کیا شیعہ ایک اقلیت ہیں؟


چرن جیت سنگھ خاموش طبعیت کے آدمی تھے۔ زیادہ نہیں بولتے تھے۔ پر جو کچھ سکھ برادری پر پاکستان میں بیت رہا تھا اس کے ذکر پر ان کی آنکھوں کے گوشے نم سے ہو جاتے۔ کچھ دیر وہ انہی نم مگر چپ آنکھوں سے ہمیں دیکھتے پھر اپنی انگلی سے اپنی ہتھیلی پر ایک دکھائی نہ دینے والا زخم کریدنے میں لگ جاتے۔ اس ملاقات کو چند دن ہی گزرے تھے کہ ان کے حساس دل میں چند گرام سیسہ اتار کر انہیں خاموش کر دیا گیا۔

سرب دیال بھی اسی ملاقات میں موجود تھے۔ ہندوؤں کی حالت زار پر ان کا رواں رواں احتجاج کرتا تھا۔ اس کے بعد رنکل کا قصہ ہوا کہ انوشا میگھوار کا، مجھے ہر دفعہ ان کا تمتماتا چہرہ اور اپنی شرمندگی یاد آتی اور میں زمین میں تھوڑا اور گڑ جاتا۔

فرانسس ٹوٹے لہجے میں بتاتا تھا کہ کیسے شہر کے حاکم اعلی نے ان کی عبادت گاہ پر تالے ڈلوا دیے تھے۔ میں سنتا تھا، کبھی ظفر کو دیکھتا تھا تو کبھی حسن معراج کا چہرہ تکتا تھا پھر بے بسی سے اپنی نظریں جھکا لیتا تھا۔ اتنی ہمت تھی نہیں کہ چرن جیت، سرب دیال یا فرانسس کی نگاہ سے نگاہ ملا سکتا۔

ایسی اور بھی کئی ملاقاتیں ہیں۔ ایک دن کچھ احمدی دوست ملنے چلے آئے۔ خوش مزاج، خوش لباس اور خوش مذاق۔ عقیدے کا ذکر نہ انہوں نے چھیڑا نہ یہ تذکرہ میری زبان پر آیا۔ ہنستے ہنستے کہیں والدین کا ذکر چھڑا تو ایک دوست کے چہرے پر کتنی ہی لکیریں کھنچ گئیں۔ معلوم ہوا کہ کچھ سال گزرے، ان کے والد اسی عقیدے کی بھینٹ چڑھا دیے گئے تھے۔ مارنے والوں نے یہی وجہ کافی جانی کہ ان کا تعلق اس جماعت سے تھا جس کے ایمان کا فیصلہ خداوندان ارض نے کیا تھا۔ دوست خود بھی قانون کے شعبے سے تھے پر اتنے لاچار کہ قاتل اب بھی آزاد گھومتے تھے اور ان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ان کا گریبان تو دور، دامن ہی پکڑ کر فریاد کر سکیں۔

کوئٹہ کے ہزارہ شیعہ اب قتل ہوتے ہیں تو میں کچھ نہیں لکھتا۔ لکھ لینے سے کیا ہوتا ہے۔ کچھ ہو سکتا تو وہ سارے نوحے جو گزرے سالوں میں لکھے، آج بے دم نہ پڑے ہوتے۔

مجھے اب بھی اس آغا خانی دوست کا چہرہ یاد ہے جس کے فرقے کے بارے میں لاعلم ہوتے ہوئے ایک محفل میں میرے ایک ثقہ ساتھی نے تمام اسماعیلی کمیونٹی کو کافر قرار دے دیا تھا۔ دوست کے چہرے سے خون کھنچ جانے پر جو سفیدی در آئی تھی اس کے صدقے میں پھر کبھی اس ثقہ شخص سے نہیں ملا۔ اور کر ہی کیا سکتا تھا۔

ہنزہ اور پسو کے ان نوجوانوں کے قصے کیا سناؤں آپ کو، جنہیں میدانوں سے گئے فوج، پولیس اور انٹیلی جنس کے شیر جوان روز رسوا کرتے ہیں۔ سندھ کے اس پرانے دوست کی کہانی کیا بتاؤں جس کے گاؤں سے اس کے بھائی کو کچھ وردی والے بٹ مارتے اس لیے لے گئے تھے کہ اس کے منہ میں زبان تھی اور اسے بولنا بھی آتا تھا۔ وزیرستان سے لے کر گوادر تک ان سب بہنوں، ماؤں اور بیٹیوں کی داستان کیسے بیان کروں جو ہاتھوں میں اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھا کر ہر کچھ دن بعد ایک پریس کلب کے صفا سے دوسرے پریس کلب کے مروہ تک سعی کرتی ہیں پر رحم کا کوئی چشمہ اس ریگستان میں نہیں پھوٹتا۔

ابھی کچھ دن ہوئے کہ سوشل میڈیا پر اس ملک میں اہل تشیع پر گزرنے والی ایک کے بعد ایک قیامت کا ذکر کرتی ایک بچی اپنا غصہ، اپنا غم نکالتی کہیں یہ کہہ بیٹھی کہ شیعہ کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے جیسا کسی اقلیت کے ساتھ۔ ۔ یہ کہنا تھا کہ ناصحانہ امت نے بات کی غایت جانے بغیر اسے اس بات پر مطعون کرنا شروع کر دیا کہ اس نے اہل تشیع کو اقلیت کیوں کہا۔ سمجھانے والوں میں اکثریت اسی فرقے سے تعلق رکھتی تھی جو کہ اس ملک میں ہر لحاظ سے بالا دست رہا ہے۔ انہیں کون بتائے کہ جس تن لاگے، اس تن جانے اور نہ جانیں لوگ۔ من کی پیڑا جانے جس کے جی کو لاگا روگ

بات کی گرہ کھولی تو سوچنے کا ایک اور زاویہ ہاتھ آیا۔ اقلیت ہوتی کیا ہے؟ شماریاتی لحاظ سے تو ہر وہ گروہ جس کی تعداد کم ہو، اقلیت کہلاتا ہے پر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جغرافیائی وحدت میں ایک گروہ اکثریت رکھے تو باقی سب اقلیت ہوں گے۔ کیا یہ تمیز عقیدے کی بنیاد پر ہو گی، سیاسی بنیاد پر ہو گی، نسلی بنیاد پر ہو گی یا لسانی بنیاد پر ہو گی۔

ہمارے ملک میں اقلیت سے مراد صرف غیر مسلم لیے جاتے ہیں۔ 1974 کے بعد سے سابقہ احمدی مسلک کو بھی بزور قانون اسی اقلیتی دائرے میں دھکیل کر سرکاری طور پر احمدی مذہب کر دیا گیا۔ اس کے بعد ہم جب بھی اکثریتی جبر یا اقلیتی حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہم اس تقسیم سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتے۔ ہمارے نزدیک یہ عقائد کی نہیں بلکہ وسیع تر معانی میں مذہبی تقسیم ہے جس میں ایک طرف مسلم اکثریت ہے اور دوسری جانب غیر مسلم اقلیت۔

سماجی لحاظ سے یہ تعریف نہ صرف خام ہے بلکہ اس کی وجہ سے ہم اپنے ملک میں موجود بنیادی ناہمواری، نا انصافی اور عدم مساوات کو نہ صرف یہ کہ سمجھ نہیں پاتے بلکہ اس کے حل کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔

سماجی اور عمرانی تعریف کی رو سے ہر وہ شخص اقلیت میں شمار ہو گا جو کہ معاشرے میں اپنے بنیادی اختیار اور بنیادی حقوق یا تو کھو چکا ہو یا ان کے حصول کے لیے مطلوب قوت سے محروم ہو۔ اسی طرح اقلیت کا دائرہ مذہب سے آگے بڑھ کر لسانی، قبائلی، گروہی، فرقہ جاتی یا نسلی بنیاد پر بھی کھینچا جا سکتا ہے

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad