ماں 


وہ کراچی شہر میں تھا اور ادھر سمندر کے کنارے ٹہل رہا تھا، تازہ ہوا کے جھونکے اس کے بالوں سے کھیل رہے تھے اور وہ عزہ کے خیالوں کے حصار میں گم، گزشتہ چند ماہ سے وہ اس کی زندگی کو ہر ترتیب کو ُآلٹ دینے والی لڑکی تھی، اگرچہ اس تعلق کو شادی میں تبدیل کرنے کے فیصلے میں کوئی رکاوٹ تو نہ تھی لیکن زیشو اپنی امی سے پوچھے بغیر یہ فیصلہ نہ کر سکتا تھا، جبکہ عزہ اس معاملہ میں اپنی رضامندی اور والدین کا ذمہ لے چکی تھی، زیشو اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا

اس کا باپ اس کے بچپن میں ایک حادثے میں فوت ہو گیا تھا۔

اس کی پرورش اور تربیت اس کی ماں نے اپنی پہاڑ سی جوانی داؤ پہ لگا کے جاری رکھی، اپنی شادی کے معاملے میں وہ اپنی ماں کو اختیار دے چکا تھا، اور شاید اس کی ماں اس کے لیے ایک لڑکی دیکھ بھی چکی تھی، عزہ کا تصور، سمندر کا کنارہ ماں سے کیا وعدہ اور ماں کی ناراضگی کا خوف زیشو کی ساری تازگی کافور ہوگی اسے یہ خیال ہلکان کرنے لگا کہ کہ وہ اپنی پسند کو نہ پا سکے گا۔

ان تصورات کی بھنور میں وہ نرم ریت پہ پھسلتا رہا لڑکھڑاتا اور اپنے خیالات کے بھنور میں غوطے کھاتا خاصا آگے بڑھ گیا ورکنگ ڈے کی وجہ سے لوگ بہت کم تھے جس کی وجہ سے ایک عجب سا سکوت ماحول پہ طاری تھا۔

اس سکوت میں فون کی گھنٹی نے اسے چونکا دیا عزہ کا فون تھا نمبر دیکھتے ہی اس کے اضطراب میں اضافہ ہو گیا اس نے کچھ رعشہ زدہ سی کیفیت سے کال yes کی لائن پہ عزہ اس کی خیریت پوچھ رہی تھی روایتی علیک سلیک کے بعد اس نے اصل موضوع کی طرف توجہ دلائی۔

یار اب ہم یونیورسٹی سے فارغ ہو جائیں گے آگے زندگی کا کیا رخ ہو گا اندازہ نہیں۔ آپ نے مجھے نہیں بتایا کہ آپ کب اپنی امی کو ہمارے ہاں بھیج رہے ہیں۔ زیشو اس وقت اپنی ذہنی کیفیت کے لحاظ سے نارمل نہیں تھا۔ اس نے مصرورفیت کے بہانے وقت مانگا اور سر پکڑ کر ساحل پہ ڈھیر ہوگیا۔

ساحل کی ریت کے ذرات اس کے بالوں اور چہرے پر اُڑنے لگے ہلکی سی ہوا سے اُڑتے یہ باریک ذرات اسے اپنی ہی طرح کے ستائے ہوئے مایوس لگے۔

زیشو جانتا تھا کہ اب وقت کم ہے امی نے بھی فورا ہی فیصلہ کر لینا ہے اس کے سامنے دو زندگیاں اور ان سے وابستہ ایک زندگی اٹکی ہوئی تھی وہ کچھ دیر سوچتا رہا

ماں،

جو میرے باپ سے شادی کے چند سال بعد عین جوانی میں بیوہ ہوگئی اور صرف اپنے بیٹے کے لیے اپنے جذبات قربان کر دیے اور اس انداز سے کہ بیٹے پر بھی کوئی انگلی نہ اُٹھ سکے دوسری طرف عزہ اس کے تعلیمی کیریئر کی واحد لڑکی جو اسے اپنے معیار اور آئیڈیل سے قریب لگی وہ دونوں کو نہ کھونا چاہتا تھا لیکن یہاں تو فیصلہ کن گھڑی تھی اس نے ایک کی قربانی دینا تھی۔ اس نے چند لمحے توقف کیا اس درد بھری کیفیت کو سنبھالتے ہوئے وہ کھڑا ہوا توایک فیصلے پر پہنچ چکا رہا۔

اس نے موبائل پہ عزہ کے لیے آخری میسج لکھا کہ مونا، تم نے ایک تقسیم شدہ انسان سے محبت کی مجھے افسوس ہے کہ میں تمھیں یہ سب پہلے نہ بتا سکا ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا اب مقدر ہی ملائے تو ملائے مجھ کو تم سے بچھڑا ہوں میں آندھی میں پرندوں کی طرح فقط اگلے چند دن عزہ کی جانب سے خاموشی ہی دیکھنے کو ملی لیکن ایک دن صبح جاگنے پہ اس کا ایک میسج نوحہ کناں تھا۔

زیش، تم مجھے بتادیتے تو ٹھیک رہتامیری امی نے میری پسند کا خیال رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اس لیے میں آپ کا انھیں بتا بھی چکی تھی۔ بل کہ اب آپ کا انھیں انتظار تھا۔

لیکن اب اس بات کا دکھ مجھ سے زیادہ انھیں ہوگا شاید ان کا مجھ پہ اعتبار بھی متاثر ہو لیکن خوش رہیے شکر ہے تم نے اور دیر نہ کر کے مجھے اور ذلیل ہونے سے بچا لیایوں ہم اپنی محبت کی تدفین سے فارغ ہو گئے۔ میں گھر میں ہی رہا جاب کے لیے اپلائی کیا اور جلد ہی جاب بھی مل گئی پہلی تنخواہ وصول کرتے ہی امی نے میری شادی کا اعلان کر دیا لڑکی، خاندان کچھ بھی میری دلچسپی کا موضوع نہ تھا میں بس دفتر جاتا جو کام بتایا جاتا کر لیتا، اور اپنے روم کی تنہائی اوڑھ کر پڑا رہتا امی نے شادی کے سب معاملات خود دیکھے، زیور، کپڑے اور دیگر سامان ماموں جان اور ان کی بچیوں کو ساتھ رکھ کر لایا۔

اس معاملے میں کہیں بھی جانے سے میں امی جان سے پہلے ہی معذرت کر چکا تھا اور اس کوشش میں تھا کہ امی میرے اس گریز کے پیچھے چھپی کہانی تک رسائی نہ پا سکیں اگرچہ انھیں کچھ فکر مندی تھی لیکن میں عام طور پر ہشاش بشاش رہنے کی اداکاری میں کامیاب رہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب تیاریاں مکمل اور شادی کی تاریخ طے ہوگی

اور پھر بارات دلہن مہمان اور میری حسرتوں کی قربان گاہ عجلہ عروسی، دوستوں کی چھیڑخانیوں اور رشتہ دار خواتین کی دلہن کے نام پہ نونک جھونک میں مجھے اپنے آپ کو شدید اذیت میں ڈال کر قہقہے لگانے اور مسکراہٹیں سجانا پڑی تھیں، یوں مصنوعی پن کی اداکاری نے مجھے بری طرح تھکا دیا تھا۔ لیکن ابھی تو سب سے اھم مرحلہ درپیش تھامیں نے اپنی شریک سفر کو اس تقسیم شدہ انسان کی حقیقت اور حثیت بتانے کا فیصلہ کر لیا تھا یہ ایک اور دریا کا سامنے تھا جسے عبور کرنا بظاہر مشکل ہی نہیں ناممکن لگتا تھا لیکن اس دریا میں اُترے بنا چارہ بھی تو نہ تھا میں اپنے کمرے میں آگیا تھا لیکن سیج پہ میری منتظر بد نصیب لڑکی پہ اگلے ہی لمحہ میں جانے کیا قیامت ٹوٹنے والی تھی وہ اس سے بے خبر تھی وہ شاید نئی زندگی کے ان لمحات سے کتنی خوش کن باتیں وابستہ کیے منتظر تھی اپنے شریکِ سفر سے وابستہ ہزار خوش فہمیوں کو گلے لگائے سیج پہ بیٹھی لڑکی انتظار کی سولی پہ لٹکی تھی رات آدھی ہو چلی تھی اور میری قوت گویائی بحال نہ ہوسکی تھی لیکن کسی نے تو یہ سکوت توڑنا تھا

اور میں جانتا تھا یہ صلیب مجھے ہی اُٹھانا ہوگی۔

میں نے کمرے کی گھٹن کم کرنے کے لیے اپنے لباس کا کچھ بوجھ اُتارا اورایک ایسی خاتون جو میرے لیے اجنبی تھی اور اب عمر بھر کی شریک سفر ہے ان سے مخاطب ہوا قسمت کا عجیب معاملہ ہے مقدر نے تمھیں ایک تقسیم شدہ انسان سے وابستہ کر دیا۔ میں تمھیں یہ سچ بتانے میں ایک لمحہ کی بھی دیر نہیں کر سکتا۔

اس لیے کہ میں اپنی زندگی میں اس سے قبل یہ غلطی کر چکا ہوں میں اپنی ماں کی محبت پہ اپنی محبت قربان کر چکا ہوں تم میری ماں کا انتخاب ہو لیکن اس انتخاب سے مجھے نفرت یا بیزاری نہیں اس انتخاب کا حق میں اپنی ماں کو دے چکا تھا اسی لیے اس حق کو ممکن بنانے کے لیے مجھے اپنی محبت قربان کرنا پڑی اس راز سے تم واقف ہو یا میں اب تم اگر اس تقسیم شدہ کھنڈر نما انسان سے نبھاہ کر سکو تو میرے رویے اور طرز عمل سے تمھیں شکایت نہ ہوگی لیکن میری روح کی گہرائیوں میں چھپی ایک محبت شاید نہ مر سکے میں اپنی ماں کے انتخاب کے ساتھ منافقت نہیں کر سکتا اسی لیے یہ سب آپ کو بتا رہا ہوں اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور آج ہی کرنا ہے۔

البتہ کسی بھی فیصلہ میں میری مما کی رعایت رکھنا ہوگی اس لیے کہ وہ میرا سب کچھ ہیں میں سمجھتا ہوں یہ ارمانوں بھری رات یوں غارت ہو رہی ہے لیکن میرے ارمانوں کی روح کسی اور فاختہ میں اٹکی ہے۔ آپ کے پاس اس شب کے کچھ لمحے ہیں فیصلہ پہ پہنچ جانا ہی بہتر رہے گا۔

اس سماج کے تقاضوں پہ خود کو قربان کرنا ہے تو مجھے سست نہ پاؤ گی۔ کمرے میں خوفناک سکوت کا راج تھا، ایسے سکوت میں سانسوں کی آواز بھی شورِ قیامت محسوس ہوتی ہے میں کسی فیصلہ پر پہنچنے سے پہلے اس چہرہ کو نہ دیکھنا چاہتا تھا اسی لیے صرف نظر کیے رہا کچھ ہی لمحے گزرے کہ ایک مانوس آواز نے مجھے نام لے کر پکارا زیش۔ ش۔

میں ایک جھٹکے سے واپس پلٹاعجلہ عروسی میں ثانی تھی۔ مجھے خواب کا گماں گزرا۔ وہ مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہی تھی اس تابد نگاہوں میں ٹھہر جانے والے لمحہ میں میرے منہ سے بس یہی لفظ نکل سکا۔ ماں۔

میں جانتا ہوں یہ میری دعاؤں کا ثمر نہیں۔

ماں ہو تو آپ کو دعا کی ضرورت نہیں رہتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).