وزیراعظم کیا ہاؤسنگ سوسائٹیز کے فراڈ پر نوٹس لیں گے؟


یوں تو ہمارے ہاں ساری قسمیں اور وعدے انتخابات کے نتائج کے ساتھ ہی دم توڑ جاتے ہیں، لیکن انہیں چند ماہ تک کسی سرد خانے میں رکھ دیا جاتا ہے تاکہ حکومت کا ہنی مون دورانیہ گزرنے پر جب عوام کی امیدیں بھی وفات پا جائیں تو انہیں اکٹھے دفنا دیا جائے۔ اور اگر عوام کچھ سخت گیری کا مظاہرہ کرئے اور ان امیدوں میں ابھی بھی کوئی سانسیں باقی ہوں، تو پھر نئے وعدوں اور اعلانات کے ذریعے انہیں ایک نئی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔ اس دفعہ وعدوں کے ساتھ چند ایک فیتے بھی کاٹے جاتے ہیں اور پرتعش تقاریب میں فوٹو شوٹ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی آئے چوکھا، حکومت وقت کی ایک دفعہ پھر بلے بلے ہو جاتی ہے۔

عمران خان صاحب چونکہ صاف اور کھرے انسان ہیں، پچھلوں سے تھوڑا مختلف واقع ہوئے ہیں، اور آپ نے ہسپتال، سکول، پولیس یا دوسرے اداروں کو ٹھیک کرنے کے جو وعدے کیے تھے، انہیں سرد خانوں میں رکھنے کے تکلف کی بجائے، اپنی وکٹری سپیچ کے فوراً بعد سے ہی بغیر کسی تردد کے دفنا چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان پر اب کوئی بات نہیں کی جاتی۔ اسی طرح خان صاحب نے نئے وعدوں میں بھی زیادہ دیر نہیں کی اور عوامی امنگوں کے گھوڑے پر سوار جیسے ہی میدان میں اترے خدمت انسانی کے جذبے سے لبریز اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور کھٹاک کرکے 50 لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کا اعلان دے مارا۔

اب ہمارا دل بھلے اس غیر حقیقت پسندانہ اعلان کو ایک نئی ’ٹرک کی بتی‘ سمجھنے کی طرف مائل ہو لیکن عمران خان صاحب کی کرشماتی شخصیت کو دیکھتے ہوئے ان کے سپورٹرز اور شاید کچھ ہمدردوں کا بھی ماننا ہے کہ خان صاحب اسے بھی ممکن کر دکھائیں گے۔ فیتا کاٹنے کی رسم میں البتہ پچھلوں سے کوئی نظریاتی اختلاف سامنے نہیں آیا اور ایک سال بعد ہی سہی لیکن یہ رسم خوش اسلوبی سے ادا ہوچکی ہے اور قابل فخر بات یہ ہے کہ عوام کے اس مقبول ترین لیڈر کا ایک زبردست فوٹو شوٹ بھی ہوچکا ہے۔

بہرحال یہاں کچھ نئے اور پرانے وعدوں کا تذکرہ اس لئے مقصود تھا کہ وزیراعظم عمران خان صاحب کو یاد دلایا جائے کہ ہماری امیدیں آج بھی پرانے وعدوں سے ہی وابستہ ہیں۔ خان صاحب آپ اپنا نیا پاکستان ہوا میں بنائیں یا مریخ پر، ہمیں اس سے کوئی اعتراض نہیں، ہم زمین پر بسنے والے لوگ ہیں، ہمارے مسائل بھی اسی پرانے پاکستان کے پرانے اداروں سے وابستہ ہیں جنہیں ٹھیک کرنے کے آپ نے ہم سے وعدے کیے تھے۔ میں آپ کی توجہ پاکستان میں پہلے سے موجود ان ہزاروں پرانی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی طرف دلوانا چاہتا ہوں جن کے فراڈ میں اسی پرانے پاکستان کے لاکھوں شہری، اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپیہ پھنسائیں بیٹھے ہیں۔

ان سوسائٹیز کی منظوری اور ریگولیشن کے لئے ہر بڑے شہر میں ڈویلپمنٹ اتھارٹیز قائم ہیں، جن کی اپروول کے بغیر کوئی سوسائٹی نہ اناونس کی جا سکتی ہے اور نہ پلاٹنگ کر کے بیچ سکتی ہے۔ لیکن یہ کیسی اندھیر نگری ہے کہ اکثر سوسائٹیز بغیر کوئی اپروول لئے نہ صرف اپنے دفاتر کھولتی ہیں بلکہ کھلے عام تشہیر کرکے پلاٹ بیچنا بھی شروع کر دیتی ہیں۔ اور جب کوئی ایسا فراڈ سامنے آتا ہے تو وہی اتھارٹیز ”مشتری ہوشیار باش“ کا اشتہار لگا کر بری الزمہ ہو جاتی ہیں۔ اور مزے کی بات کہ آج تک نہ کسی مائی کے لال نے ان ڈویلپمنٹ اتھارٹیز سے پوچھا کہ آخر ان کی ناک کے نیچے یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ اور لگتا ہے نہ کسی کا پوچھنے کا ارادہ ہے۔

ہاؤسنگ سوسائٹیز مافیا کو اس ملک میں اس قدر کھلی چھٹی رہی ہے کہ انہوں نے فراڈز کے نت نئے طریقے ایجاد کر لئے ہیں، دستیاب پلاٹوں سے زائد فائلیں بیچنا، اب ہر سوسائٹی کی سٹینڈرڈ پریکٹس معلوم ہوتی ہے۔ پھر انہی فائلوں کی قیمت گرا کر انہیں کم قیمت میں اٹھایا جاتا ہے یا پروجیکٹ کو سست کر کے لوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ دس، پندرہ فیصد کٹوتی پر فائل سوسائٹی کو واپس کر دیں یعنی جو پلاٹ کبھی سرے سے موجود ہی نہیں تھا اس کو بھی کاغذ کے ایک ٹکڑے پر بیچ کر منافع کمایا جاتا ہے۔ مبہم ٹرمزاینڈ کنڈیشنز، لوکیشن کی تبدیلی اور من مانے ڈویلپمنٹ چارجز، غرضیکہ ان سوسائٹیز کے چنگل میں پھنسی عوام کی ہر طریقے سے چمڑی تک ادھیڑی جارہی ہے اور ان سب باتوں سے بے نیاز ہمارے تمام وفاقی وزراء ہر وقت 50 لاکھ گھروں کے اعلان پر ایک رحم دل حکمران کے گیت گاتے سنائی دیتے ہیں۔

خان صاحب آپ اپنی رحم دلی کا خوب ڈنکا بجوائیں ہمیں اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ آخر آپ کی عزت ہماری عزت ہے، لیکن ان ہاؤسنگ سوسائٹیز کے متاثرین بھی اس ملک کے عزت دار شہری ہیں جو لاکھوں اور کروڑوں روپے لگا کر بھی کبھی نیب آفس میں دھکے کھا رہے ہوتے ہیں اور کبھی ان سوسائٹیز کے خلاف احتجاج میں سڑکوں کی خاک چھانتے دکھائی دیتے ہیں۔ نیو لاہور سٹی کے متاثرین، بحریہ ٹاؤن، ایڈن سوسائٹی، پاک عرب، اور نہ جانے کن کن سوسائٹیز کے متاثرین۔

خان صاحب کبھی نظر دوڑائیں یہ قوم پاکستانی کم اور متاثرین زیادہ نظر آتی ہے۔ اور اگر اس معاملے میں آپ اپنے شیر شاہ سوری کے دور کے محکمہ مال یا پٹوار خانے بھی شامل کرلیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کے سول کورٹ میں دائر ہونے والے سب سے زیادہ مقدمات اسی محکمہ سے متعلق ہیں۔ شہباز شریف صاحب کے تیس سالہ دور میں اس ضمن میں صرف ایک قدم یہ اٹھا تھا کہ اس نظام کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا تھا لیکن وہ بھی جزوی طور پر، کیا اگلی کسی پیشرفت کے لیے ہمیں پھر تیس سال انتظار کرنا ہوگا؟

یہ گلا سڑا اور فرسودہ نظام پاکستان اور اس قوم کو اندر ہی اندر سے کھاتا جا رہا ہے، نہ صرف متاثرہ لوگوں کے لئے عذاب بنا ہوا ہے بلکہ ہمارے عدالتی نظام پر بھی ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔ اور جہاں تک رئیل اسٹیٹ یا ہاؤسنگ سوسائٹیز میں فراڈز کا تعلق ہے تو بھلے کوئی اس کا تخمینہ لگوا لے، میں پھر کہہ رہا ہوں یہ معاملہ اربوں نہیں کھربوں کا ہے اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ یہ انڈسٹری کتنی بڑی مس ایلوکیشن آف ریسورسز اور اکانومی میں جمود کا باعث بنی ہوئی ہے۔

ضرورت اس چیز کی ہے کہ ان ہاؤسنگ سوسائٹیز اور ڈویلپمنٹ اتھارٹیز پر جن کا یقیناً آپس میں گٹھ جوڑ ہے، فوری کریک ڈاؤن شروع کیا جائے اور یہ رقم بازیاب کروائی جائے، جس سے حق داروں کو ان کا حق ملے گا، یہ رقم واپس اکانومی میں آئے گی اور وہ چالیس انڈسٹریز جن کا ہمارے رحم دل وزیراعظم بار بار ذکر کرتے ہیں وہ خود بخود چلنا شروع ہو جائیں گی۔

اور خان صاحب کے لئے میرا پیغام ہے کہ اس قوم نے رحم دلی کا دعویٰ کرنے والے پہلے بھی بہت دیکھیں ہیں، آپ انصاف کے دعوے دار تھے ہمیں رحم دلی نہیں انصاف چاہیے۔ اور یہ کہ ملک اداروں سے بنتے ہیں، اگر آپ اداروں کو ٹھیک کیے بغیر الٹے بھی لٹک جائیں تو آپ کا نئے پاکستان کا خواب ہمیشہ خواب ہی رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).