جو بھرم بچا تھا، نہیں رہا


امام اختلاف حضرت حسن نثار جو بات ایک زمانے سے کہتے چلے آرہے ہیں، اس حکومت کے نفس ناطقہ فواد چوہدری کی سمجھ میں اب آئی ہے کہ یہ امتِ مسلمہ کیا ہوتی ہے؟ یہی بات کچھ دن قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب نے بھی کہی تھی لیکن اب ان کا مؤقف مختلف ہے اور انھوں نے فرمایاہے کہ متحدہ عرب امارات پاکستان کا دوست ہے۔ اس ملک کی طرف سے مودی کو ایوارڈ دینے کا معاملہ ان کے اپنے تعلقات کا معاملہ ہے۔ اس بیان پر ناز بٹ کا ایک شعر یاد آگیا ؂

نہ شکایتیں نہ گلہ کوئی، نہ وہ بات بات پہ روٹھنا
جو تھا ملا خاک میں، جو بھرم بچا تھا، نہیں رہا

میں ادب کا معمولی طالب علم ہوں لیکن چوں کہ گوشہ نشینی میں رہتا ہوں، اس لیے بعضے گلشن ِ ادب میں کھلنے والے تازہ پھولوں کی خبر دیر سے ہوتی ہے یاکبھی نہیں بھی ہوتی۔ ناز بٹ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ان سے میری ملاقات برادرم محترم پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کی معرفت ہوئی جو گزشتہ ایک برس تک پاکستان میں رہے اور پاکستانی ادب و ثقافت کے میدان میں ہل چل مچانے کے بعد اپنے وطن یعنی ترکی سدھار گئے۔ ناز نوجوان شاعرہ ہیں جنھیں بزرگ شعرا اور نقاد اپنی آسانی کے لیے ایک ایسی شاعرہ قرار دے کر اطمینا ن محسوس کرتے ہیں جو بقول شخصے فہمیدہ ریاض کی طرح آئینے کے سامنے کھڑی نسوانی حسن کے سمندر میں غوطہ زن ہیں یا نوخیزی کے تجربات میں ہی محو حیرت ہیں۔

گو میری نظر میں اس طرح کے تبصرے مرحومہ فہمیدہ کے فن کے ساتھ بھی زیادتی تھے لیکن ناز کا معاملہ تو بالکل مختلف ہے۔ میری نظر میں ان کی شاعری ایک ایسی آنکھ سے مشابہ ہے جو عرفان ذات کی بھول بھلیوں سے روشنی پاکر اپنے عہد کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ پاکستان اور اہل کشمیر ان دنوں جس صورت حال سے دوچار ہیں، اس کا اظہار انھوں نے اس شعر میں نہایت فن کاری کے ساتھ کیا ہے۔ گویا وہ اپنے عہد سے مخاطب ہیں اور مشورہ دے رہی ہیں کہ ایک نازک ادا محبوب کی طرح بات بات پر روٹھنے کا زمانہ گیا کہ آپ کی محبت کا بھرم ٹوٹے زمانہ ہوا، لہٰذا شکوہ شکایت کیسی؟

مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر اہلِ عرب کے مجموعی رویے اور خصوصی طورپر متحدہ عرب امارات کے طرز عمل پر ہمارے لوگ بہت دکھی ہیں۔ سوشل میڈیا کے نقار خانے میں تو ہر کس وناکس جو منہ میں آئے کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال ہی رہا ہے لیکن رائے عامہ کے مرکزی دھارے میں بھی غم و غصے کی کیفیت بڑی شدید ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعدادنے ردعمل کی نفسیات کا شکار ہوکر یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ کیوں نہ ہم بھی اپنے ان نام نہاد دوستوں پر تین حرف بھیج کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کریں، یوں ان دوستوں کو بھی چھٹی کادودھ یاد آجائے گا اور ہم پاکستانیوں کو قبلۂ اوّل کی زیارت کے مواقع میسر آئیں گے۔

ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارا کون سابراہ راست جھگڑا یا تصادم ہے، اس لیے ہم عربوں کی خاطر یہ دشمنی کیوں مول لیں؟ دلیل بے وزن نہیں۔ عین ممکن ہے کہ ہم اسرائیل کی طرف سلسلۂ جنبانی کریں تو اس کے نتیجے میں ہم پاکستانیوں کے دل کی ایک پرانی مراد بر آئے اور ہمارے لوگوں کو قبلۂ اوّل کی زیادت کاموقع میسر آجائے لیکن کیا ہماری اس پیش قدمی سے کسی کوچھٹی کادودھ بھی یاد آسکے گا؟ مجھے اس میں شک ہے۔ میرا نہیں خیال کہ بھارت اور خاص طور پر کشمیر میں مسلمانوں کے حقوق غصب کرنے والے بھارت کی کج ادائیوں کوٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے والے لوگوں کو اس سے کوئی فرق پڑے گا۔

اسرائیل کے ساتھ اگر ہمارے کسی قسم کے تعلقات استوار ہوبھی جاتے ہیں تو وہ کیوں کسی کے لیے پریشانی کا باعث نہ ہوں گے؟ میری رائے میں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مفروضہ تعلقات کسی قسم اسٹریٹیجک گہرائی سے محرو م ہوں گے اور ہمیشہ محروم رہیں گے۔ آسانی کے لیے یوں سمجھ لیجیے کہ اسرائیل بھارت تعلقات کو جو اسٹریٹیجک گہرائی حاصل ہے، اس کی بنیاد ایک خاص نظریاتی ہم آہنگی پراستوار ہوئی ہے، پاکستان اس معاملے میں جس حد تک بھی آگے بڑھ کر پیش قدمی کرے، دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی معمولی سی بنیاد بھی قائم نہ ہوسکے گی۔ نازبٹ کا ایک اور شعر یاد آگیا ؂

ناز جتنے بھی میں جتن کرلوں
اس کے جانے کا پھر بھی امکان ہے

اس صورت حال کو پاک بھارت تعلقات کے تجربے سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران میں بھارت کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے پاکستان نے کتنے جتن نہیں کیے؟ بعض اوقات تو ایسا بھی محسوس ہوا کہ اس معاملے میں ہم اپنی طے شدہ پالیسی سے انحراف اور اپنے مفادات کو پس پشت ڈالنے کے بھی مرتکب ہورہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھارت ٹس سے مس نہیں ہوا۔ مسلمانوں کے ساتھ اسرائیل کے گزشتہ پون صدی کے تجربات بھی یہی کچھ واضح ہوتا ہے۔

پاکستان اور اہل کشمیر کے بارے میں اسرائیلی انداز فکر کی انتہا یہ ہے کہ بعض اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارت اس وقت جو حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہے، اس کا مصنف بھی اسرائیل ہی ہے۔ پاکستان اگر اس کے باوجود اسرائیل کی طرف سلسلۂ جنبانی کرتا ہے تو کیا ضمانت ہے کہ اسرائیل اپنی برس ہا برس کی طے شدہ حکمت عملی کو اور سوچے مسجھے مفادات کو ترک کر کے پاکستان اور اہل کشمیر کے ساتھ الفت کے تقاضے نباہنے پر آمادہ ہوجائے؟

لہٰذا جو لوگ ستم ہائے زمانہ کے ردعمل میں پاکستا ن کو اپنے راستے سے ہٹا کرہنس کی چال چلنے کے مشورے دے رہے ہیں، وہ دراصل اسے کوے کی چال چلنے کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ انھیں میرا انھیں مشورہ ہے کہ وہ شدت غم میں بے قابو ہونے کے بجائے چندے صبر سے کام لیں اور اس عرصے میں ناز بٹ کے تازہ مجموعہ کلام وارفتگی میں دل لگائیں جن کا کہنا ہے ؂

عجب سرشت ودیعت ہوئی ہے مجھے ناز
ستم گروں کے لیے خود ستم بناتی ہوں
مجھے یقین ہے کہ ستم گروں کے لیے ستم بنانے کی راہ از خود ہموار ہوجائے گی، انشا اللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).