ماحول گرم رہنا چاہیے


\"aqdasاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی وزیر خارجہ ششما سوراج کی تقریر نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹھنڈی پڑتی لفظی جنگ کو پھر سے گرما دیا۔ششما سوراج نے پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے اور انڈیا سے اسے کوئی علیحدہ نہیں کر سکتا۔ کشمیر میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر پاکستان کے وزیر اعظم کی طرف سے گذشتہ ہفتے لگائے جانے والے الزامات کے جواب میں ششما سوراج نے کہا کہ پاکستان کو بلوچستان کی طرف دیکھنا چاہیے۔انہوں نے پاکستان پر الزام لگایا کہ پاکستان نہ صرف بھارت میں دہشتگردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے بلکہ دنیا میں بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی پاکستان کا  ہاتھ ہے۔

ان الزامات کے بعد دونوں ممالک کے ٹی وی چینلز پر پھر الزام تراشی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔تھوڑی دیر بعد ہی ایک پروگرام میں پاکستان کے مشیر  خارجہ فرما رہے تھے کہ ہم ہندوستان کو ایسا مزہ چکھائیں گے کہ ان کے نسلیں یاد رکھیں گی۔

 مودی صاحب کی کیرالہ کی تقریر کے بعد دونوں ممالک میں کچھ حلقوں کو یہ تشویش لاحق ہو گئی تھی کہ کہیں یہ معاملہ ٹھنڈا نہ پڑ جائے ، اور ان کی دکانیں بند ہو جائیں۔ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی کمائی میں کتنوں کا لہو شامل ہو گا، ان کا بس مال بکنا چاہیے۔ مال بھی کیا ہے؟  جنگ کی دھمکیاں،ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی خواہش، ہم دہلی میں جھنڈے گاڑنے کیے خواہشمند  تو وہ اسلام آباد میں مہر لگانے کے درپے، ہم نے ان کی فلمیں بند کر دینی ہیں اور وہ ہمارے فنکاروں کو اڑتالیس گھنٹے میں ملک بدر کردیں گے، انہیں بڑا ہونے کا زعم تو ہمیں بہادر ہونے کا مان، ہم کشمیر کا نام لیں تو وہ بلوچستان کا راگ الاپنے لگتے ہیں، ان کے پاس اگر ایٹمی ہتھیار ہیں تو ہم نے بھی شب برات پر  پھوڑنے والے پٹاخے نہیں بنائے ہوئے۔ الغرض ، دونوں ممالک میں ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق جلتی پر تیل ڈال رہا ہے۔بہت کم لوگ اس جنگی نقار خانے میں امن کی طوطی بجا رہے ہیں ۔امن کی آواز کمزور پڑتی جا رہی ہے اور طبل جنگ مزید اونچا بجنے لگا ہے۔

مودی صاحب کو بھی جہاں اندازہ ہوا کہ معاملہ ٹھنڈا پڑ رہا ہے اوروہ تمام عناصر جنہوں نے پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر انہیں منتخب کیا تھا وہ ناراض ہونے لگے ہیں، تو فورا غربت اور تعلیم کے میدان کو چھوڑ چھاڑ کر پانی کی بندش اور سندھ طاس معاہدے کو ٖٖختم کرنے کا راگ الاپنے لگے ۔پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کیے لیے اقدامات اٹھانے لگے۔ سنا ہے اب تو بھارت رواں ماہ اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرس میں بھی شرکت نہیں کرے گا۔ موجودہ حالات میں ایسی باتیں ایک کوتاہ نظر حکمران ہی کر سکتا ہے۔ورنہ کیا ہی بھلا ہوتا کہ سارک کانفرس جیسے اہم پلیٹ فارم کو اپنا مقدمہ علاقائی ممالک کے سامنے موثر طور سے پیش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا۔ مگر کیا کیجئے جناب! آج کل نفرت بکتی ہے، جنگ بکتی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی میں جہاں باقی عناصر بہت اہم ہیں، وہیں میڈیا کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ برنارڈ کوہن نے \”دی پریس ، دی پبلک،  اینڈ فارن پالیسی\” میں لکھا ہے کہ  میڈیا عوام کی رائے بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میڈیا یہ بتاتا ہے کہ کس موضوع کو اہمیت دینی چاہیے ، اور کس موضوع کو غیر ضروری سمجھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر آج کل  دونوں ممالک میں ہر چینل غربت، مہنگائی، بے روزگاری، ناخواندگی، اور ایسے کئی مسائل کو چھوڑ کر صرف پاک بھارت تنازعے کی بات کر رہا ہے، جیسے اس کے علاوہ دونوں ممالک کا کوئی  اور مسئلہ ہی نہیں۔ امور خارجہ کی ایڈی ٹوریل ٹریٹمنٹ عموما حکومت کے موقف کے مطابق کی جاتی ہے ، چاہے  اس سے کتنے ہی صحافتی  قوانین پامال ہوتے ہوں۔ جیسے عراق پر امریکی حملے کے وقت امریکی انتظامیہ کا موقف تھا کہ عراق میں جوہری ہتھیار بنائے جا رہے ہیں ۔ اس دوران امریکی میڈیا پر چلنے والی خبروں کا جائزہ لینے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر خبریں جوہری ہتھیاروں سے متعلق دی گئیں اور بار ہا حکومتی موقف کو دہرایا گیا ، تاکہ عوام کو ذہنی طور پر جنگ کے لیے تیار کیا جا سکے۔

بھارت اور پاکستان کی مثال لیں۔  سوشل میڈیا اور ٹی وی پر ہر کوئی آپ کو یہ باور کروانے میں مصروف ہے کہ ہم سے زیادہ \”تباہی\” کوئی نہیں پھیلا سکتا۔ بھارتی میڈیا تو جنگ کی بات ایسے کر رہا ہے جیسے بچوں کا کھیل ہو۔ شاید انہیں معلوم نہیں کہ  زبانی جنگ اور حقیقی جنگ میں فرق ہوتا ہے۔ آپ نے تو خواہش کا اظہار کر دیا، عوام کو بھی اکسا لیا، آپ کی واہ واہ بھی ہوگئی، پر کسی ماں کا بیٹا جان سے جائے گا، کسی باپ کا  مان اس سے چھن جائے گا، کوئی دلہن ہاتھوں میں مہندی رچائے پیا کی چھٹی کا انتظار کرتے کرتے سفید ساڑھی اوڑھ لے گی۔ خون چاہے رام داس کا بہے یا عبدالرحیم کا ، خون، خون ہوتا ہے۔بیٹا چاہے بارڈر کے اس پار جان سے جائے، یا اِس پار، بیٹے کا کوئی متبادل نہیں۔  چوڑیاں چاہےکرشنا کی ٹوٹیں،یا شازیہ، کرچیاں دونوں کو بہت چبھیں گی۔

جنگ کی خواہش کرنے والوں سے درخواست ہے کہ اپنی دکانیں چمکانیں ، اور ماحول گرم رکھنے کی بجائے ، مصالحتی کردار ادا کریں۔ آپ کی قومی ذمہ داری اگر آپ کو جنگ کی  طرف دھکیل رہی ہو تو اس پر انسانی ذمہ داری کو ترجیح دیں۔ اور ایک انسان کی حیثیت سے آپ بالکل نہیں چاہیں گے ناحق کسی کا خون بہے۔ساحر لدھیانوی بھی کیا خوب کہہ گئے

اے شریف انسانو
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments