‘سمندری طوفان کا زور توڑنے کے لیے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خیال اچھا نہیں’


امریکہ کی ایک سائنسی ایجنسی نے کہا ہے کہ ہریکینز یعنی سمندری طوفانوں یا طوفان بادوباراں کو ختم کرنے کے لیے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خیال درست نہیں ہے۔

ادارے نے یہ بات ان اطلاعات کے بعد کہی جن کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اس آپشن کا جائزہ لینا چاہیے۔

ایکسیوس نیوز ویب سائٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے قومی سلامتی کے بہت سے مشیروں سے اس کے امکانات کے بارے میں دریافت کیا ہے تاہم صدر ٹرمپ نے اس قسم کی تجویز سے انکار کیا ہے۔

امریکہ کی نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) یعنی قومی، بحری اور ماحولیاتی انتظامیہ نے کہا کہ اس کے نتائج ‘تباہ کن’ ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

’ہزاروں بموں کی طاقت والا طوفان‘

فلوریڈا میں طوفان، 65 لاکھ مکانوں کی بجلی منقطع

سمندری طوفان عام طور پر امریکہ کے مشرقی سواحل کو متاثر کرتا ہے اور اکثر بڑی تباہی لاتا ہے۔

ایسا پہلی بار نہیں کہ اس خیال پر غور کیا گیا ہے۔ ٹرمپ کی تجویز کی خبر کے بعد ٹوئٹر پر ‘دیٹس ہاؤ دی اپوکیلپس سٹارٹڈ’ یعنی اس طرح سے کشفی چیز کی ابتدا ہوئی نامی ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا۔

جوہری دھماکہ

سمندری طوفان پر جوہری ہتھیار کے اثرات کیا ہوں گے؟

نیوز ویب سائٹ ایکسیوس کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ طوفان کی آنکھ میں بم کیوں نہیں گرا سکتا تاکہ اسے زمین پر آنے سے روکا جا سکے۔

نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن یا نوآ کا کہنا ہے کہ طوفان پر جوہری ہتھیار کے استعمال سے ‘طوفان کا رخ نہیں موڑا جا سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں اٹھنے والی تابکار شعائيں طوفانی ہواؤں کو مزید تیزی سے زمین کی طرف لے آئيں گی۔’

اس نے کہا کہ طوفان کو بدلنے کے لیے دھماکہ خیز مواد کے استعمال میں مشکل یہ ہے کہ کتنی مقدار میں تونائی کا استعمال کیا جائے کہ طوفان کے زور کو توڑا جا سکے۔

ایک ہریکین سے جو حدت نکلتی ہے وہ دس میگاٹن جوہری بم کے برابر ہوتی ہے جو ہر بیس منٹ میں دھماکے سے پھٹ رہا ہو۔

اس نے مزید کہا کہ اگر چہ بم کی میکانکی قوت طوفان کی شدت کے برابر ہوتی ہے تاہم ‘سمندر کے اندر دور کسی خاص جگہ پر اس قوت کا نصف بھی مرکوز کرنا بڑا کام ہوگا۔’

نوآ کا کہنا ہے کہ ‘طوفان میں بدلنے سے قبل کمزور ٹراپیکل لہروں یا ہوا کے دباؤ کو بھی نشانہ بنانا زیادہ سود مند نہیں ہے۔’

اس کا کہنا ہے کہ ‘ہر سال بحر اوقیانوس میں اس قسم کے تقریبا 80 اضطراب پیدا ہوتے ہیں جن میں سے تقریباً صرف پانچ ہی ہریکین بنتے ہیں۔ پہلے سے یہ بتانے کا کوئی طریقہ نہیں کہ سمندر کی کون سی ہلچل ہریکین کی صورت اختیار کر لے گی۔’

کب سے یہ خیال گردش کر رہا ہے؟

ہریکین کو جوہری بم سے نشانہ بنانے کا خیال سنہ 1950 کی دہائی سے گشت کر رہا جب ایک سرکاری سائنسدان نے اس خیال کا اظہار کیا تھا۔

سنہ 1961 میں نیشنل پریس کلب میں ایک تقریر کے دوران امریکی ویدر بیورو کے فرانسس ریچلڈرفر نے کہا کہ وہ ‘اس امکان کے بارے میں سوچ سکتے ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا جب سمندر کے اندر دور ہی کسی ہریکین کو جوہری بم سے اڑا دیا جائے گا۔’

نیشنل جیوگرفک کے مطابق انھوں نے مزید کہا کہ ‘ہمیں جب پتہ چل جائے گا کہ ہم کیا کر رہے ہیں’ تو ویدر بیورو جوہری بم حاصل کرنا شروع کر دےگا۔

نوآ کا کہنا کہ اس قسم کے خیال کی تجاویز عام طور پر ہریکین کے موسم میں آتی ہیں۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر شیرن سکواسونی کا کہنا ہے کہ یہ خیال سنہ 1950 کے پلوشیئرس پروگرام سے پیدا ہوا جب سرکاری محققین کی جانب سے جوہری ہتھیار کے ‘عجیب و غریب اور قدرے سنکی استعمال کی ایک فہرست’ تیار کی گئی۔

تقریباً 20 سالوں میں امریکہ نے 27 جوہری تجربوں میں 31 بم کے تجربے کیے تاکہ یہ جانچ کی جا سکے کہ امریکی اسلحہ خانے کا استعمال نہر یا کان کھودنے میں یا پھر جہازوں کے لیے بندرگاہ بنانے میں ہو سکتا ہے یا نہیں۔

پروفیسر سکواسونی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب تابکاری کے خطرات زیادہ واضح ہونے لگے تو اس خیال کو ترک کر دیا گیا۔ اس کےساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حالیہ بین الاقوامی معاہدے امریکہ کو کسی ہریکین پر جوہری ہتھیار کے استعمال سے روکتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں اسی قسم کے کئی مختلف انوکھے خیالات ظاہر کیے گئے جن میں سے ایک سنہ 2017 میں فیس بک ایونٹ پر نظر آیا جس میں امریکی بندوق کے مالکان سے کہا گیا کہ ہریکین ارما کو گولی اور شعلہ افگن ہتھیاروں سے ‘مار گرائیں’۔

اس ایونٹ کے لیے 55 ہزار افراد نے دستخط کیے اور فلوریڈا کے ایک شیرف نے تو ٹوئٹر پر سخت تنبیہ جاری کرتے ہوئے لکھا: ‘اس طرح آپ اس کا رخ نہیں موڑ سکیں گے اور اس کے خطرناک دوسرے نتائج ہوں گے۔’

بیری طوفان

امریکہ میں ہریکین کا موسم کیا ہے؟

بحر اوقیانوس کے ہریکین کا موسم یکم جون سے شروع ہو کر نومبر کے اخیر تک رہتا ہے۔ اس کا شباب سمتبر میں آتا ہے جب سمندر کا درجۂ حرارت سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

ٹراپیکل طوفان ڈورین فی الحال کریبیئن جزائر کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس کے بارے میں پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ یہ منگل کو ہریکین بن جائے گا اور آنے والے دنوں میں امریکی جزائر پیورٹو ریکو کے لیے خطرے کا باعث ہوگا۔

جب بی بی سی نے دریافت کیا تو میامی میں نیشنل ہریکین سینٹر کے ایک ترجمان نے کہا کہ ایجنسی کی توجہ ڈورین پر مرکوز ہے اور اس نے نوآ گائڈلائنز کے تحت ‘ہریکین اور جوہری ہتھیار کے استعمال کے موضوع’ کو نظر انداز کر دیا۔

نوآ نے رواں ماہ کے اوائل میں متنبہ کیا ہے کہ معمول سے اوپر ہریکین کی سرگرمی کے لیے اب حالات زیادہ ساز گار ہیں۔ اس نے نام دیئے جانے والے دس سے 17 طوفانوں کی پیش گوئی کی ہے جس میں سے پانچ سے نو ہریکین بنیں گے جبکہ دو سے چار بڑے سمندری طوفان ثابت ہوں گے۔

اب تک چار نام والے طوفان سمندر میں پیدا ہو چکے ہیں جن میں اینڈریا، بیری، چینٹل اور ڈورین شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp