کیا پاکستان بھی کشمیریوں کی ہمدردیاں کھو رہا ہے؟


5 اگست کو بھارت نے بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی آئین کی شق 370 اور 35 A کو یک طرفہ طور پر ختم کر دیا۔ بھارتی آئین کی شق 370 ریاست جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتی تھی اور یہی شق مہاراجہ ریاست جموں کشمیر ہری سنگھ کے بھارت سے مشروط الحاق کو بھی آئینی حیثیت دیتی تھی، جبکہ اس شق کی زیریں شق 35 A ریاست جموں کشمیر میں 1927 سے لاگو باشندہ ریاست قانون کو حفاظت فراہم کرتی تھی۔ واضح رہے کہ پاکستان کے زیر انتظام آزاد جموں کشمیر میں اسٹیٹ سبجیکٹ رول اب بھی کسی نہ کسی شکل میں بحال ہے جبکہ گلگت بلتستان میں 1973 میں یہ رول بھٹو حکومت میں معطل کر دیا تھا۔

بھارت میں بی جے پی کی حکومت نے شق کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ریاست جموں کشمیر خصوصا کشمیر ویلی میں، جموں کے کچھ اضلاع میں دفعہ 144 نافظ کر دیا اور اندرو و بیرون داخلے پر پابندی عائد کر دی جبکہ اس کے اگلے ہی روز لداخ ڈویژن کے ضلع کارگل میں بھی دفعہ 144 نافظ کر دیا جس کو اب تین ہفتے گزر چکے ہیں اور کہیں سے بھی صورتحال واضع نہیں ہے۔ ان تمام علاقوں میں انٹرنیٹ، موبائل فون اور لینڈ لائن نیٹ ورکس بند ہیں اور ریاست کے اندر سے آنے والی معلومات کا ذریعہ یا تو بھارتی میڈیا ہے یا پھر چند ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے، جن کی رسائی بھی کچھ محدود علاقوں تک ہے اور وادی کی صورتحال سے بالکل بے خبر ہیں۔

اس صورت حال کے بعد ظاہر ہے دنیا بھر کی نظریں پاکستان کی جانب تھیں کہ پاکستان سے اس کا ری ایکشن ہو گا اور کچھ بڑا دیکھنے کو ملے گا۔ پاکستانی زیر انتظام آزاد جموں کشمیر میں بھی ہر ایک اسی طرف دیکھ رہا تھاکہ اب وقت آ گیا ہے پاکستان ریاست جموں کشمیر کی آزادی پر کوئی ٹھوس حکمت عملی طے کرے گا۔ مگر گزرتے وقت اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے بیانیے کو ایک دفعہ پھر رد کرنے کے بعد اب ریاست جموں کشمیر کے شہری تصویر کا کوئی اور ہی رخ دیکھ رہے ہیں۔

ٓآپ کوہالہ سے پار ہوں تو ہر چہرے پر تنوع اور سنجیدگی ہے۔ جونہی لائن آف کنٹرول کی جانب بڑھتے جائیں گے یہ سنجیدگی پریشانی میں تبدیلی ہوتی جائے گی۔ میر پور سے لے کر تاؤ بٹ تک لوگ ایک ہی سوال کر رہے ہیں۔ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے؟ مگر ظاہر ہے ان سوالات کے جواب فی الحال کسی کے پاس بھی نہیں ہیں۔ عام آدمی کا زیادہ انحصار پاکستانی میڈیا پر ہے یا پھر سوشل میڈیا اور سنی سنائی باتوں پر۔ سوشل میڈیا پر جتنے منہ اتنی باتیں ہو رہی ہیں جو لوگوں کے وسوسوں اور پریشانیوں میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔ کئی معتبر حلقوں میں بھی یہ آوازیں سننے کو مل رہی ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان مل کر ریاست جموں کشمیر کا فیصلہ کر چکے ہیں اور اب اس پر پاکستانی سیاسی اشخاص اور حکومتی اراکین کے بیانات زخموں کو مندمل کرنے کی ایک کوشش ہے، جس کے بعد اگلے مرحلے کا کام شروع ہو گی۔

تحریک آزادی کے حوالے سے حکومت آزاد کشمیر کا کردار اس وقت تقریبا صفر ہے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر امریکہ کے دورے پر ہیں جو کہ نجی نوعیت کا ہے جبکہ اب یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ مستقبل قریب میں پاکستان کی جانب سے آزاد حکومت کے اختیارات کو مزید کم کیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے حکومتی حلقوں میں گفت شنید جاری ہے۔ یہ ایک طرح سے الارمنگ صورتحال ہے۔ دوسری جانب گزشتہ روز وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے مسئلہ کشمیر پر قوم سے خطاب بھی کیا جس میں وہی ماضی کی باتیں دہرائی گئیں اور کسی بھی نئی پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا جس سے پاکستان کی جانب سے مستقبل کی صورتحال واضح ہو البتہ یہ ضرور کہا گیا ہے کہ پاکستانی قوم جمعہ سے جمعہ مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کے ساتھ آدھے گھنٹے کی یکجہتی منائے گی۔

اس وقت پاکستانی زیر انتظام آزاد کشمیر میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں، سیکولر اور لبرل نظریات رکھنے والی جماعتوں نے ایک مشترکہ الائنس بنا لیا ہے جس کے تحت 26 اگست کو آزاد کشمیر بھر میں ”جموں کشمیر چھوڑ دو“ تحریک کا آغاز کیا ہے۔ پیپلز نیشنل الائنس کے اس پلیٹ فارم سے ہر ضلع میں ریلیاں نکالی گئیں اور ریاست جمون کشمیر چھوڑ دو کے نعرے لگائے گئے، ریلیوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی لیکن پاکستانی میڈیا پر ان کا مکمل بلیک آؤٹ رہا۔

ان ریلیوں میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان ریاست جموں کشمیر کو بحثیت ملک تسلیم کرے، ریاست سے جڑے تمام خارجہ امور حکومت آزاد کشمیر کے سپرد کرے، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو ملا کر ایک آئین ساز خود مختار اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ریاست جموں کشمیر کو بچانے کا پاکستان کے پاس یہ ایک قابل عمل آپشن بچا ہے جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان بھارت سے کیے گئے تمام معاہدے ختم کر کے مسئلہ کشمیر پر نئے سرے سے بحث کو بھی چھیڑ سکتا ہے کیونکہ شملہ معاہدہ ہی ریاست جموں کشمیر کو ہندوستان کا اندرونی مسئلہ بنانے میں مدد دیتا ہے۔

اس وقت آزاد کشمیر میں بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور متحد ہو رہی ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر پاکستان مسئلہ کشمیر پر واقعی سنجیدہ ہے تو وہ کم از کم ایک موقع کشمیریوں کو دے کر دیکھے وگرنہ پاکستان بھی بھارت کی طرح ریاست پر قابض کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے بھی لوگوں کا غصہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں کرفیو اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں موجودہ صورتحال کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی پالیسی ساز کیا نئی راہ نکالتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).