انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں صحافی : ہم زمینی صورتحال سے بالکل منقطع ہیں
انڈیا کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے گذشتہ تین ہفتوں سے وادی کشمیر میں کرفیو اور سخت پابندیاں جاری ہیں جبکہ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروس بھی بدستور معطل ہے۔
کشمیر میں موجود نامہ نگاروں نے بتایا ہے کہ حکومتی اعلانات کے باوجود تعلیمی اداروں، بشمول سکولوں، میں حاضری نہ ہونے کے برابر ہے اور کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہیں جبکہ گذشتہ کچھ دنوں کے دوران سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ دکھائی دے رہی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق سرینگر میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا ریاستی پرچم مرکزی سرکاری عمارت سے ہٹا دیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق یہ پرچم، جو انڈیا کے پرچم کے ساتھ لہرایا جاتا تھا، متنازع علاقے میں دیگر سرکاری عمارتوں سے بھی ہٹایا جا رہا ہے۔
کشمیر کے اس لال پرچم پر ہل کا نشان زراعت اور تین سفید لکیریں ہیں جو ریاست کے تین خطوں جموں، کشمیر اور لداخ کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اسے ریاست کی اسمبلی نے سنہ 1952 میں منظور کیا تھا۔
رائٹرز کے مطابق کشمیر کی مقامی انتظامیہ نے اتوار کو جموں و کشمیر کا پرچم سیکرٹریٹ کے عمارت سے ہٹایا تھا۔ کشمیر کی اکثر سرکاری عمارتوں پر ریاست اور انڈیا کا پرچم لہرایا جاتا تھا۔
پرچم ہٹانے کا یہ فیصلہ انڈیا کی حکمراں جماعت بی جے پی کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے تین ہفتوں بعد کیا گیا ہے۔ اگست کے اوائل سے کشمیر میں مواصلاتی نظام بدستور بند ہے اور کرفیو اور سخت پابندیاں جاری ہیں۔
صحافیوں کو درپیش مشکلات
پابندیوں اور بندشوں کی اس صورتحال میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں موجود صحافیوں کو بھی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
بی بی سی کے خصوصی ریڈیو پروگرام نیم روز کے لیے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے شہر سرینگر سے مقامی صحافی ماجد جہانگیر نے وہاں موجود چند صحافیوں سے بات کر کے ان مشکلات کا احاطہ کیا۔
ان صحافیوں میں سے ایک آکاش حسن کا کہنا تھا کہ ‘ہم خبریں تب ہی لا سکتے ہیں جب ہمارے زمینی رابطے ہوں لیکن مواصلاتی نظام کی معطلی سے ہم زمینی صورتحال سے بالکل منقطہ ہیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ جب تک وہ کسی بھی علاقے کا دورہ نہیں کرتے اور وہاں موجود افراد سے بات نہیں کرتے تب تک اس علاقے کی صورتحال کو جاننا بہت مشکل ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے وقت میں وادی کشمیر میں کام کرنے میں ناصرف خبروں کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے بلکہ ان حالات میں اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنا اور اپنی خیریت کی اطلاع دینا بھی مشکل ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ‘میرے والد پانچ دنوں بعد مجھ سے ملنے جنوبی کشمیر سے سرینگر آئے تو میں بہت ہی حیران اور خوش ہو گیا۔ میرے چار سالہ دورِ صحافت میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ میں اپنے اہلخانہ کو اپنی خیریت کی اطلاع نہیں دے سکا جس کے باعث میرے والد مجھے دیکھنے یہاں آئے ہیں کیونکہ وہ بہت پریشان تھے۔’
اسی طرح گذشتہ تین برسوں سے فوٹو جرنلسٹ کے طور پر کام کرنے والے ثنا متوبی کا کہنا تھا کہ اگر کوئی واقعہ کسی علاقہ میں رونما ہوتا ہے تو دو مسائل سب سے پہلے سامنے آتے ہیں۔ ‘ایک یہ کہ تفصیلات کی عدم فراہمی کی وجہ سے کسی واقعے کی تصدیق ہونا اور دوسرا یہ کہ راستوں میں کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو عبور کر کے وہاں تک پہنچنا۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘اس سب جدوجہد کے بعد جو تکلیف دہ بات ہے وہ یہ کہ آپ نے جو بھی رپورٹ کیا ہے اس کو انٹرنیٹ اور ٹیلیفون سمیت مواصلاتی نظام کی معطلی کے باعث کہیں بھیج بھی نہیں سکتے۔’
کشمیر سے اخبارات نکالنے والے صحافی بھی انھیں مشکلات کا شکار ہیں۔ سرینگر کے مقامی اخبار چٹان کے مدیر اور سرکردہ صحافی طاہر محی الدین نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ان پابندیوں کی وجہ سے اخبار شائع کرنے میں بھی دشواریوں کا سامنا ہے کیونکہ نیوز ایجنسی کے دفتر سے لے کر میڈیا سینٹر جانے تک، کاپی بنانے سے رات تک چھپائی کروانا مشکل ہو گیا ہے۔’
علی گیلانی کا پانچ نکاتی ایجنڈا
دوسری جانب پاکستان کے مقامی میڈیا کے مطابق سرینگر میں اپنے گھر میں نظر بند حریت رہنما سید علی گیلانی نے کشمیریوں کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں انھوں نے موجودہ صورتحال کے بارے میں پانچ نکاتی ایجنڈا بھی دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اپنے خط میں انھوں نے کہا ہے کہ ‘ کشمیر میں مواصلاتی نظام بند اور ہزاروں نوجوان گرفتار ہیں، کشمیری عوام بہادری سے انڈین مظالم کے خلاف کھڑے ہیں، انڈین فوج مارنے کے لیے تیار اور کشمیری احتجاج کے لیے تیار ہیں۔’
‘کشمیر کی تالا بندی کی گئی ہے، انڈیا کشمیر کی صورتحال کی اطلاعات بیرون دنیا میں پہنچنے سے روک رہا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ انڈیا نواز قیادت بھی کشمیریوں کا ساتھ دے۔’
حریت رہنما نے کہا کہ ‘انڈیا کشمیر نہیں بلکہ کشمیر کی سرزمین چاہتا ہے، کشمیری عوام اپنے علاقوں میں پرامن احتجاج اور مظاہرے کریں۔’
میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کے پانچ نکاتی ایجنڈے میں اپیل کی گئی ہے کہ کشمیریوں کی جانب سے پُرامن مظاہرے کیے جائیں، کشمیر سے تعینات کیے گئے سرکاری افسران اور پولیس اہلکار انڈین حکومت کے خالف احتجاج کریں، دنیا بھر میں موجود کشمیری کشمیر کے سفیر بنیں، پاکستانی رہنما مدد کے لیے آگے بڑھیں اور جموں اور لداخ کے شہری اپنی شناخت کا تحفظ کریں۔
انھوں نے اپنے خط میں پاکستان اور مسلم امہ سے کشمیریوں کی مدد کے لیے آگے آنے کی اپیل بھی کی ہے جبکہ کشمیر سے باہر لوگوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیر کے سفیر بنیں اور پرامن احتجاج کریں۔
انھوں نے اپنے خط میں جموں اور لداخ کی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد ان کی شناخت کو خطرہ ہے۔ وہ بھی اس کے خلاف انڈیا کی حکومت کے سامنے آواز اٹھائیں۔’
- شیاؤمی: چینی سمارٹ فون کمپنی نے الیکٹرک کار متعارف کروا کر کیسے ٹیسلا اور ایپل دونوں کو ٹکر دی - 29/03/2024
- خسارے میں ڈوبی پاکستان کی قومی ایئرلائن کو ٹھیک کرنے کے بجائے فروخت کیوں کیا جا رہا ہے؟ - 29/03/2024
- غزوہ بدر: دنیا کی فیصلہ کن جنگوں میں شمار ہونے والا معرکہ اسلام کے لیے اتنا اہم کیوں تھا؟ - 29/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).