ملائشیا: سکول کی لڑکیاں بد روحوں کے چنگل میں یا ذہنی دباؤ کا شکار
اس دن جمعہ تھا اور سہ پہر کا وقت، جب شمال مشرقی ملائشیا کے ایک سکول میں اچانک شور شرابا شروع ہو گیا اور افراتفری پھیل گئی۔ اس بھگدڑ کا مرکزی کردار ایک سترہ سالہ لڑکی سیتی نورالنساء تھی۔
سیتی بتاتی ہیں کہ اصل میں ہوا کیا تھا:
’ اسمبلی کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ اس وقت میں اپنے ڈیسک پر بیٹھی تھی اور مجھے نیند آ رہی تھی۔ اچانک مجھے لگا کہ کسی نے بہت زور سے میرے کاندھے پر ہاتھ مارا۔
میں دیکھنے کے لیے پیچھے مڑی کہ کس نے مجھے اتنے زور سے مارا ہے۔ میں جیسے ہی پیچھے مڑی تو پورا کمرہ تاریکی میں ڈوب گیا میں خوفزہ ہو گئی۔ میری کمر میں بہت درد ہونے لگا، شدید چکر آنے لگے اور میں زمین پر گر گئی۔
اس سے پہلے کہ مجھے کچھ پتہ چلتا، میں ’کسی دوسری دنیا‘ میں پہنچ چکی تھی جہاں ہر طرف خون ہی خون اور وحشت تھی۔ میں نے جو سب سے زیادہ ڈراؤنی چیز دیکھی وہ شیطان کا چہرہ تھا۔
وہ مسلسل مجھے ڈرا رہا تھا اور میرے لیے اس سے فرار ممکن نہیں تھا۔ میں نے چیخنے کے لیے اپنا منہ کھولا لیکن میری آواز بند ہو چکی تھی۔
اور پھر میں بے ہوش ہو گئی۔‘
سیتی کی اس حالت کی وجہ سے پورے سکول میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور چند ہی منٹ میں دوسری کلاسوں کی لڑکیوں نے بھی چیخنا چلانا شروع کر دیا اور ان کے رونے کی آوازیں تمام کمروں اور ہال میں گونجنے لگیں۔
ایک اور لڑکی کو بھی کوئی ’تاریک سایہ‘ دکھائی دیا اور وہ بھی بےہوش ہو گئی۔
دیکھتے ہی دیکھتے کیترہ نیشنل سیکنڈری سکول کی لڑکیوں اور سٹاف نے خود کو کمروں میں بند کر لیا اور سکول انتظامیہ نے روحانی علاج کے ماہر لوگوں کو بلا لیا تا کہ وہ خصوصی نماز اور دعائیں کر کے سکول کو شیطانی سائے سے نجات دلائیں۔
اور جب دن کا اختتام ہوا تو بتایا گیا کہ اس وقت تک 39 لڑکیوں کو شدید اعصابی تناؤ کی وجہ سے ہسٹیریا کے دورے پڑ چکے تھے۔
ہسٹیریا کیا ہوتا ہے؟
اس کیفیت کو اجتماعی ہسٹیریا یا اجتماعی خلجان کی کیفیت کہتے ہیں جو تیزی سے پورے گروہ میں پھیل جاتی ہے، بغیر کسی وجہ کے لوگوں کی سانس پھول جاتی ہے اور وہ بےچین ہو جاتے ہیں۔
معروف امریکی میڈیکل سو شیالوجسٹ رابرٹ بارتھلمیو کہتے ہیں کہ یہ کیفیت دراصل شدید دباؤ کے اجتماعی رد عمل کے طور پر ہوتی ہے جس میں گروہ میں شامل اکثر لوگوں کا اعصابی نظام بہت تیزی سے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔
اس قسم کا اجتماعی ہِسٹیریا کیوں ہوتا ہے، اسے اکثر لوگ نہیں سمجھتے اور نہ ہی ’ماس ہسٹیریا‘ کا اندراج ذہنی امراض کی فہرست میں کیا جاتا ہے۔ لیکن، کنگز کالج ہاسپٹل لندن سے منسلک ڈاکٹر سائمن ویزلی جیسے ذہنی امراض کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ایک ’اجتماعی رد عمل یا رویہ‘ ہوتا ہے۔
اس کیفیت سے جو لوگ گزر رہے ہوتے ہیں ان کی علامات حقیقی ہوتی ہیں، یعنی واقعی ان کا دل ڈوب رہا ہوتا ہے، سر میں درد ہوتا ہے، سانس پھول جاتی ہے، جی متلانے لگتا ہے، حتیٰ کہ کچھ لوگوں کو باقاعدہ دورہ پڑ جاتا ہے۔
ڈاکٹر سائمن ویزلی بتاتے ہیں کہ اس انفرادی کیفیت کے کسی پورے اجتماع یا گروہ میں پھیل جانے میں جن چیزوں کا عمل دخل ہوتا ہے وہ اصل میں نفسیاتی اور معاشرتی عوامل ہوتے ہیں۔
اس قسم کے واقعات کے شواہد ہمیں پوری دنیا سے ملتے ہیں اور کئی ممالک میں قرون وسطیٰ کی کتابوں وغیرہ میں اس کا ذکر بھی ملتا ہے۔ جہاں تک ملائشیا کا تعلق ہے تو یہاں سنہ 1960 کے عشرے میں فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں میں اجتماعی ہسٹیریا خاصا عام تھا۔ آج کل یہ ملائشیا میں سکولوں اور ہاسٹل میں رہنے والے بچوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔
رابرٹ بارتھلمیو کئی برس سے ملائیشا میں اس اجتماعی ذہنی کیفیت کا مطالعہ کر رہے ہیں اور وہ ملائشیا کو ’دنیا میں اجتماعی ہسٹیریا کا سب سے بڑا مرکز‘ قرار دیتے ہیں۔
ان کے بقول ’ملائشیا ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں مذہب اور روحانیت لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہے، خاص طور وہ لوگ جو دیہات اور زیادہ قدامت پسند گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں، وہ لوک کہانیوں اور مافوق الفطرت عوامل کی طاقت میں یقین رکھتے ہیں۔‘
لیکن، اس کے باجود ملائشیا میں یہ ایک ایسا موضوع ہے جسے حساس سمجھا جاتا ہے۔
اس قسم کے واقعات، باقی برادریوں کی نسبت، ملے برادری کی لڑکیوں میں زیادہ عام ہیں۔ یاد رہے کہ ملے برادری ملائشیا کی ایک اقلیتی برادری ہے۔
مسٹر بارتھلمیو کہتے ہیں کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ چیز خواتین میں بہت زیادہ ہوتی ہے، اور (ذہنی اور طبعی امراض کے ) علمی مواد میں سب کا اس بات پر اتفاق ہے۔
ملے کمیونٹی کا پڈانگ لیمبک نامی گاؤں کلینٹن صوبے کے دارالحکومت کوٹا بھرو کے نواح میں ایک سرسبز مقام پر واقع ہے۔
یہ ایک ایسا چھوٹا سا گاؤں ہے جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو جانتا ہے، یعنی ایسا دیہات جو ملائشیا کے اکثر لوگوں کو ان کے ماضی کے پرسکون ملائشیا کی یاد دلاتا ہے۔ یہاں کچھ ریستوران ہیں، بیوٹی پارلر ہیں، ایک مسجد ہے اور ایک اچھا سکول بھی۔
سیتی نورالنسا اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک عام سے گھر میں رہتی ہیں جسے آپ اس کی سرخ چھت اور سبز دیواروں سے آسانی سے پہچان سکتے ہیں۔ باہر ایک پرانی موٹر سائیکل بھی کھڑی ہے جو سیتی اور ان کی بہت اچھی سہیلی، رشیدہ روزلان کی مشترکہ سواری ہے۔
’جس دن مجھے ’بدروحوں‘ نے اپنی لپیٹ میں لیا تھا، اس صبح بھی ہم دونوں اسی موٹر سائیکل پر سکول گئے تھے۔‘
ہر نوجوان لڑکی کی طرح سیتی پر بھی ذہنی دباؤ کے اثرات ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں سب سے زیادہ دباؤ کا سامنا سنہ 2018 میں تھا جب وہ سکول کے آخری سال میں تھیں اور سالانہ امتحان ہونے والے تھے۔
’میں کئی ہفتوں سے امتحانوں کی تیاری کر رہی تھی، تمام نوٹس یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن کچھ گڑ بڑ تھی، کیونکہ مجھے لگ رہا تھا کہ کوئی بھی چیز میرے دماغ میں بیٹھ نہیں رہی۔‘
اور پھر جب جولائی میں یہ واقعہ پیش آیا تو اس کے بعد سیتی نہ سو پا رہی تھیں اور نہ ہی ٹھیک سے کھا رہی تھیں۔ ان کی طبیعت بحال ہونے میں ایک مہینہ لگ گیا اور اس کے بعد بھی جب انھوں نے سکول جانا شروع کیا تو وہ بمشکل نارمل محسوس کر رہی تھیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ہسٹیریا کا اجتماعی دورہ اس وقت پڑتا ہے جب گروپ میں کسی ایک شحض کو ایسا محسوس ہونا شروع ہوتا ہے۔ اس پہلے شخص کو ’انڈیکس کیس‘ کہا جاتا ہے۔
اس کہانی میں ایڈیکس کیس سیتی تھیں۔
رابرٹ بارتھلمیو بتاتے ہیں کہ ہسٹیریا ’ایک رات‘ میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ پہلے ایک بچے کو ہوتا ہے اور پھر بڑی تیزی کے ساتھ دوسروں تک پھیل جاتا ہے کیونکہ ان تمام بچوں کے دماغ میں ایک پریشر کُکر کی طرح دباؤ جمع ہوتا ہے۔
جب تمام بچے شدید ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں تو پھر پورے گروپ کو ہسٹیریا ہونے کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہیے ہوتا کہ ایک کلاس فیلو ذہنی دباؤ سے بے ہوش ہو جائے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیفیت دوسرے بچے پر بھی طاری ہو جائے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).