مولانا فضل الرحمان بمقابلہ “گلاب سنگھ نیازی” کا دنگل سجنے کو ہے


کوئی طالب مولانا فضل الرحمان کی ٹانگیں دبا رہا ہو۔ ایسے میں ان سے سوال پوچھتا رہے ۔ اسے جواب ملتے رہتے ہیں۔ اچھے سوال پر داد بھی مل جاتی ہے۔ اپنے کارکنان سے طویل بحث کر لینا، ان کو جواب دینا ، ان کے مشکل سوالات کا خوشگوار موڈ میں جواب دینا، مولانا کا مستقل ٹریڈ مارک رہا ہے۔

مولانا کے قریبی حلقے بتاتے ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کی بات کرتے ، اب سنجیدہ رہتے ہیں ۔ بلکہ غصے میں بھی آ جاتے ہیں ۔ اس حکومت کو وقت دینے کے لیے اب بالکل تیار نہیں ہیں ۔

جے یو آئی کی شوری اپنے رویوں میں بہت جمہوری ہے۔ اس جماعت کی پہچان یہ رہی ہے کہ اس کے کارکنان عہدیداروں کے علاوہ بھی اس سے منسلک شخصیات ایسی ہیں جن کا حلقہ اثر احترام پاکستان سے باہر اردگرد ملکوں میں بھی ہے۔

کئی نیک نام علما دین بغیر عہدوں کے عملی سیاست میں شریک ہوئے بغیر اس جماعت کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ ایسے خاموش علما دین ہی ہیں جن کے دم سے جے یو آئی کی سیاست میں برکت رہتی ہے۔  مولانا کی اپنی سیاسی حکمت عملی ان کی جماعت کو اپنے سیاسی وزن سے بھی زیادہ حصہ طاقت میں دلواتی آئی ہے۔

مولانا کی سیاست، ان کے سیاسی انداز کے ان کے مخالفین بھی قائل ہیں ۔ یہ سیاسی مہارت مولانا نے اپنی جماعت کے اندرونی نظام کو مسلسل ڈیل کر کے حاصل کی ہے۔ پارٹی کے اندرونی نظام کو ہینڈل کرنا ملکی سیاست کو ڈیل کرنے سے کہیں زیادہ مہارت مانگتا ہے۔ وہ بھی ایسے میں کہ کئی قدآور علما دین پارٹی کے اندر موجود ہوں۔

جب کپتان اور مسلم لیگ نون میں محاذ آرائی کا آغاز ہوا ۔ تب جے یو آئی کے اندر یہ مستحکم رائے تھی کہ اس لڑائی کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمیں اس سے دور رہنا چاہئے۔ مولانا نے رفتہ رفتہ کپتان اور پی ٹی آئی کے خلاف پوزیشن لے لی۔ یہ ان کے لیے ہرگز آسان نہ ہوتا ۔ اگر پی ٹی آئی خود انہیں مسلسل ٹارگٹ نہ کرتی۔

الیکشن کے بعد مولانا اک فوری تحریک کا آغاز چاہتے تھے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ مسلم لیگ نون اور پی پی اسمبلی میں جانا چاہتی تھیں ۔ یہ دونوں پارٹیاں ہی مولانا کی پارٹی کو اپنے ساتھ حلف اٹھانے لے گئیں ۔

یہ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ جے یو آئی کہ اندر خاصا بڑا حلقہ اس حکومت کو وقت دینے کے حق میں تھا۔ محاذ آرائی نہیں چاہتا تھا ۔ مولانا نے جب رابطہ عوام مہم شروع کی تو اصل میں وہ اپنی پارٹی کو ہی یکسو کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ان کے کارکنان تو چارج ہو ہی رہے تھے۔

مسلم لیگ نون میں شہباز شریف کو لے کر اک بحث چھڑی رہتی ہے۔ ہماری طرح اکثریت کا خیال یہی ہے کہ وہ صلح پسند ہیں ۔ تصادم سے گریز کرتے ہیں۔ مشترکہ اپوزیشن کے اجلاس میں یہ شہباز شریف ہی تھے جنہوں نے مولانا سے کہا کہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ کب تحریک شروع کرنی ہے۔ آپ کل اسلام آباد آئیں ہم آپ کے ساتھ چلیں گے۔

ابھی تک خبروں کے باوجود جے یو آئی میں بھی ، مدارس میں بھی کسی تحریک کے حوالے سے کوئی سرگرمی نہیں ہو رہی تھی۔ گذشتہ چند دن سے البتہ ، اب جے یو آئی کی تنظیمیں پوری طرح سرگرم ہو گئ ہیں۔

ایسے ہی اک تنظیمی اجلاس میں احوال لینے ریکارڈنگ کرنے آئے ہوئے مالی وغیرہ اپنی اچھی خاصی ٹکور بھی کرا کے گئے ہیں۔

جے یو آئی نے پچیس اگست کو اپنی شوری کا اجلاس منعقد کیا۔ اس میں تحریک چلانے کی منظور دے دی گئی۔ انتظامی کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا ۔

مولانا نے پارٹی اجلاس کے بعد اک پریس کانفرنس بھی کی ۔ ایک ہوشیار سیاستدان کی طرح انہوں نے تحریک کے لیے وہ پوائنٹ منتخب کیے ہیں ۔ جو لوگوں کے لیے حساس ہیں ۔ اس وقت حکومت ادارے کشمیر کے حوالے سے اک مشکل صورتحال سے نبردآزما ہیں۔ مولانا کشمیر کمیٹی کے مدتوں سربراہ رہے ہیں۔ انہوں نے کشمیر کی صورتحال پر حکومت کو رگڑنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ کپتان کو نیا گلاب سنگھ قرار دے کر وہاں ہٹ کیا ہے، جہاں درد بھی زیادہ ہو۔

گلاب سنگھ نیازی جوڑ کر ملا کر پڑھیں ۔ پھر حکومت کی حالت زار کشمیر پر صورتحال کا اندازہ کریں۔ مودی کا یار کہہ کہہ کر سابق حکمرانوں کو چھیڑنے والی پی ٹی آئی اسی نام اسی یاری دوستی پر خود خوار ہونے جا رہی ہے۔

مولانا نے مدارس کی تنظیموں سے کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ مدارس کو ریگولرائیز کرنے کے لیے ہونے والے مذاکرات ختم کریں ۔ یہ حکومت ہے ہی بدنیت۔ کپتان کے مدارس کا نصاب تبدیل کرنے کی باتیں یاد کر لیں ۔ مولانا کا مطالبہ سن لیں ۔ صورتحال سمجھ لیں کہ کدھر جا رہی۔

جے یو آئی پر یا مولویوں پر کوئی الزام اگر بغیر سوچے لگانا ہو تو وہ یہی ہوتا کہ یہ ریال درہم دینار میں چندے لیتے ہیں ۔ عرب ممالک کے خلاف نہیں کھڑے ہو سکتے ۔ ان کا ذکر کرتے لڑکھڑانے لگتے ہیں ۔ مولانا نے مودی کو اعزازات دینے پر سعودی اور یو اے ای حکومت کی مذمت کی ہے۔ یہ اعزازات واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

مولانا کی باتیں غور سے سنیں تو انہوں نے بہت کچھ نہیں کہا ۔ کچھ باتوں پر خاموشی اختیار کی ہے ۔ ہو سکتا کہ تحریک شروع کرنے کے بعد وہ یہ سب باتیں بھی کرنے لگ جائیں ۔ عام لوگوں کے معاشی مسائل کی بات بھی وہ کر رہے ہیں ۔

اس تحریک سے حکومت گرے گی یا گھر جائے گی ۔ یہ تو نہیں لگتا ۔ لیکن حکومت کرنے کا سارا مزہ ضرور جاتا رہے گا ۔ مولانا کی مجبوری یہ ہے کہ اگر وہ باہر نہیں نکلتے تو ان کی اپنی سیاست کنارے لگنے کا پورا امکان ہے ۔

انہیں یہ بتانا ہے کہ میرے بغیر کوئی حکومت بن تو سکتی ہے چل نہیں سکتی ۔ تحریک کے لیے انہوں نے ٹارگٹ بھی گلاب سنگھ نیازی گھڑا ہے ، جس کا جواب نہیں ۔ جب وہ اپنے ورکروں کو گلاب سنگھ نیازی سے جنگ لگانے نکال کر لائیں گے تو ورکر کے جذبے بھی دیکھنے والے ہونگے ۔ گلاب سنگھ نیازی کا ورد ہوتا رہا تو کشمیر پر بنائے گئے سارے عالمی منصوبے دھرے رہ جائیں گے ۔ سب حیران حیران پھر مولانا کو دیکھتے ہونگے ۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi