خدا کی بستی، نوشا سے ریحان تک


1957میں شوکت صدیقی نے ایک ناول لکھا ”خدا کی بستی“ بعد ازاں اس کی ڈرامائی تشکیل بھی ہوئی، جس نے خاصی شُہرت پائی۔ کہانی کا زمانہ 1957 کا کراچی ہے۔ سارا کراچی نہیں کراچی کی کچی بستیاں!

یہ کراچی کی غریب کلاس پہ لکھا گیاہے۔ فرنٹ لائن پہ موجُود کردارنوشا، انُو اور راجہ ہیں۔ ہیں جو پہلی سطر سے آخری ورق تک ساتھ چلتے ہیں۔ نوشا، انو بھائی ہیں اور یتیم ہیں۔ راجہ لاوارث ہے، کِسی فقیر کی ریڑھی دھکیلتا ہے تو وہ اِسے پیسے دیتا ہے۔ یہ کردار اسی تگ و دو میں غلطاں ہیں کہ ہمارا بھی وقت آئے گا۔ مگر معاشرہ اُنہیں مزید بگاڑ دیتا ہے۔ اور اچھی زندگی کے سپنے سجائے یہ بچے بد تر انجام سے دوچار ہو جاتے ہیں۔

نوشا ایک ورکشاپ پہ دیہاڑی کرتا ہے۔ وہ پیسے کما کے لاتا ہے تو گھر کا چولہا جلتا ہے۔ نیاز نامی ایک کباڑیا ہے جس کے مکان میں نوشہ کی فیملی رہتی ہے۔ وہ نوشا کو چوری کرنے کے طریقے بتاتا ہے کہ کِس طرح اپنے اُستاد کی دُکان سے پُرزے چوری کر کے لانے ہیں۔ نوشا بہتیرا لیت ولعل کرتا ہے مگر نیاز آئے روز اُسے چوری کرنے پہ راغب کرتا ہے، بُزدل ہونے کے طعنے دیتا ہے۔ اور آخر ایک مزدور کو چور بنا دیتا ہے۔

نوشا پکڑا جاتا ہے، ورکشاپ کا مالک نوشا پہ شدید تشدد کرتا ہے۔ اور نوشا کام چھوڑ دیتا ہے۔ قدم، قدم پہ ان بچوں کو ایک سے ایک بڑھ کے اُستاد ملتا ہے اور وہ قدم بقدم قعر مذلت میں ڈُوبتے جاتے ہیں۔

کراچی کی خُداداد بستی کا رہائشی پندرہ سالہ بچہ ریحان قصائی کا کام کرتا تھا پچھلے دنوں ایک گھر سے مزدوری لینے گیا تو اہلِ محلہ نے پکڑ کر گرل سے باندھ دیا۔ برہنہ کیا، وڈیو بنائی، الٹم پلٹم سوالات کیے۔ القصہ تھانے کا مکمل سِین بنایا گیا۔ ہر ایرا غیرا تفتیشی بنا نظر آتا ہے۔ کوکن پارک کیوں آتے ہو؟ پہلے کتنی بار آئے؟ کتنی چوریاں کیں؟ بعد ازاں تشدد سے اُس بچے کی موت واقع ہو گئی۔

آپ شوکت صدیقی کا ناول ”خُدا کی بستی“ پڑھیں۔ آپ کو نوشہ کی جگہ ریحان نظر آئے گا۔ اور ایسے لگے گا کہ مصنف نے یہ سارا منظر دیکھ کر ناول لِکھا۔ تریسٹھ سال پہلے لکھے جانے والے ناول کا حرف حرف آج کے حالات کی گواہی دے گا۔ بلکہ حالات تب سے بھی زیادہ دگرگُوں نظر آئیں گے۔ گویا ہم تنزلی کے مسافر ہیں۔

پولیس، سیاست، عدالت، جرائم، جیل تب سے بھی بدتر ہیں۔ ریاست بیمار ہے، بے بس ہے جس کے پاس غریب بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وسائل نہیں، والدین بے یارومددگار ہیں اُن کی زندگی دائرے کا سفر ہے صبح کی روٹی، شام کا کھاناِ۔ اُنہیں نہیں معلوم کہ کب بچے جرائم پیشہ کرداروں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں جو اُنہیں روزی کمانے کے شارٹ کٹ بتاتے ہیں۔ ذریعہ روزگار ڈھونڈ کے دینا والدین کی ذمہ داری ہے اور اسے ادا کر رہے ہیں بیمار ذہن کردار!

بالفرض ریحان نے چوری کی، وہ پکڑاگیا۔ تحقیق کام ہے محکمہ پولیس کا، کر رہے ہیں عام شہری، وہ بھی سارے بیمار ذہن! جو پہلے برہنہ کر کے رُوح پہ زخم لگاتے ہیں، پھر جسم پہ ضربیں لگاتے ہیں! بچہ مر جاتا ہے۔ وِڈیو وائرل ہوتی ہے۔ پولیس حرکت میں آتی ہے، اور ساتھ ہی ایک بیانیہ چلتا ہے کہ ریحان عوام کے تشدد سے مارا گیا ہے اور اسی بیانئیے پہ وکلاء مقدمہ لڑیں گے اور مجرم آزاد ہوں گے۔

ریحان کی فیملی سے کوئی سر پِھرا اُٹھے گا، مخالفین سے بدلہ لے گا اور پھر عزیر بلوچ، رحمٰن ڈکیت یا بابا لاڈلا بن جائے گا۔ بچے کو باندھنے سے لے کر تفتیش کرنے تک کوئی ایک ذی شعُور بھی نہیں تھا جو 15 پہ کال کر دیتا! اس ساری کہانی کے پیچھے ریاست کی شدید نا اہلی نظر آتی ہے۔

ریاست، ریاستی اداروں سے ہی بنتی ہے۔ ریاستی ادارے جب اپنا کام نہیں کریں گے۔ پولیس اشرافیہ کی کنیز بنے گی، سُپر ادارے حکومتیں بنوائیں اور تڑواییں گے۔ حکومتی لوگ اپنے ذاتی کاروبار چلائیں گے۔ وسائل اوروقت اپوزیشن سے بدلے لینے کے لیے صرف کریں گے۔ عدالتیں ڈیم بنوائیں گیں۔ تو پھر غریبوں کے بچوں کو روزی کے شارٹ کٹ ”نیاز“ جیسے بیمار ذہن ہی بتائیں گے۔ جب لوگوں کو یقین ہو جائے گا کہ انصاف عدالتوں کا کام نہیں تو لوگ سڑکوں پہ اپنی عدالتیں لگائیں گے۔

جب جیل سے پلٹنے والے قتل کے مجرم واپسی پہ بتائیں گے کہ دو سالہ لاء پہ ضمانت کیسے ہونی ہے اور نیلی بار پہ آزادی کیسے ملنی ہے تو معاشرہ شدید سے شدید ترین مریض بنتا جائے گا۔ ماہر طبیب سے تشخیص کرواؤ تو وہ بتائے گا کہ ریاست بیمار ہے۔ ریاست کا ہر کُل پُرزہ بیمار ہے۔ اور اِن بیمار پُرزوں سے مُنسلک انسانوں کا بیمار ہونا فطری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).