نئے دور کا نیا خاندان


رات دو بجے عذرا کا فون تھا۔

”سر وہ لیبر میں ہے، ہسپتال آگئی ہے۔ شائستہ، وہی ایچ آئی وی والی عورت۔ “

”کتنی دیر لگے گی تمہارے خیال میں؟ “ میں نے پوچھا۔

”دو گھنٹے میں سب کچھ ہوجائے گا سر! ابھی وہ چھ سات سینٹی میٹر ہے اور بچے کا سر بالکل ہی نیچے آچکا ہے۔ درد ٹھیک ٹھاک اٹھ رہے ہیں۔ پروگریس کررہی ہے۔ “ عذرا نے جواب دیا تھا۔

میں نے کہا کہ ”میں آرہا ہوں۔ “

شائستہ کے شوہر کا دوست اسے لے کر آیا تھا۔ جب سارے مریض ختم ہوگئے تو وہ دھیرے سے دروازہ کھول کر اندر آگیا۔ کچھ ڈرا ڈرا سا۔ کچھ گھبرایا گھبرایا سا۔ پھر رک رک کر اس نے مجھ سے آنکھیں چار کیے بغیر کہا:

”جی میں اپنے دوست کی بیوی کولے کر آیا ہوں۔ بات یہ ہے کہ میرا دوست، شائستہ کا شوہر تین ہفتے ہوئے مر گیا ہے۔ یہ حمل سے ہے شاید ساتواں مہینہ ہے اس کا۔ “ اس نے ٹھہر ٹھہر کر مشکل سے اپنی بات مکمل کی تھی۔

”اچھا تو کارڈ بنوانا ہے؟ “ میں نے ہمدردی سے پوچھا تھا۔

”جی کارڈ تو بنانا ہے مگر ایک مسئلہ اور ہے۔ “ اس نے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔

”بولو کیا بات ہے، کیا مسئلہ ہے؟ مسئلہ ہی تو حل کرنے بیٹھے ہیں ہم لوگ۔ “ میں نے دوستانہ لہجے میں کہا تھا۔

”جی بات یہ ہے کہ شائستہ کے شوہر کو بڑی خراب بیماری تھی جی۔ خود مرگیا ہے وہ اس بیماری سے اور سب کچھ علاج پہ ختم ہوچکا ہے، کچھ بھی نہیں ہے ان لوگوں کے پاس۔ گھر میں تین بچے اور ہیں اور نفیس کی ماں ہے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ “ اس نے پھر آہستہ آہستہ بتایا تھا۔

”دیکھو اس ہسپتال میں تو پیسے لگتے نہیں ہیں، ابھی میں کارڈ بنوادیتا ہوں پھر دو مہینے کی بات ہے۔ بیچ میں ہم لوگ دیکھتے رہیں گے۔ آئرن کی گولیاں ہسپتال سے ہی مل جائیں گی۔ جب درد اٹھیں گے تو لے آنا بچہ بھی ہوجائے گا۔ اگر آپریشن کی ضرورت پڑی تو وہ بھی ہوجائے گا۔ جس میں کوئی پیسہ ویسہ بھی نہیں خرچ ہوگا۔ ویسے پہلے بچے تو نارمل ہی ہوئے ہیں نا۔ مریضہ کہاں ہے؟ “ میں نے پوچھا۔ ساتھ ہی میں نے آیا سے کہا کہ ڈاکٹر عذرا کو بلاؤ۔

”جی مریضہ باہر ہے بلالوں اسے؟ “ اس نے پوچھا تھا۔

اس نے دروازہ کھول کر شائستہ کو اندر بلایا۔ دبلی پتلی سی عام شکل صورت کی لڑکی تھی وہ۔ شکل سے ہی اندازہ ہوگیا کہ اینمک ہے، ہیموگلوبن چھ گرام سے زیادہ نہیں ہوگا۔ اس پر سے حمل۔ ایسی مایں بچے جننے کی عمر میں عام طور پہ موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ میں نے سوچا کہ یقینی طور پر مناسب غذا سے محروم رہی ہے وہ۔ شکل پر شدید اداسی۔ بہت ہی معمولی قسم کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اس نے۔ میں نے سوچا کہ جس کا شوہر تین ہفتے پہلے مرا ہوگا اس کی شکل پر اداسی نہیں ہوگی تو کیا ہوگا۔

دروازہ کھلا اور عذرا داخل ہوئی، ”آپ نے بلایا ہے سر؟ “ اس نے پوچھا تھا۔

”ہاں دیکھو یہ شاستہ ہے، شاید سات مہینے کے حمل سے ہے۔ اس کا کارڈ بنانا ہے۔ کارڈ بناکر سارے ٹیسٹ بھیج دو اور کل بلا کر آئرن چڑھا دینا۔ میرے خیال میں چار وائل تو چڑھانا ہی ہوگا، ایک ایک دن چھوڑ کر۔ “ میں نے دیکھا کہ شائستہ کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ پھر میں نے انگلش میں کہا، ”عذرا شائستہ کے شوہر کی تین ہفتے قبل موت ہوگئی ہے ذرا ٹی ایل سی کی ضرورت ہے۔ سمجھتی ہو نا ٹینڈر لونگ کیئر۔ ایسے میں عام طور پہ عورتیں اپنا خیال نہیں رکھتی ہیں۔

ذرا اچھے طریقے سے بات کرلینا شائستہ سے پوری توجہ کے ساتھ۔ اس کوبہت زیادہ مدد کی ضرورت ہوگی۔ غربت، افلاس، بچے اور پھر میاں کی موت نے اس عورت کو پہلے ہی ماردیا ہے۔ ”مجھے پتا تھا عذرا اس مریضہ کا ہر ممکن خیال کرے گی، نہ صرف خیال رکھے گی بلکہ اگر ضرورت ہوگی تو شاید ضرورت کی چیزیں بھی مہیا کردے گی، اسی لیے میں نے اسے بلایا تھا۔

وہ شائستہ کو لے کر برابر والے کمرے میں چلی گئی۔ میں نے نفیس کے دوست سے پوچھا کہ ”کیسے مرگیا تمہارا دوست، حادثہ، کینسر کیا ہوا تھا اسے؟ “ میں نے جلدی جلدی پوچھنے کی کوشش کی۔

”جی اسے ایڈز ہوگیا تھا۔ “ اس نے زمین کی طرف دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا تھا۔

مجھے جیسے جھٹکا سا لگا۔ میں فوراً اُٹھ کر برابر والے کمرے میں گیا تھا۔ شائستہ ابھی کاؤچ پر لیٹی ہی تھی۔ عذرا اس سے سوالات پوچھ رہی تھی تاکہ اس کا کارڈ بناسکے۔

میں نے عذرا کو اشارے سے دوبارہ اپنے کمرے میں بلایا۔

”دیکھو، شائستہ کا شوہر ایچ آئی وی ایڈز کی وجہ سے مرا ہے۔ ہمیں پتا نہیں ہے کہ شائستہ کا کیا اسٹیٹس ہے، اس کو انفیکشن ہوگیا ہے یا کہ شاید وہ بچی ہوئی ہے؟ اب تم خیال کرنا۔ اس کے سارے ٹیسٹ کرالو۔ ہر دفعہ آپ نے ہی شائستہ کو دیکھنا ہے۔ گلوز پہننے ہیں پابندی کے ساتھ، بہت خیال رکھنا ہے کہ ہسپتال کے کسی بھی عملے کو شائستہ کا خون یا جسم کی رطوبت نہ لگے۔ دیکھو ہر ایک کو بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ شائستہ کی کیا کہانی ہے؟ “ عذرا یہ سب سن کر چونک گئی۔ اس کی آنکھوں میں پریشانی بھرگئی تھی۔

”نفیس کو ایڈز کیسے ہو گیا؟ “ میں نے اس کے دوست سے سوال کیا۔

”جی بات یہ ہے کہ ہم لوگ کھیپیئے ہیں۔ آپ کھیپیئے سمجھتے ہیں نا ڈاکٹر صاحب۔ “

”نہیں مجھے نہیں پتا کہ کھیپیا کیا ہوتا ہے؟ “ میں نے دوبارہ سوال کیا۔

”بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کہ ہم لوگ ہر تھوڑے دنوں کے بعد بینکاک جاتے ہیں۔ وہاں سے سستا سامان کھیپ کی کھیپ لے کر آتے ہیں۔ ایئرپورٹ پر ہمارا انتظام ہے۔ کچھ لے دے کر مال کسٹم سے چھوٹ جاتا ہے پھر ہم اسے کراچی کے بازار میں بیچ دیتے ہیں۔ یہی کام ہے ہمارا اور ٹھیک ٹھاک کمائی ہے۔ “

اس دن میری سمجھ میں آیا کہ کراچی کے بازاروں میں چاکلیٹ سے لے کر کپڑے، صابن، شیمپو سے لے کر برتن اور سگریٹ سے لے کر ڈیکوریشن پیس کیسے آجاتے ہیں اچھے بھی سستے بھی۔ کھوڑی گارڈن، کھارادر، گل بازار اور دوسری بہت سی جگہوں پہ باہر کا سامان کہاں سے آتا ہے۔

”جی بڑا اچھا کام چل رہا تھا۔ ہم چار دوست مل کر یہ کام کررہے تھے۔ پھر ایسا ہوا جی ڈاکٹر صاحب! کہ نفیس نے بینکاک میں عورتوں کے پاس بھی جانا شروع کردیا، خراب عورتیں، گندی عورتیں۔ وہ عورتیں بھی کسی کی ہوئی ہیں۔ پھر ایسی ہی کسی عورت کے ذریعے اس کو ایڈز ہوگیا جناب۔ ہم نے اسے بہت سمجھایا کہ بازاری عورتوں سے دوستی اچھی نہیں ہے۔ ایک سے ایک بیماریاں ہیں آج کل مگر وہ مانا نہیں کسی کی بات۔ پہلے تو ہم لوگوں کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ نفیس بار بار بیمار کیوں پڑجاتا ہے مگر ایک دن ایک ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ کرائے اور پھر پتا لگا تھا کہ نفیس کو ایڈز ہوگیا ہے۔ “

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔ تھوڑی دیر تک نجانے خلا میں کیا تلاش کرتا رہا۔ میں بڑی توجہ سے اسے دیکھ رہا تھا پھر اس نے دھیرے سے کہا، ”ڈاکٹر صاحب پھر مرنے میں دیر نہیں لگائی تھی اس نے۔ بہت تیزی سے ختم ہوگیا۔ ایک کے بعد ایک بیماریاں نجانے کون کون سی ہوتی چلی گئیں اس کو؟ بچا نہیں سکے اس کو ہم لوگ۔ نہ دوائیں نہ دعائیں۔ ہسپتال میں داخل ہوا۔ ڈاکٹر دوائیں منگاتے رہے جو کچھ ہم سے بن پڑا ہم نے کیا۔ گھر والوں نے گھر کا سامان، بیوی نے زیور اور مکان تک بیچ دیا اور اچھے خاصے پکے مکان سے اٹھ کر کچی آبادی میں آکر رہنے لگے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3