آئیے، ایک قوم کے طور پر خود کو پہچانیں


آپ نے ہر محلے میں ایک بھائی، چاچا یا ماما ایسا دیکھا ہو گا جو اپنے گھر کے کاموں کے علاوہ پورے محلے کے گھروں کے کام کرتا ہو گا۔ محلے کے کسی گھر میں کوئی کام ہو، کوئی خوشی غمی ہو یا کوئی بیمار ہو, فوراً ان صاحب کو بلایا جاتا ہے اور صاحب خانہ سب کام اس کے سپرد کر کے خود سکون سے ٹی وی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

وہ صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ تمام محلہ انہیں پیار کرتا ہے اور پورے محلے کے کاموں کی ذمہ داری ان کے سر پر ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اہل محلہ کو ان کی شکل میں ایک ”چھوٹا“ ملا ہوتا ہے جو بھاگ بھاگ کے ہر کام خوشی سے کرتا ہے اور معاوضہ بھی نہیں لیتا۔ ان صاحب کو اپنی اوقات کا پتا تب چلتا ہے جب یہ خود کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں یا بیمار پڑتے ہیں۔ وہ محلے والے جو اپنے کام کے وقت ان سے پیار جتاتے نہیں تھکتے تھے اب اس کی ضرورت کے وقت کنی کترا رہے ہوتے ہیں۔ ضرورت یا مصیبت تھوڑی زیادہ بڑھی اور کہیں ان صاحب نے محلہ والوں کو اپنی خدمات یاد کروانے کی کوشش کی تو فوراً جواب ملتا ہے کہ مفت میں تھوڑی کام کروایا تھا۔

اس کے برعکس تقریباً ہر محلے ہی میں ایک ایسا کردار بھی ہوتا ہے جو اپنی اکڑ میں رہتا ہے۔ غمی اور خوشی میں کسی کے اصرار پر جائے بھی تو بھی اپنی شناخت اور اپنا رعب قائم رکھتا ہے۔ بلاوجہ کسی سے بات اور بحث نہیں کرتا۔ محلے والے اس کے دبدبے سے ڈرتے ہیں اور اس پر کسی مصیبت کے وقت تمام محلہ اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

آپ کو پتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ پہلے صاحب کو خود سے پیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو اپنی اہمیت اور اپنی منزلت کا اندازہ نہیں۔ وہ لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کا ایک سستا یا مفت ذریعہ ہیں۔ باوجود یہ کہ وہ ہر ایک کے کام آتے ہیں لوگ ان کی تعظیم نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے کبھی اپنی عزت کروائی ہی نہیں۔

دوسری طرف دوسرے صاحب خود سے پیار کرتے ہیں، خود کی عزت کرتے ہیں۔ انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ ان کا مرتبہ کیا ہے اور ان کے وقت کی قیمت کیا ہے۔ ان کی اسی خود شناسی نے پورے محلے کو ان کی عزت کرنے پر مجبور کر دیا۔

قوموں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ قومیں جو خود سے پیار کرتی ہیں۔ خود کی عزت کرتی ہیں اور خود کی اہمیت سے آگاہ ہوتی ہیں وہی اقوام عالم میں باعزت اورباوقار سمجھی جاتی ہیں۔ جبکہ وہ قومیں جو ہر معاملے میں پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی مانند کود پڑتی ہی، اپنے قد سے بلند دعوے کرتی ہیں۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے دوسرں کے عیب تلاش کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ اپنی عزت، خودداری اور انا کو چند ڈالرز کے عوض کبھی امریکہ، کبھی سعودیہ، کبھی چین، کبھی آئی ایم ایف یا کبھی ورلڈ بنک کے ہاتھوں بیچنے پر ہمہ وقت تیار رہتی ہیں۔ کیا اقوام عالم میں کسی باعزت مقام کی حقدار ہیں؟

پوری دنیا میں شاید ہم واحد قوم ہیں جس نے اس ملک میں کبھی کشمیر کے لئے احتجاج کیا تو کبھی فلسطین کے لئے، کبھی برما کے مسلمانوں کے لئے اپنی املاک کو جلایا تو کبھی شام کے مسلمانوں کے لئے۔ کبھی عراق کے مظلوموں کے حق میں ہڑتالیں کروائیں تو کبھی یمن کے مسلمانوں کے لئے۔

ہم نے دوسروں کے لئے جنگیں لڑیں۔ امریکہ کی لڑائی افغانستان میں دو بار لڑی۔ کشمیریوں کے لئے ہندوستان سے جنگ لڑی، سعودیہ کے لئے خوثیوں سے لڑ رہے ہیں۔ لیکن جب ہمیں ضرورت پڑی تو کون آیا ہماری مدد کو؟

دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کوئی ایک جلسہ، کوئی ایک ہڑتال یا کوئی ایک احتجاج ہم نے اپنے لئے کیا ہو؟ اس نظام کو بدلنے کے لئے کیا ہو، اپنے حقوق کے لئے کیا ہو؟ نظام بھی چھوڑیں کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ کشمیر، برما اور یمن میں مسلمانوں کے قتل پر بلکنے والے مسلمان اپنے ہی ملک میں ہونے والے ہزارہ، احمدی، عیسائی اور ہندوؤں کے قتل عام پر خاموش رہے؟ کیا ایسی دوغلی قوم دنیا کی اقوام میں قابل عزت ہو سکتی ہے؟

اگر اپنی عزت کروانی ہے تو خود سے پیار کرنا سیکھیے۔ خود کی عزت کیجئے۔ اپنے ہم وطنوں کی عزت کرنا سیکھیے۔ دوسروں کے سامنے اپنے ہموطنوں کو لعن طعن کرنے سے آپ خود کو قد گھٹائیں گے۔ اپنے معاملات آپس میں طے کیجئے۔ اپنے وسائل میں گزارہ کرنا سیکھئیے۔ دنیا آپ کے بغیر اپنے معاملات خود حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے سو ہر پھڈے میں ٹانگ اڑانے سے باز رہیے۔ خود کو دریافت کیجئے۔ خود سے پیار کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).