میری پنجابی مر جائے گی


زبان انسان کی زندگی میں بہت اہمیت ر کھتی ہے اسی طرح ہمارے روزمرہ کہ امور ہوں یا پھر خاص جذ بات کا اظہار کر نا ہو یہ سب ہم زبان کی ہی و جہ سے کر پاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ زبان ہی تو کسی بھی خطے کی اصل پہچان ہوتی ہے اور وہ خطہ زبان کی ہی و جہ سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر اردو ہی بو لی جاتی ہے اور دوسرے بڑے پیمانے پر اپنی علاقائی یا صوبائی زبانیں بو لی جاتیں ہیں۔ جیسے سندھ میں ر ہنے والے سند ھی، بلو چستان میں ر ہنے والے بلو چی، کے پی کے میں ر ہنے والے پشتوبولتے ہیں۔

آپ کو یہ لو گ ملک کے کسی بھی حصے میں نظر آئیں یہ اپنی ہی زبان بو لتے ہو نگے۔ زبان کو تو اپنی شناخت اور ثقافت کے بہتر ین اظہار کے لیے استعمال کیا جاتا پے مگرپنجاب میں رہنے والے لوگ اپنی زبان کے حوالے سے ہمیشہ شش و پنج میں نظرآتے ہیں یہاں کے لوگ پنجابی بو لنے والوں کو پینڈو کہتے اور سمجھتے ہیں۔ اس لئے یہاں پر شہروں میں زیادہ اردو ہی بو لی جاتی ہے اورشہروں میں بہت کم پیمانے پر آپ کو پنجابی بو لنے والے نظر آتے ہیں۔

میرا اپنا تعلق پنجاب کے ایک گاؤں سے ہے مگر گزشتہ چند سالوں سے میں پنجاب کے ایک بہت بڑ ے شہر میں رہائش پذیر ہوں چو نکہ میرے اپنے گھرمیں زیادہ ترپنجابی ہی بولی جاتی ہے، خاص طور پر گھر کے بزرگ پنجابی ہی بو لتے ہیں، تواگر کبھی میر ے آفس میں گھر سے فون آتا تھا تو میں پنجابی میں ہی بات کرتی تھی تومیرے کولیگزبڑی حیرت کا اظہارکرتے تھے اورکہتے کہ ”تعجب کی بات ہے کہ آپ سب کے سامنے پنجابی میں بات کرتی ہیں۔“ ان کا کہنا تھا کہ لوگ سب کے سامنے اس لئے پنجابی بولنے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں، کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ ان کے بارے میں اچھی رائے نہیں ر کھی جائے گی۔

اُن کی بات سن کر مجھے بہت حیرت ہو ئی کہ کیوں ہم لوگ پنجابی بولنے پر شرمندگی محسوس کر تے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مجھے ایک ڈر بھی ستانے لگا کہ اگر ہم اپنی زبان کو اپنے آنے والی نسل منتقل نہیں کر یں گے تو ہماری زبان مر جاے گی۔ اگر ہم اپنی آنے والی نسل کو پنجابی کی عزت کر نا نہیں سکھائیں گے تو وہ بھی یہ زبان بولنے پرشرمندگی ہی محسوس کر یں گے۔ ہمارے گھروں میں بچوں کو انگریزی بولنے پرتوشاباش دی جاتی ہے مگرپنجابی بو لنے پر ٹوک دیا جاتا ہے کہ ”بیٹا کس زبان میں بات کر رہے ہو۔“

ہم پنجاب میں ر ہتے ہیں اپنے پنجابی ہو نے پر فخر محسوس کر تے ہیں مگر پنجابی بولنے پر ہم کیوں رک سے جاتے ہیں۔ میں نے جب یہ واقعہ اپنی ایک دوست کے ساتھ شیئر کیاکہ ایسی سوچ کیوں ہے کہ لوگ پبلک مقامات پر پنجابی بو لنے پر شش و پنج کا شکار ہو جاتے ہیں تو وہ کہنے لگی کہ اس کے والد صاحب بھی زیادہ ترپنجابی ہی بو لتے ہیں، اوراسکے بھتیجے کو بھی پنجابی سکھاتے ہیں جب اس کے بھتیجے نے اپنے سکول، جو کہ شہر کا سب سے مہنگا پرائیوٹ سکول سمجھا جاتاہے، وہاں اس نے بچوں کے ساتھ پنجابی میں بات کی تواسکی ٹیچر نے اس بچے کی والدہ کوسکول میں بلایا اور کہا کہ آپ کا بچہ ”نازیبا الفاظ“ استعمال کرتا ہے۔

جب انھوں نے استفسار کیا کہ کو نسے ایسے الفاظ ہیں جو میر ے بچے نے بولے ہیں توانھوں نے کہا کہ آپ کا بچہ پنجابی بو لتا ہے۔ اورساتھ میں یہ بھی کہا کہ ہمارے سکول میں ہزاروں روپے فیس لوگ انگریزی بولنے کے دیتے ہیں نہ کہ پنجابی بو لنے کے۔ مطلب کہ پنجابی بو لنا اتنا معیوب ہو گیا کہ لوگ اس کو بو لنا ”نازیبا الٖفاظ“ سمجھنے لگے۔ حالانکہ یہ تو بہت ہی میٹھی اور اپنائیت بھری زبان ہے اس زبان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اسکوبول کرآپ اپنائیت محسوس کرتے ہیں۔

اسکاواقعہ سننے کے بعدمیرے اندرکا ڈراس وہم میں بدل گیا کہ اگر ایساہی رہاتوہماری آنے والی نسل کو پنجابی سے دور کر دیا جاے گا۔ ایک دن یہ پنجابی مر جاے گی۔ کہتے ہیں نہ کہ اگر کسی بھی زبان کوزندہ رکھنا ہو تو اس کو اپنی آنے والی نسل کو لٹریچر، شاعری، اورفلمزکے ذریعے منتقل کر نا چاہیے۔ ہمارے ہاں ایک توویسے ہی بچوں کوپنجابی بو لنے سے بعض رکھاجاتا ہے تو دوسری طرف کو ئی خاص پنجابی لٹریچر اور شاعری کے مجموعے بھی میسر نہیں ہے۔

وارث شاہ، بابا بلھے شاہ جیسے بڑے نام جنہوں نے پنجابی کی لئے گراں قدرخدمات سر انجام دیں، ویسے بڑے نام تو اب پنجابی میں ناپید ہو چکے ہیں۔ اسی طرح اگر فلمز کی بات کی جاے تو ہمارے ہاں جو پنجابی فلمز بنتی ہیں وہ اس قابل ہی نہیں ہوتیں کہ آپ اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکیں۔ آپ کو بھی کبھی ہماری پنجابی فلمز دیکھنے کا اتفاق ہو تو آپ میری بات سے ضرور متفق ہو نگے کہ ان فلمز میں جو دکھایا جاتا ہے وہ نہ تو پنجاب کا کلچر ہے اور نہ ہی جو پنجابی زبان کا، بلکہ ان فلمز میں ماڑدھاڑ، بے ہودہ گانے اور وحشی پن ہی دیکھایا جاتا ہے۔

باقی رہی سہی کسر ہمارے اسٹیج ڈراموں نے پوری کردی ہے، ان ڈراموں میں پنجابی زبان کا جنازہ نکالا جاتا ہے۔ ماں بہنوں پراس قدرگندی جگتیں ماری جاتیں ہیں کہ سننے والا یہی سمجھتا ہے کہ پنجابی ایسی زبان ہے جوکہ ماں بہن کو بھی نہیں بخشتی۔ اسی طرح اگر میں ہمسایہ ملک کی بات کروں تو وہاں پنجابی میں قدرے بہتر اور اچھی فلمز بنائی جاتیں ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی پنجابی زبان کو فروغ دینے کے لئے بہترین لٹریچر، شاعری کے مجموعے، اورفلمز بنائیں تاکہ ہم اپنی زبان کو اس کا اصل حق دلوا سکیں اور دوسری طرف سب سے اہم بات یہ ہے کہ کہ جس طرح آپ اپنی آنے والی نسل کو اپنا نام، اپنی جائیداد، وغیرہ منتقل کر کہ جائیں گے اسی طرح اپنی پنجابی بھی ان کو منتقل کر کہ جائیں اپنے بچوں کو پنجابی سکھائیں اور ان کی حوصلہ افزائی ک یں۔ اپنی زبان کو خود عزت دیں اور پنجابی بو لنا پینڈوپن نہیں ہے اور نہ ہی کوئی زبان بولنے سے پینڈویا شہری ہوتا ہے، درحقیقت پینڈو ایک ”بوسیدہ“ سوچ کا نام ہے اور اس کا تعلق کسی بھی زبان سے نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).