نازی نظریے سے متاثر راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)۔


بھارت کو ہندو شدت پسند مملکت کا تشخص دینے میں ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس (راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ) کی ایک طویل سیاہ تاریخ ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کی بنیادی وجوہات میں دو قومی نظریہ اس لئے نمایاں تھا کہ سر سید احمد خان، علامہ اقبال ؒ سے لے کر مسلم قیادت اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ تک نے مستقبل میں جھانک لیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل تاریک ہوگا اور ہندو شدت پسند، مغلوں و افغانوں کی، ہندوستان پر حکمرانی کا بدلہ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں سے لیں گے۔

بھارت میں ہندو مسلم فسادات کی تاریخ ہو یا مسلم دشمنی میں آر ایس ایس انتہا پسندی میں سب سے نمایاں نظر آتی ہے۔ اس دہشت گرد تنظیم کو آزادی سے قبل اور بعد میں بھی حکومتی سطح پر ہندو شدت پسندوں نے زیادہ تر کھل کر ساتھ دیا اور آر ایس ایس کے انتہا پسندانہ نظریے کو مزید متشدد بنایا۔ قیام پاکستان سے قبل 25 ستمبر 1927 میں بننے والی ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس نے ناگپور فسادات میں فسطائیت کا کھل کر مظاہرہ کیا تھا جب مسلمانوں کے خلاف آر ایس ایس نے سفاکیت کی تاریخ رقم کردی تھی۔

آر ایس ایس کے رکن ناتھورام نائک گوڈسے نے ہی 1948 میں مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا۔ 1969 کے احمد آباد فساد،1971 کے کو تلشیری فساد اور 1979 میں بہار کے جمشید پور فرقہ وارانہ فساد میں آر ایس ایس نے اپنی بربریت و ہندوشدت پسندی کو خوب ابھار کر اپنے نظریات کو جبراً مسلط کرنے کے متشدد منصوبے بنائے۔ مسلمانوں کے تشخص اور شعائر اسلام کے خلاف متحرک و بدنما کردار کی حامل آر ایس ایس کے ہندو انتہا پسندوں نے 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کی۔

آر ایس ایس کو بھارت میں مختلف فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہونے پر نمائشی تحقیقی کمیشن کا سامنا کرنا پڑا۔ آر ایس ایس کی ہندو شدت پسند ی کو روکنا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں تھا۔ ذرائع کے مطابق آر ایس ایس کی ہندو شدت پسندی کے خلاف جو باقاعدہ تحقیقاتی کمیشن قائم ہوئے ان میں 1969 ء کے احمدآباد فساد پر جگموہن رپورٹ، 1970 ء کے بھیونڈی فساد پر ڈی پی ماڈن رپورٹ، 1971 ء کے تلشیری فساد پر وتایاتیل رپورٹ، 1979 ء کے جمشیدپور فساد پر جتیندر نارائن رپورٹ، 1982 ء کے کنیاکماری فساد پر وینوگوپال رپورٹ، 1989 ء کے بھاگلپور فساد کی رپورٹ مرتب کیں گئیں لیکن زغفرانی دہشت گردوں کو مذموم عزائم سے نہیں روکا جاسکا۔

آر ایس ایس دہشت گردی کے واقعات میں بھی ملوث پائی گئی جس میں مشہور زمانہ مالیگاؤں بم دھماکا، حیدرآباد مکہ مسجد بم دھماکا، اجمیر بم دھماکا، سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکا شامل ہیں۔ آر ایس ایس کی شدت پسند ہم خیال جماعتوں و تنظیموں میں وشوا ہندو پریشد، بھارتیہ جنتا پارٹی، سنگھ پریوار کی سیاسی تنظیم، ون بندھو پریشد، راشٹریہ سیوکا سمیتی، سیوا بھارتی، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد۔ سنگھ پریوار کا اسٹوڈنٹس ونگ، ونواسی کلیان آشرم، بھارتیہ مزدور سنگھ، ودیا بھارتی وغیرہ شامل ہیں۔

آر ایس ایس تنظیم کے تنظیمی ڈھانچے اور مالی وسائل کے بارے میں دنیا کو زیادہ سے زیادہ بے خبر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آر ایس ایس ظاہری طور پر اپنے آپ کو ایک ثقافتی تنظیم کے لبادے میں پیش کرتی ہے لیکن جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے اس حوالے سے ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ بی جے پی کی تمام ڈوریں آر ایس ایس ہلاتی ہے اور تمام فیصلے بھی آر ایس ایس کرتی ہے۔ اس حوالے سے معروف مصنف اور قانون دان اے جی نورانی نے حال ہی میں شائع 500 صفحات پر مشتمل ضخیم تصنیف The RSS: A Menace to India میں اس تنظیم کے حوالے سے کئی انکشافات کیے ہیں۔

بی جے پی میں سب سے طاقتور آرگنائزنگ جنرل سیکرٹری آر ایس ایس کاہی نمائندہ ہوتا ہے۔ آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں غیر شادی شدہ افراد کو ترجیح دی جاتی ہے اور دہشت گرد تنظیم کے غیر شادی شدہ ارکان کو ہی اعلیٰ عہدے دیے جاتے ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے آر ایس ایس میں پوزیشن حاصل کرنے کے لئے اپنی بیوی کو شادی کے کچھ برس بعد اسی وجہ سے چھوڑ دیا تھا تاکہ شادی شدہ ہونے کی وجہ سے انہیں آر ایس ایس میں کلیدی عہدے تک جانے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

بتایا جاتا ہے کہ آر ایس ایس کے تنظیمی ڈھانچے میں نچلے یونٹ کو ’شاکھا‘ کہا جاتا ہے۔ آر ایس ایس اپنی تنظیمی ضرورت کے پیش نظر کئی یونٹس بیک وقت بھی کسی شہر یا قصبے میں قائم کرتی ہے۔ گذشتہ دنوں عالمی ذرائع ابلاغ میں آر ایس ایس کی جانب سے آر ایس ایس کے یونٹس کی جانب سے مخصوص ٹریننگ دیے جانے کی ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں جس میں دیکھا جاسکتا تھا کہ آر ایس ایس اپنے کارکنان کو پارکوں و کھلی جگہوں پر کھلے عام تربیت دے رہی ہے۔

اس حوالے سے بھارتی میڈیا میں تھوڑا شور بھی اٹھا کہ آر ایس ایس اب گلی گلی میں تشدد کو فروغ دے رہی ہے تاہم کمزور احتجاج کرتی ان آوازوں کو دبا دیا گیا۔ بھارتی میڈیا اور فلم انڈسٹری مکمل طور پر آر ایس ایس کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ آر ایس ایس کی مرضی کے بغیر کوئی ایسا پروگرام یا فلم نہیں چلائی یا بنائی جاسکتی جس پر آر ایس ایس اعتراض کردے۔ بھارت کی فلم انڈسٹری سے وابستہ شخصیات آر ایس ایس کی منشا کے بغیر سانس بھی لینے سے ڈرتے ہیں۔

میسر معلومات کے مطابق آر ایس ایس کایونٹ انچارج ذہن سازی کا کام بھی کرتا ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ کو ’سرسنگھ چالک‘ کہا جاتا ہے اور اس کے معتمد کو ’چار راشٹریہ سہکرواہ‘ کہا جاتا ہے۔ ہندو دہشت گرد تنظیم کے بنیادی طور پر بالائی سطح کیچھ تنظیمی ڈھانچے ہیں۔ جن میں کیندریہ کاریہ کاری منڈل، اکھل بھارتیہ پرتیندی سبھا، پرانت یا ضلع سنگھ چالک، پرچارک، پرانت یا ضلع کاری کری منڈل اور پرانت پرتیندی سبھا شامل ہیں۔

پرانت پرچارک جو کسی علاقے یا ضلع کا منتظم ہوتا ہے کا غیر شادی شدہ یا خانگی مصرفیات سے آزاد ہونا لازمی ہوتا ہے۔ بی جے پی کی اعلیٰ لیڈرشپ میں فی الوقت وزیر اعظم مودی اور صدر امت شاہ آرایس ایس کے کارکنان رہے ہیں۔ آر ایس ایس کی تقریباً 100 سے زائد شاخیں ہیں، جوالگ الگ میدانوں میں سرگرم ہیں۔ یونٹس کی تعداد 84877 سے زائد بتائی جاتی ہے جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات پر ہندوؤں کے انتہاپسندانہ نظریات کو پھیلانے میں مصروف ہیں۔

20 سے 35 سال کی عمر کے تقریباً 1 لاکھ نوجوانوں نے صرف ایک سال میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس ہندوستان کے 88 فیصد بلاک میں اپنی یونٹس کے ذریعے رسائی حاصل کر چکا ہے۔ قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال میں آر ایس ایس نے 113421 تربیت یافتہ سوئم سیوک سنگھ (ہندو انتہا پسند) تیار کیے ہیں۔ ہندوستان سے باہر ان کی کل 39 ممالک میں یونٹس (شاکھائیں) ہیں۔ یہ یونٹس ہندو سوئم سیوک سنگھ کے نام سے کام رہی ہیں۔

ہندوستان سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ یونٹس نیپال میں ہیں، اس کے بعد امریکہ میں اس یونٹس کی تعداد 146 ہے، برطانیہ میں 84 یونٹس ہیں۔ آر ایس ایس کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط حالت میں ہے۔ کینیا کے یونٹس کا دائرہ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ،یوگنڈا، ماریشس اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان ممالک کے متعدل مزاج ہندوؤں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے آر ایس ایس بیشتر مسلم ممالک میں بھی کام کررہی ہے لیکن وہاں زیادہ تر گھروں میں محدود ہوکر کام کیا جاتا ہے لیکن سب سے زیادہ فنڈنگ مشرق وسطیٰ کے مسلم اکثریتی ممالک سے ہوتی ہے۔

خاص طور پر بابری مسجد کو شہید کیے جانے کے بعد سب سے زیادہ فنڈ مشرق وسطیٰ کے مسلم اکثریتی ممالک کی جانب سے ہی آر ایس ایس کو ملے تھا۔ آر ایس ایس کے ہندو شدت پسندانہ نظریات کا اندازہ اس ایک واقعے سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ گجرات فسادات کے بعد 2002 ء میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اس وقت کے سربراہ کے سدرشن جی سے ملنے ان کے صدر دفتر ناگپور چلا گیا۔ جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانشور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے آرایس ایس کو قائل کرنا تھا اور ان کے سامنے مسلمانوں کے نظریہ کو رکھنا تھا۔

اس وفد کے ایک رکن کے بقول ”’جب ہم نے سدرشن جی سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا رسہ کشی کے ماحول کو ختم کرکے دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟‘ اس کے جواب میں کے سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا کہ ’ضرور آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط ہے۔ آپ لوگ (مسلمان) کہتے ہو کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ ایسا کہنا چھوڑ دیجئے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے۔‘“

مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار نے ہند و شدت پسند تنظیم کے ایجنڈے کے مطابق مسلم اکثریتی علاقے کو اقلیت میں بدلنے کے لئے آئینی حیثیت کو ختم کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی جھتوں کی آڑ میں آر ایس ایس کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو وادی میں بھیجا گیا ہے جو اس سے قبل بھی کشمیریوں، مسلمانوں کے قتل، خواتین کے عصمتوں کے لٹنے جیسے کئی واقعات میں ملوث رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور خود اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشان دہی کرچکی ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کے تناظر میں بھارتی سازشوں میں آر ایس ایس کرفیو کے دوران تفتیش اور شک کے نام پر نہتے کشمیریوں پر ٹارچر کررہی ہے۔ کشمیریوں پر تشدد کے حوالے سے مقبوضہ کشمیر میں کام کرنے والی دو انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت کا ہندو شدت پسند ی کا چہرہ ’ٹارچر‘ نامی رپورٹ میں آشکار کیا تھا۔ اب بھی یہی خدشات ہیں کہ آر ایس ایس مقبوضہ کشمیر میں ایسے واقعات میں ملوث ہوسکتی ہے جس کا الزام پاکستان پر لگا کر بھارت، سلامتی کونسل کے مشاورتی اجلاس میں ہونے والی شکست کو چھپانے کی کوشش کرے اور عالمی برداری کو گمراہ کرے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی اخلاقی حمایت کے بجائے پر تشدد واقعات کروا رہا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان بھارت کی ہندو شدت پسند تنظیموں و جماعتوں کے حوالے سے عالمی برداری کو آگاہ کرے اور آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم اور اس کی ذیلی جماعتوں و تنظیموں کے مکروہ عزائم کو دنیا کے سامنے لائے۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں بشمول بھارتی جنتا پارٹی کے ”زغفرانی دہشت گردی“ کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے تاکہ بھارت عالمی برداری کی توجہ مذہبی اقلیتوں اور مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت پر ہونے والے مظالم سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکے، جب تک آر ایس ایس، بی جے پی جیسی ہندو شدت پسند جماعتوں و تنظیم کے خلاف سلامتی کونسل و اقوام متحدہ متحرک نہیں ہوگی خطے میں کبھی امن نہیں آسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).