’جمہوری لبرلز‘ کی خدمت میں ایک عامی کی گزارشات


سوال یہ نہیں کہ وطن ِ عزیز میں لوگوں کو انصاف مل رہا ہے یا نہیں، معاملہ یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں سے انصاف اٹھ چکا ہے۔ جس طرح کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے مگر وہ کہ جو ظلم پر استوار ہو، اسے قرار ممکن نہیں۔ بالکل اسی طرح وہ معاشرہ کہ جہاں انفرادی اور معاشرتی معاملات پر انصاف برتنے کی صلاحیت اور جھوٹ سے نفرت مٹ جائے تو اس کے لوگوں کے نصیب میں بھی دن رات چھینا جھپٹی، رونا دھونا اور چیخ پکار ہی رہ جاتے ہیں۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ وطن عزیز لکیر کے دو اطراف صف آرا دو گروہوں میں بری طرح بٹ چکا ہے۔ ایک طرف سسٹم سے اکتائی ابھرتی ہوئی مڈل کلاس کہ جس سے وابستہ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کو ان کی عمر بھر کی ریاضت، دیانت اور جدوجہد کا صلہ مل کر نہیں دے رہا، جبکہ ملک پر چند مخصوص خاندان نسل در نسل مسلط اور ملکی وسائل پر قابض ہیں۔ عمران خان اسی گروہ کی آواز بن کر ابھرے۔ دوسری طرف وہ طبقہ ہے کہ جس سے جڑے ہوئے جہاں دیدہ لوگ، نا انصافی پر مبنی معاشروں میں بھی جینے کا ڈھنگ خوب جانتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی عافیت سٹیٹس کو میں پاتے ہیں اور اپنے مفاد کو روایتی سیاستدانوں سے ہی وابستہ دیکھتے ہیں۔

وطن عزیز کے ابتدائی عشروں میں دائیں اور بائیں بازوؤں پر استوار نظریاتی تقسیم سرد جنگ کے ہنگام عالمی گروہ بندی سے نمو پاتی رہی۔ ایک طرف وہی مراعات یافتہ طبقہ کہ جس نے انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کے دور میں بہتی گنگا سے خوب اشنان کیا۔ اناج اور سرمایہ اگلنے والے کھیت، کھلیان اور کارخانوں پرتسلط کے علاوہ مذہبی اور نادیدہ قوتوں کی سرپرستی جن کو دستیاب رہی۔ جبکہ دوسری طرف طرز کہن کو مٹا دینے کے درپے ترقی پسند کہ ادب اور سیاست میں جن کی وابستگی بائیں بازو یا سوویت یونین سے تھی اور جو فضا کو انقلابی نعروں، دل موہ لینے والے گیتوں، غزلوں اور رونگٹے کھڑے کر دینے والے ترانوں سے گرمائے رکھتے۔ ان انقلابیوں کا مطمح نظر مغربی استعمار کی پشت پناہی پر کھڑے منڈی کی معشیت پر مبنی استحصالی نظام، اس کے محافظ پٹھو حکمرانوں کے قلع قمع اور اس کے نتیجے میں مزدوروں، دہقانوں اور ہاریوں کو فیکٹری اور کھلیانوں سے حاصل ہونے والی روزی میں ملکیتی حصہ داری کے حق کا حصول یقینی بنانا تھا۔

فطری طور پر بائیں بازوں کے دانشوروں اور سیاسی انقلابیوں کا یہ گروہ فوجی حکومتوں کے بھی خلاف تھا کہ جنہیں وہ مغر بی استعمار کا ہی آلۂ کارتصور کرتے۔ بائیں بازو کے نظریات سے عود کر آنے والے رومانی خمار نے اس دور کے نو جوانوں کو ایک عرصے تک اپنی گرفت میں لئے رکھا۔ بھٹو صاحب نے جب مساوات، عوام کی حکمرانی، روٹی، کپڑا اور مکان جیسے دلفریب نعرے فضا میں بکھیرتے ہوئے فوجی آمر کو للکارا تو طالب علموں، کسانوں اور مزدوروں نے سندھی وڈیرے کو کاندھوں پر اٹھا لیا۔

سرخ انقلاب کے ابتدائی سالوں میں ماسکو کی سڑکوں اور مضافات میں بورژواؤں کی جائیدادوں پر عوامی قبضے کے نام پر سرکاری و غیرسرکاری املاک کو لوٹتے انقلابیوں کے سے مزاج کی یاد تازہ کرتے، عوامی حکومت کے سیاسی کارندے بچے کچھے پاکستان کی سڑکوں اور گلیوں میں پھیل گئے۔ مساوات کا بخار اترا تو پتا چلا کہ بندۂ مزدورکے اوقات تو ویسے کے ویسے تھے، کسان بھی وہیں کے وہیں کھڑے تھے، جاگیرداروں کی جاگیریں بھی سلامت رہیں اگرچہ کچھ قدیم اور کچھ نو دولتیے سرمایہ داروں کے کارخانے عوامی حکومت نے چھین کر سرکاری گماشتوں کے قبضے میں دے دیے تھے۔

نئے انتخابات کا بگل بجا تو نو ستارے کہ جن میں کل کے استعماری پٹھو، اسلام کے خود ساختہ ٹھیکیدار، سٹیٹس کو کے نمائندے اور سرخ پوش، گویا سبھی ایک دوسرے کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملاکر کھڑے ہو گئے۔ لوٹے جانے والے سرمایہ دار پرانا حساب چکانے اس انجمن کی پشت پر کھڑے تھے۔ نو ستارے جب ایک ہی ٹرک کی چھت پر سوار ہوئے تو بائیں بازو کے انقلابی بھی لپک کر ساتھ ہو لئے۔ نعرے و منشور جو بھی ہوں، بنیادی نقطہ کہ جس کے مدار پر یہ کہکشاں گھوم رہی تھی ’بھٹو دشمنی‘ ہی تھا۔ دائیں بائیں کی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سب بھٹو کو ڈبونے نکلے تھے۔ بالآخر سب ڈوب گئے۔

جنرل ضیا الحق کے مارشل لا نے وطن عزیز کو اپنے چنگل میں لیا تو جہاں نو ستاروں کے اتحادی نئے انتخابات کے بنیادی مطالبے کو پسِ پشت ڈال کر بھٹو کی گردن مانگنے میں مصروف تھے تو لاہور کے گورنر ہاؤس میں ایک زخم خوردہ سرمایہ دار خاندان کے انتقامی جذبے کو گوندھ کر ’ڈاکٹر فرینکسٹائن کا بھوت‘ تخلیق کیا جا رہا تھا۔ مغربی سرحدوں پر سرخ استعمار کے خلاف جہاد مذہبی فریضہ ٹھہرا تو مذہبی جما عتوں کی دنیا یوں آباد ہوگئی کہ مسلح و غیرمسلح لشکر درسگاہوں، گلیوں، بازاروں اور سرکاری دفتروں میں دندناتے پھرتے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2