کشمیر: مکینوں کو باہر نکلنے کی اجازت لیکن کاروبار زندگی معطل


‘گلیوں میں ہنگامہ تھا۔ رکشہ ڈرائیور اسے گھر لے کر آیا۔ میں نے باہر نکل کر پوچھا کیا ہوا ہے؟ میں نے پوچھا کیا تم گر گئے تھے۔ اس نے کہا میرے اندر آنسو گیس کا دھواں چلا گیا ہے۔ وہ تھوکتا رہا اور پھر اسے ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ پھر ہم اسے ہسپتال لے گئے لیکن وہ راستے میں ہی مر چکا تھا۔’

یہ ہیں 17 اگست کو سرینگر کے علاقے صفا کدل میں جان کی بازی ہارنے والے محمد ایوب کی اہلیہ خزری کے ہیں۔

اہل خانہ اور علاقے کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ایوب کی موت پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کے نتیجے میں پھیلنے والے دھوئیں سے کی وجہ سے دم گھٹنے سے ہوئی جو گھر سے باہر نکلے ہی تھے کہ شیلنگ کی وجہ سے گر پڑے۔

تین بیٹیاں اور ایک بیوہ کو پیچھے چھوڑ جانے والے ایوب کی موت کے بارے میں جاننے کے لیے بی بی سی کے نامہ نگار عامر پیرزادہ نے ہسپتال گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ سرینگر کے ایس ایم ایچ ہسپتال میں جب ایوب کو لایا گیا تو انھیں مردہ قرار دیا گیا۔ لواحقین اور عینی شاہدین نے موت کی وجہ آنسو گیس کا دھواں اور دم گھٹنا بتائی۔ لیکن ہسپتال کی رپورٹ میں موت کی اصل وجہ نہیں لکھی گئی۔

نامہ نگار عامر پیرزادہ کے مطابق ہسپتال کے انتظامی حکام سے ایوب کی موت کی اصل وجہ دریافت کرنے کی کوشش کی گئی تاہم حکام نے ہم سے بات کرنے سے انکار کیا۔

پولیس حکام سے جب اس حوالے سے پریس کانفرنس میں سوال پوچھا گیا تو انھوں نے اسے ایک افواہ قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیے

سرینگر کا نواحی علاقہ صورہ: کشمیری مزاحمت کا نیا مرکز

کشمیر مانگو گے۔۔۔

کشمیر کے اجڑے آشیانے

لیکن ایوب کی موت کے بعد علاقے میں ایک بار پھر پرتشدد مظاہرہ ہوا اور پولیس کو پھر مظاہرین کو منتشر کرنا پڑا۔

اہل خانہ میں ایوب کے بھائی فیاص نے جو اس واقعے کے چشم دید گواہ ہیں، یہ گلہ بھی کیا کہ ان کو بھائی کے جنازے کے ساتھ نہیں رہنے دیا گیا اور نہ ہی زیادہ لوگ نماز جنازہ پڑھ سکے کیونکہ جس گاڑی میں ان کا جسد خاکی تھا وہ پولیس کی تحویل میں تھی جسے پورے شہر میں گھما کر لے جایا گیا۔ خاندان کے چند ہی افراد جنازے میں شریک ہو سکے۔

اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ’ایک انسان کی ہلاکت ہوئی ہے جانور کی نہیں اور ہمیں انصاف چاہیے۔‘

نامہ نگار ریاض مسرور، سرینگر

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں 22 روز کے دوران ایوب کی موت کے بعد پیر کو ایک اور ہلاکت کی اطلاع موصول ہوئی جس کی تصدیق حکام نے بھی کی ہے۔

پولیس کی جانب سے ایک ٹرک ڈرائیور کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔

پولیس نے ٹرک ڈرائیور کی ہلاکت کا مقدمہ ایک نوجوان کے خلاف درج کیا ہے۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ بچھ بہاڑا میں جو کہ اننت ناگ ضلعے کا قصبہ ہے، ٹرک ڈرائیور کی ہلاکت پتھراؤ کے نتیجے میں ہوئی۔ تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم اور پتھراؤ کے بیچ میں پھنس گیا تھا اور ٹرک پر قابو نہیں رکھ سکا تھا۔

بڑی تعداد کی وجہ سے سکیورٹی فورسز سول ٹرکوں میں بھی سفر کرتی ہیں اور نوجوانوں نے یہ فرض کر لیا کہ اس ٹرک میں فورسز ہیں۔

پولیس نے ایک اور علاقے میں پتھراؤ کے نتیجے میں ایک خاتون اور ایک شخص کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔

سرینگر سمیت متعدد اضلاع میں مکینوں کو گھروں سے باہر آنے جانے میں تو روک ٹوک نہیں تاہم کاوباری سرگرمیاں مکمل طور پر معطل ہیں۔

ہم نے گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران تین اضلاع اور پرانے سرینگر کا دورہ کیا۔

جامع مسجد، نوہٹہ اور درگاہ حضرت بل اور نارمال روڈ پر سختیاں ہیں تاریں بچھی ہوئی ہیں لیکن باقی شہر میں سختیوں میں نرمی کی گئی ہے۔ جو لوگ بھی ہنگامی ضرورت کے لیے جانا چاہتے ہیں وہ اپنی گاڑیوں میں جاتے ہیں۔ باقی وہی صورتحال ہے۔

باہر نکلنے پر کوئی رکاوٹ نہیں تاہم چونکہ کاروبار زیادہ تر آن لائن ہوتے تھے تو وہ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون لائن نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔ بہت ہی محدود پیمانے پر بینک کام کر رہے ہیں۔

لیکن کیا کشمیر کے مختلف علاقوں سے گرفتاریوں میں کمی آئی ہے؟

حکومت کی جانب سے یہ اعتراف کیا جاتا ہے کہ امن کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو احتیاطی طور پر گرفتار کیا جاتا ہے تاہم حکام ان کی تعداد نہیں بتاتے۔

کشمیر

GETTY IMAGES
ٹیلی فون سروس لینڈ لائن پر موجود ہے لیکن بہت محدود پیمانے پر

صورہ پولیس سٹیشن سمیت دیگر چند اور پولیس سٹیشنز کے باہر گرفتار ہونے والے نوجوانوں کے رشتے داروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

’اب ایک سلسلہ چل پڑا ہے جسے حکومت ’کمیونٹی بانڈ‘ کہتی ہے۔ یعنی ایک محلے سے ایک لڑکے کو گرفتار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس کے رشتے داروں، پڑوسیوں پر مشتمل 20 افراد کے وفد کو طلب کیا جاتا ہے۔ وہ ضمانت دیتے ہیں کہ یہ لڑکا اب کسی جلسے جلوس میں شرکت نہیں کرے گا۔ لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی کو رہا کیا جائے۔

پیر کو ایک مقامی صحافی کو گرفتار کیا گیا اور پھر کئی صحافیوں کی کوششوں کے بعد یہ کہہ کر رہا کیا گیا کہ وہ انسانی حقوق کے بارے میں کم لکھیں۔

نامہ نگار ماجد جہانگیر، کلگام

لیکن سرینگر سے 120 کلومیٹر جانے والے جنوبی کشمیر کے کلگام ضلع کے ولی ناٹ گلزار آباد میں انڈین فورسز تو تعینات نہیں تاہم مکین پھر بھی گہرے خوف میں مبتلا ہیں۔

مقامی شخص محمد اشرف نے بتایا کہ بھلے ہی یہاں سکیورٹی فورسز تعینات نہیں لیکن ہم گہرے سائے میں ہیں۔

علاقے میں یا تو اشیائے خوردونوش ختم ہونے کو ہیں یا بہت مہنگی۔

تیس سالہ حلیمہ نے بتایا کہ ان کی بچی کو دیے جانے والے دودھ کے سب ڈبے ختم ہو گئے ہیں، بازار بند ہیں اور ان کی بچی کمزور ہو گئی ہے۔

حاملہ خواتین کو بھی ہسپتال تک پہنچانا مشکل ہے کیونکہ ڈرائیور حضرات علاقے سے باہر جانے میں گھبراتے ہیں۔

ریاست کو یونین ٹیریٹری میں اکتوبر تک تبدیل کرنے کے لیے بھی کام جاری ہے۔ ہر بلاک میں ایک کاؤنسل ہو گا جس کے تحت ایک پنچائیت بنائی جائے گی۔

کچھ سرکاری افسروں نے نجی طور پر بتایا کہ ابھی ایک ڈیڑھ سال تک مقامی انتخابات کا کوئی چانس نہیں ہے اس لیے انتظامیہ کو فعال بنانے کے لیے بلاک ڈویلپمنٹ کاؤنسل بنایا جائے گا اور اسی کے ذریعے سڑکیں، سکول اور ترقیاتی کام ہوں گے۔

کشمیر

نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی، لائن آف کنٹرول، تتری نوٹ

ادھر پاکستان اور انڈیا کے درمیان لائن آف کنٹرول پر مسافروں کو کئی دن کے بعد گذشتہ روز اپنے اپنے علاقوں میں جانے کی اجازت ملی۔

کراسنگ پوائنٹ تتری نوٹ پر موجود بی بی سی کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق چالیس مسافر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے اس جانب آئے تو کچھ مسافروں کو اس پار جانے کی اجازت ملی۔

قاضی جمال دین اپنے اہل ِخانہ کے ساتھ اپنی بہن سے ملنے گئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کنٹرول لائن پر ہمارے آر پار جانے کا سلسلہ جاری رہے۔

انھوں نے بتایا کہ ہم وہاں 28 دن کے لیے گئے تھے لیکن 35 دن گزارے۔

’وہاں سب لوگ گھروں میں ہی بیٹھ گئے تھے۔ فون بند تھا ہم پریشان تھے۔ ‘

انھیں کے ہمراہ موجود محمد امین نے بتایا کہ ’وہاں پر سب لوگ پریشان ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا۔ وہاں جنگلوں میں ادھر ادھر جگہ جگہ فوج ہے۔ لوگ بہت خوفزدہ ہیں اور انھوں نے ہمیں کہا کہ تم اپنے وطن جاؤ ہمارے ساتھ کیا ہو گا ہمیں نہیں پتہ۔ ہم نے تو یہ بھی سنا کہ یہ آخری کراسنگ ہو گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp