائل سے بچے خراب ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے نہیں لے کر دیتے ویسے کہتے تو ٹھیک ہی ہیں۔ “

”تو کیا میں خراب ہو گیا ہوں۔ “

”نہیں۔ لیکن تھوڑے سے ہو گئے ہو۔ “

”ہاں کسی کی لڑکی سے جو مل رہا ہوں۔ “

”نہیں ایسی بھی کوئی بات نہیں، پہلے بھی تو ملتے تھے۔ “

”اچھا چھوڑو۔ میرا موبائل تیرا ہی تو ہے نا۔ “

”نہیں جی میں تو اپنا ہی لوں گی۔ انشا اللہ۔ “

”کب۔ “

”ابو نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس سالگرہ پر دیں گے۔ ویسے گزارا تو ہو رہا ہے۔ امی کے موبائل سے۔ “

صائمہ نے اپنی چھوٹی سی چٹیا کھول کر اپنے سر کے درمیانی حصہ میں باندھتے ہوئے جواب دیا،

”یعنی ابو نے اپنی بیٹی کو اس سال گرہ پر خراب کرنے کا پکا ارادہ کر لیا ہے۔ “

”نہیں جی۔ میں ایسی نہیں۔ اب اگر اس طرح کی بات کی تو میں نے یہ پن ہی مار دینی ہے۔ “

صائمہ نے اپنے بال کھلے چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔

”ویسے کھلے بالوں میں تم بہت اچھی لگتی ہو۔ “

اکبر نے اْس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔

”اچھا جی۔ “

صائمہ نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا۔

وہ اس طرح شرمائی جیسے وہ کہناچاہ رہی ہو کہ اْسے اْ س کا یہ حملہ اچھا لگا۔

”اچھا چلو چھوڑو ان باتوں کو۔ سیلفی ہوجائے۔ “

اکبر نے اْس کا ہاتھ پھر تھام لیا،

صائمہ تھی تو عورت زاد شرما کر جواب دیا،

”نہیں جی۔ میرے کپڑے ٹھیک نہیں۔ “

”ارے! چھوڑ کپڑے وہ کون سے تصویر میں آنے ہیں۔ “

”یہ کون سا موبائل ہے جس میں کپڑے نہیں آئیں گے۔ “

صائمہ نے پریشان ہو کر پوچھا۔

”یہ جو لڑکیاں ہوتی ہیں نا ان کا تو دماغ پیدائشی خراب ہوتا ہے۔ میں نے تو کہا تھا کہ کپڑوں کی کون سی کوئی صورت ہوتی ہے جو موبائل میں آئے۔ “

”چل یہاں سے نکل اور جا کوئی عقلمند تلاش کر۔ بڑا آیا افلاطون۔ شکل دیکھی نہیں اور آ گیا عشق کرنے۔ “

صائمہ کو اْس کی بات پر شدید غصہ آیا لیکن مرد ذات کے پاس عورت کے غصے سے نمٹنے کے ہزار گن۔

اکبر نے اپنی محبوبہ کی طرف سے آئی اس گرم ہوا کو یکسر نظر انداز کر تے ہوئے اپنے بائیں بازو کو اْس کے گرد پھیلایا اور اپنا منہ اْس کے کندھے سے قریب لاتے ہوئے کہا،

”چلو آؤایک سیلفی ہوجائے۔ “

وہ بھی سمٹ گئی۔

”ہاں لیکن وعدہ کرو فیس بک پر نہیں ڈالو گے۔ “

”ارے نہیں، مجھے ایساسمجھا ہے کیا۔ “

وہ اتناقریب آگئے کہ اکبر کا بایاں کان صائمہ کے دائیں کان سے تقریباً چھونے لگا۔

نہ اکبر کے اندر طوفان برپا ہوا، نہ صائمہ کے اندر شرارے پھوٹے البتہ ایک کلک کی آواز آئی اور دونوں کے چہرے موبائل میں قید ہو گئے۔

وقت نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ مشینیں کیا بدلیں جذبات بھی بدل گئے ہیں۔ وقت کی تیزی نے جذبات میں بھی تیزی پیدا کر دی ہے۔ وہ جس شدت سے چڑھتے ہیں اْسی شدت سے اْتر جاتے ہیں۔ جس عمل میں گھنٹے لگتے تھے وہ اب لمحوں تک سمٹ کر رہ گیا ہے۔

” ٹھہرو ٹھہرو ایک اس اینگل سے بھی۔ “

اکبر نے اپنے بازو کو آخری حد تک لمبا کرتے ہوئے کہا۔

”کلک، کلک“

” دکھا ذرا، دکھا۔ “

اب توصائمہ نے اپنا منہ اْس کے منہ کے ساتھ تقریباً جوڑ دیا تھا۔

اس قربت پر بھی نہ کوئی تلاطم برپا ہوا، نہ شرارے پھوٹے۔

”کتنی اچھی لگ رہی ہو۔ ہاں۔ میں تھوڑا سا بڑا ہوتا تو۔ جیسا دکھتا۔ “

”چل بڑا آیا ہیرو۔ “

”وہ تو ہوں۔ اچھاچلتاہوں دوست کے ہاں جا رہا ہوں بڑی مشکل سے اجازت ملی ہے۔ “

”سنو یہ تصویریں مجھے وٹس ایپ کر دینا۔ “

”کیوں ابو کو دکھانی ہیں۔ “

”جان نہ نکال دیں میری۔ “

”پھر کیا کرنی ہیں۔ “

”نسرین کو دکھانی ہیں جب وہ اپنے بوائے فرینڈ کی تصویریں سب کو دکھاتی ہے تو بڑی ’اِل فیلنگ‘ ہوتی ہے۔ “

صائمہ نے شرمائے بغیراپنی ننھی سی خواہش کا اظہار کیا۔

”لو ابھی کر دیتے ہیں۔ یہ لو۔ “

”رات کو فیس ٹو فیس۔ اوکے اللہ حافظ۔ “

اْس نے صا ئمہ کوگلے سے لگالیا، نہ اندر محبت کے پھول کھلے نہ بارش ہوئی نہ طوفان آیا۔

وہ دروازے سے باہر نکلا ہی تھا کہ کچھ یاد آنے پر انہی قدموں واپس لوٹا۔ اندر آ تے ہی صائمہ کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا،

”یہ تو رہ گیا تھا۔ “

یہ کہہ کر اْس نے اپنے ہونٹ صائمہ کی نذر کردیے۔ ہونٹوں کی پتیوں نے چند شبنمی قطروں کی حرارت کو محسوس کیا، پتیوں سے شبنم کے لمس کی گرمی برداشت نہ ہوئی توپھول بھی کھلے، بارش بھی ہوئی اور ہلکا سا طوفان بھی اُٹھا۔

”شرارتی کہیں کا۔ یہ ضرور کرنا ہوتا ہے۔ پتہ بھی ہے کہ مجھے گدگدی ہوتی ہے۔ “

صائمہ نے اپنے بال بناتے ہوئے کہا۔

” گدگدی ہوتی ہے۔ “

وہ گنگناتے ہوئے باہر نکل گیا۔

”فلموں نے تو اس بچے کو خراب ہی کر دیا ہے۔ “

یہ کہہ کر صائمہ اُسے گلی میں جاتے ہوئے اُ س وقت تک دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگیا۔

وہ ایک چھوٹی سی گلی سے گزر کر ایک بڑی گلی میں داخل ہوا جو بنانے والوں نے تو گلی ہی بنائی تھی لیکن رہنے والوں نے اُسے بازار بنا لیا۔ اس بازار نما گلی میں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میں کم از کم ایک دکان نہ کھلی ہو۔ انہی دکانوں میں ایک دکان ایک حجام کی بھی تھی جس پر ایک چھوٹا سا بورڈ لگا ہوا تھا۔

’ماڈرن سیلون‘

یہ بورڈ اتنا پرانا ہو گیا تھا کہ نہ اب اس کا چوکھٹا ماڈرن تھا نہ ٹین کی چادر جس کا یہ بناہوا تھا۔ ایک کونہ اپنے چوکٹھے سے نکل کر ’ماڈرن‘ کی ’مِیم‘ کے بوسے لے رہا تھا اور ’سیلون‘ کا ’ن‘ وقت کی ستم ظریفی کی نظر ہوچکا تھا۔

اندر سیلون کا حال بھی بورڈ کی حالت کے عین مطابق تھا۔ ہر شے وقت کے دیوتا کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی تھی۔

اکبر سیلون کے اندر گیا تو سیلون کے مالک نے ”اوئے ہیرو“ کہہ کر اس کا استقبال کیا۔ اس بوڑھے سیلون کا اصلی مالک تو اب بوجہ ضعیفی اپنے گھر بیٹھا تھا البتہ اْ س کا ہونہار بیٹا یہ سیلون چلا رہا تھا۔ تاہم بورڈ پر موجود ایک سطر میں اس کا اصل مالک ا بھی تک موجود تھا۔

پروپرائٹر: صدیق ولد حکیم اللہ دتہ امرتسری

”کہاں تھے۔ اتنے دن نظر نہیں آئے۔ “

سیلون کے نوخیزمالک نے ایک ادھیڑ عمر شخص کے بالوں میں سیاہ رنگ کے برش سے سیاہ رنگ تھوپتے ہوئے پوچھا،

اکبر نے قدِ آدم آئینے کے سامنے اپنے سیدھے بالوں کو مزید سیدھا کرتے ہوئے جواب دیا۔

”بس ذرا مصروف تھا۔ “

پھر اْس نے ایک دیوار پر بہت سی ہندوستانی ہیروئنوں کے بڑے بڑے بوسیدہ پوسٹروں میں سے نسبتاً ایک بہتر پوسٹر کے سامنے کھڑے ہو کر پوز بنایا اور لمبا ہاتھ کھینچ کرسیلفی بنائی۔

” نیا لیا ہے۔ “

باربر صاحب بھی رنگ چھوڑ اْ س کے پاس آگئے اور موبائل کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

”ہاں تو کیا پرانا ہے۔ نیا ہے۔ نیا۔ نکور۔ “

”ادھر آ کر میرے ساتھ ایک سیلفی بنا۔ “

باربر نے کرینہ کپور کے پوسٹر کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔

”وائے ناٹ۔ یہ لو اس میں کون سا خرچ آتا ہے۔ “

اکبر نے پوسٹر کے قریب آتے ہوئے کہا۔

” سْن ادھر۔ یہ والا حصہ میرے ادھر آئے۔ “

باربر نے پوسٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

” بڑا بے شرم ہے بھئی تو۔ لو کیا یاد کرو گے۔ “

”کلک“

”لے یہ دیکھ۔ “

اکبر نے اْسے سیلفی دکھاتے ہوئے کہا۔

”اوئے ہیرو بڑا اعلیٰ ہے بھئی کوئی پہچان ہی نہیں سکتا یہ تصویر ہے۔ “

تصویر دیکھ کر باربر یوں خوش تھا جیسے کرینہ کپور اُ س کی بغل میں آ کر بیٹھ گئی ہو۔

” اوئے، تصویر ہی تو ہے۔ “

اکبر نے اْس کا تمسخر اْڑانے کی کوشش کی۔

”میرا مطلب اْس کی طرف تھا بدھو۔ “

اس نے کرینہ کے پوسٹر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

”ہاں دیکھ یار لگتا ہے اْ س نے ہمارے ساتھ ہی کھڑے ہو کر یہ تصویر بنائی ہے۔ “

”یہ بھی اچھا ہے ہم نے اُ س کے ساتھ تصویر نہیں بنوائی اُ س نے ہمارے ساتھ بنوائی ہے۔ بڑے آئے نواب زادے۔ “

اکبر نے باربر کے جذبہ ٔ شوق کو سراہتے ہوئے ہوئے کہا۔

”چل اوئے کاکا! ۔ بس وی کر رنگ ویکھ کتھے کتھے چڑھ گیا اے۔ “

بالوں کو رنگ کروانے والے شخص نے تنگ آکر کہا تو باربر بھاگ کر اُ س کی طرف لپکا۔

”اچھا بئی میں تو چلتا ہوں۔ بڑے کام کرنے ہیں۔ سبزی لانی ہے پھر ایک دوست کے ہاں جا نا ہے بڑی مشکل سے اجازت ملی ہے۔ “

اکبر نے آئینے میں ایک دفعہ پھر خود کو دیکھا، اور عینک آنکھوں پر اچھی طرح بٹھاتے ہوئے دکان سے باہر قدم رکھے۔

کانوں میں ہیڈ فون لگائے ہاتھ میں موبائل تھامے وہ یوں چل رہا تھا جیسے اْس بازار کا مالک ہو۔ دنیا کے ہر غم سے آزاد۔ اپنی پسند کے گانوں میں مگن۔

موسیقی، گیت اور دیگر لوازماتِ موسیقی ہمیشہ سے ہی انسان کے قریب رہے ہیں۔ لوگ موسیقی سنتے بھی تھے، اس میں ڈوبتے بھی تھے اور اسے سراہتے بھی تھے۔ لیکن آج کی نسل کے لئے موسیقی ایسے ہی ہے جیسے انسان کے لئے دھوپ بارش اور ہوا یا مریض کے لئے آکسیجن ادھر اندر موسیقی کی آکسیجن کی کمی ہوئی مریض نے کانوں پر موسیقی کی آکسیجن کا ماسک دھر لیا۔

اس نسل کے دماغوں کو پتہ نہیں کیا شے چھو کر گزر گئی ہے کہ گانوں کے المبوں کے البم یاد کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی لیکن اللہ کے نناوے نام یا ایک آیت الکرسی یاد کرنا پڑے تو اُلٹے لٹک جاتے ہیں۔

کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا ہے کہ ہمیں اس قول کو بدلنا پڑے گاکہ موسیقی روح کی غذا ہوتی ہے۔ شاید اب کہنا چاہیے موسیقی پیٹ کی غذا اورکانوں کے لئے سزا ہوتی ہے۔

ہیڈ فون سے نکلنے والی دھمادھم کان کے پردوں کاتو ”بلت کار“ ہی کر دیتی ہوگی۔

وہ اْس گلی نما بازار سے نکل کر ایک بڑے بازار میں داخل ہوا۔ یہاں اس کی نگاہیں کچھ تلاش کر رہی تھیں۔ وہ عینک کبھی اوپر کرتا کبھی نیچے۔ پھر اْسے مل ہی گئی۔ موبائل کی دکان۔

اْس نے جیب سے موبائل نکالا اور ہیڈ فون کانوں سے الگ کرتے ہوئے دکان کے مالک سے کہا،

”اس کا پروٹیکٹر چاہیے تھا جی۔ “

اْس نے موبائل دکان دار کے ہاتھ میں دیا۔

ادھیڑ عمردکاندار نے قربانی کے بکرے کی طرح موبائل کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد کہا،

”مل جائے گا۔ “

”کتنے کا۔ “

”تین سو روپے کا۔ “

”اتنا مہنگا۔ “

”اصلی ہے نا۔ کمپنی کا۔ “

”نہیں رہنے دیں۔ “

اکبر نے موبائل اْس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔

”یار تم دو سو پچاس دے دو۔ “

”نہیں یہ بھی زیادہ ہیں۔ “ ’

”چل لا موبائل دوسومیں لگا دوں گا۔ یہ بھی تمہارے لئے۔ “

”نہیں۔ “

”اچھاتم ہی کہو۔ خود ہی بتا دو۔ ہماری توپوری کوشش ہوتی ہے کہ گاہک خالی ہاتھ نہ جائے۔ اْنیس بیس کا فرق کیا۔ “

دکاندار نے ایک ڈبہ کھولتے ہوئے کہا۔

”ابھی تو میں پیسے لے کر نہیں آیا۔ تم فائنل بتا دو۔ “

اکبر نے موبائل جیب میں ڈالتے ہوئے کہا۔

”پیسے ہیں نہیں اور آگیا میرا وقت ضائع کرنے۔ چل جا پڑھ لکھ، یہ موبائلوں کی لت اچھی نہیں ہوتی۔ ممی ڈیڈٰی، سیلفی قوم، برگر فیملی۔ بدیسی مارکہ۔ “

”اچھا جی۔ انکل۔ بس کریں، آپ نے تو تقریر ہی شروع کردی۔ “

”اؤ جا یار دماغ خراب نہ کر۔ “

دکاندار نے ایک اخبار اٹھاتے ہوئے کہا۔

اکبر نے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔

ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ ایک میڈیکل اسٹور پر نظر پڑی تو جیب میں رکھی پرچی یاد آگئی۔ کا ؤنٹر پر کھڑے ایک لڑکے کے سامنے پرچی رکھتے ہوئے کانوں سے ہیڈ فون نکالے۔

لڑکے نے پرچی پاس ہی کھڑے ایک بزرگ کے ہاتھ میں تھما دی۔ بزرگ نے عینک ناک کے نچلے حصہ پر ٹکاتے ہوئے پرچی پڑھی اور بڑ بڑاتے ہوئے دواؤں کی ایک الماری کی طرف بڑھ گئے۔ اکبر کو بوڑھے کے جملوں کی سمجھ نہ آئی تو اْس نے اپنے سے کچھ ہی بڑے لڑکے سے پوچھا۔

”یہ باباجی کیا کہہ رہے تھے؟ “

”کہہ رہے تھے، کیا زمانہ آگیا جی بچوں کو بھی گیس ہونے لگی۔ “

لڑکے نے ہوبہو جملہ ادا کر دیا جیسے یہ جملہ اْ س نے رٹا ہوا تھا۔ پتہ نہیں یہ بزرگ کتنے گاہکوں کو اس طرح کے جملوں کے نذرانے پیش کرتے ہوں گے۔

ا کبر کو بابے کا یہ اندازِ تخاطب پسند نہیں آیا،

”انکل جی! یہ میں نہیں ہوں، اماں ہیں، میری دادی۔ انہیں ہوتی ہے گیس۔ “

”اچھا چھا پْتر۔ اس میں اس بے چاری کا کیا قصور خوراک ہی ایسی ہے۔ تم انہیں نا۔ رات کو سونف کا پانی پلایا کرو مولا نے چاہاتو گیس ویس سب دور ہو جائے گی۔ “

”جی انکل۔ “

اکبر نے ادب سے مشورہ قبول کرتے ہوئے کہا۔

پاس ہی ایک اور شخص بھی کھڑا تھا اْس نے سوچا کہ وہ بھی اپنا مشورہ دے ہی دے چنانچہ اس نے اکبر کے قریب آ کر کہا،

”بیٹا یہ سب بادی خوراک کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کھولتے پانی میں دار چینی ڈالنی ہے اور ایک دم دینا ہے۔ جب دم آ جائے تو اْس میں ایک چمچ شہد ڈالنا ہے۔ اگر کلونجی ڈال لو تو کیا کہنے۔ “

ابھی اْن کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ میڈیکل اسٹور پر کام کرنے والے ایک لڑکے نے آواز لگائی،

”بیس روپے لے لیں جی۔ “

اکبر نے کاؤنٹر پر بیٹھے لڑکے کے حوالے بیس روپے کیے اور دوا لے کر اسٹور سے باہرنکل آیا۔

کانوں میں ہیڈ فون لگائے اور گنگناتے ہوئے وہ ارد گرد بھی غور سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ ہی دور گیا تھا کہ ایک کون والا دکھائی دیا۔ پھر کیا تھاسب کچھ چھوڑ کون کی طرف دھیان کیا۔ ابھی کون شروع ہی کی تھی کہ کوئی خیال آنے پر رک کر کون کھاتے ہوئے مختلف زاویوں سے دو چار سیلفیاں بنائیں اور سڑک پار کرنے کے لئے ایک شخص کے ساتھ کھڑ اہو گیاجو پہلے ہی سڑک پار کرنے کی کوشش میں تھا۔ وہ بیچارہ دو قدم آگے گیا ہی تھا کہ ایک موٹر سائیکل والا اس بے دھیانی میں اوپر چڑھنے لگا کہ بے چارے نے واپس آنے ہی میں عافیت جانی۔

اْ س کے اس عمل کو دیکھ کر اکبر بھی اپنی ہنسی کو قابو نہ رکھ سکا۔

” توبہ ہے ہم کس دور میں پیدا ہوئے ہیں کہ سڑک بھی پار نہیں ہو سکتی۔ یہ موٹر سائیکل پر تو پابندی لگا دینی چاہیے، ایک تو بنی کاغذ کی ہے دوسرا چلتی کاغذ کی طرح۔ کس طرف کو نکل لے گی پتہ ہی نہیں چلتا۔ “

اکبر نے ”ہوں“ کر کے ہاں میں ہاں ملائی اورادھر ادھر دیکھتے ہوئے سڑک پار کرنے کے بعد ریلوے ٹریک سے پہلے لگے جنگلے کو پھلانگتے ہوئے ریلوے ٹریک پر جا پہنچا۔

ایک زنگ آلود ٹریک پر بیٹھ کر اپنی کون ختم کی، اپنی پسند کے دو تین گانے سنتے ہوئے ٹریک پر اپنی کئی سیلفیاں بنائیں۔ اپنا نیا اسٹیٹس اون لائن کیا اور پھر ٹریک کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔

ہیڈ فون کی دونوں تاریں کانوں میں تھیں اور پسند کے گانے جاری تھے۔ ان میں بعض گانے تو ایسے تھے جن کے ساتھ مل کر گانا شاید فرض تھا اس لئے اکبر بھی ان گانوں کے ساتھ گنگناتے ہوئے اور کبھی گاتے ہوئے محفوظ ہورہا تھا۔ کوئی گانا تھرکنے پر مجبور کرتا تو پتلی سی ٹانگیں ہو امیں جھولنے لگتیں۔ وہ ٹریک پر ہر سمت سے سیلفیاں بنا چکاتھا۔ دور دکھتے ہوئے پل کے ساتھ، پھاٹک اور سگنل کے ساتھ۔ یہاں تک کہ ایک فقیر جو اپنے روزگار سے واپس اپنے گھر جارہا تھا اْس کے ساتھ بھی سیلفیان بنائیں اور وٹس اپ کر نے کا وعدہ کیا۔

پھر اْ س نے سوچا کہ جب یہاں سے ریل گاڑی گزرے گی تو وہ اْس کے ساتھ سیلفی بنائے گا۔ لیکن یہاں تو ریل تیزی سے گزرتی ہے سامنے پھاٹک پر اْس کی رفتار کم ہو جاتی ہے اس لئے وہاں جاتا ہوں تاکہ آسانی سے سیلفی بنا سکوں۔

گانوں پر تھرکتے ہوئے وہ ٹریک کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے پتہ نہیں کب ٹریک کے اندر آگیا۔

ایک بزرگ نے ریلوے کی پٹڑی پار کرتے ہوئے کافی اونچی آواز میں کہا،

”اوئے پْتر سائیڈ تے ہو کے چل، گڈی آجائے گی۔ “

لیکن اکبر کے گانوں کی اونچی آواز میں اْس بزرگ کی عمر رسیدہ آواز کہیں کھو کر رہ گئی اور وہ اپنی دْھن میں چلتا رہا۔

تھوڑی ہی دیر میں ریل گاڑی کے ہارن کی آواز گونجنے لگی۔ لیکن ریل کے ہارن کی آواز بھی گیتوں کے آرکسٹرا کی بھاری آوازوں میں دب کر رہ گئی۔

ایک شخص نے اْسے دیکھا تو چلایا،

”اوئے گڈی آ گئی اے۔ “

لیکن اکبر کو کوئی آواز سنائی نہ دی۔

”اوئے گڈی آگئی اے“

اب یہ کسی ایک شخص کی آواز نہیں تھی بلکہ یہ جملہ بہت سے لوگوں کی زبانوں سے بیک زباں ادا ہو رہا تھا۔

”میں تینوں سمجھاواں کی نہ تیرے باجھوں لگدا جی“

اس گانے پر اکبر نے والیم مزید بڑھا دیا تھا۔

ایک طرف لوگ بھاگے چلے آرہے تھے دوسری طرف ریل۔ آج تو ریل بھی کچھ زیادہ ہی تیز تھی۔ اْس کی چھک چھک اور اْس کے ہارن کی آواز سب کافی تیز تھا لیکن اکبر اپنی دھن میں مگن جھومتا چلتا جا رہا تھا۔

موت گرجدار صدائیں بلند کرتی اور چھلانگیں لگاتی اْس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ لیکن موت کی صدائیں سازوں کی آوازوں میں دبی ہوئی تھیں۔

جب بات لمحوں تک پہنچی تو لوگ بھی رک گئے۔ وہ نہ ریل کو روک سکتے تھے نہ اکبر کے تھرکتے ہوئے قدموں کو۔

جب ریل نے قریبی زمین کو جھنجوڑا تو اکبر نے زمین کو ہلتے ہوئے محسوس کیا۔ زلزلہ آگیا ہے۔ اْس نے سوچا۔ ،

اْ س کا ہاتھ تیزی سے ہیڈ فون کی طرف بڑھا اور اْ س نے جھٹکے سے ہیڈ فون کان سے اْتارا۔

مسلسل بجتے ہوئے ریل کے ہارن کی آواز کا کچھ حصہ اْ س کے کان میں پڑا تواْس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ریل ایک ڈریگن کی طرح اْس کی طرف بھاگی چلی آرہی تھی۔ اْس نے ٹریک سے نکلنے کی کوشش کی لیکن اْس کے قدم جامد ہو گئے، اْس کی ٹانگوں نے کام کرناچھوڑ دیا اور پھر اْس کے دماغ نے بھی جسم کا ساتھ چھوڑ دیا، اْس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔

ریل کا انجن بغیر دستک دیے اْ س کے گھر میں داخل ہو چکا تھا۔ بے ہوشی کا عالم اور زمین میں بھونچال دونوں نے اْسے کھڑا نہ رہنے دیا وہ اُڑتے ہوئے پیچھے کی طرف ایسے گرا کہ اْس کا ایک ہاتھ ریل کی پٹری پر تھا اور وہ پٹری کے ساتھ۔

ریل کی دھمک اور ہوا نے آتے ہی اْس کے ہاتھ کو پٹری سے اُتارا اور اس کے جسم کو کئی فٹ دورکسی پُتلے کی طرح اْچھال دیا۔

لوگ بھاگتے ہوئے پہنچے، ریل بھی کچھ دور جا کر رک چکی تھی۔ لوگوں نے اکبر کے نیم مردہ جسم کو اْٹھایا تو سر سے خون کا فوار بہہ رہاتھا۔ اکبر کی پینٹ اور سیاہ شرٹ لال ہو چکی تھی۔

ایک شخص نے تیزی سے اْس کے جسم کوادھر ادھر اْلٹ پلٹ کر دیکھا اور کہا،

”اوئے بچ گیا جے“

کسی نے کہا،

”شکر اللہ“

کسی نے کہا،

”کنا سوہنا جوان اے۔ “

کسی نے کہا،

”اللہ سب کی اولادوں کو محفوظ رکھے۔ “

”ایک عورت نے روتے روتے کہا،

”لیکن اس کو ٹرین کی آواز کیوں سنائی نہیں دی۔ “

”لگدا اے ذہنی مریض اے۔ “

”اؤ نئی یار بہرا ہے بے چارہ“

ایک لڑکے نے کہا،

”ا نکل یہ گانے سْن رہا تھا۔ یہ کان میں دیکھیں ابھی بھی ہیڈ فون کا ایک حصہ چمٹا ہو ا ہے۔ “

ایک بوڑھے نے سختی سے کہا،

”اوئے چکو تے اسپتال لے جاؤ، جے ریل نے چھڈ دتا اے تے تسی نہ مار دینا۔ “

اور لو گ اْسے اْٹھا کر ہسپتال لے گئے۔

اْس کی پمپی لیرو لیر پڑی تھی موبائل کے پرزے ایسے اْڑے کہ بے نشان ہوگئے۔ کسی پْرزے میں قید بے زبان سیلفیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی پہچان کھو بیٹھیں۔

ایک انگلی کی قربانی دینے کے بعد جب اْسے ہوش آیا تو اْ س نے پوچھا،

”میرا سیل فون۔ “

اْس کی ماں کے سینے میں جیسے کسی نے خنجر اْتار دیا۔

”ابھی صبح میرے ساتھ اس نے کتنی سیلفیاں بنائی تھیں۔ اس کا بس چلتا تو سارے جہاں کو اپنے موبائل میں قید کر لیتا۔ “

اْس کا باپ جو خاموش اپنے آنسوؤں کو پیتاجارہا تھا خاموش نہ رہ سکا،

”نا جانے وہ کون سا منحوس لمحہ تھا جب میں نے اسے وہ منحوس موبائل لے کر دیا تھا۔ “

اکبر نے یہ سوچتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔

”میں تینو ں سمجھاواں کی۔ نہ تیرے باجھوں لگدا جی۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).