گلنار


بچپن سے میرآباد کی پہچان گلنار اور ریحان کی شرارتیں تھیں۔ سنگلاخ پہاڑیوں کے درمیان جب دنیا سے کٹا، یہ پیارا سا گاؤں خواب سے جاگتا تو دو فرشتے نما ننھے چور تباہی مچاچکے ہوتے۔ کسی کا پھاٹک کھول کر مویشیوں کو کھولتے، مرغیوں کے انڈے توڑتے لیکن ان سب کے باوجود وہ میرآباد کے لوگوں کے آنکھوں کے تارے تھے۔ اس کے پیچے گاؤں کے لوگوں کا ایک واہمہ تھا۔ جب حسن کے گھر گلنار اور حسین کے گھر ریحان پیدا ہوئے تو ان کا نزول گاؤں کے لئے بھی برکت کا تحفہ لے آئی کہ سات سال سے گاؤں میں قحط کا منحوس سایہ تھا۔

لیکن پہلی رات گلنار کی پیدائش پھر دوسری رات ریحان کی پیدائش بارش اور بہار کی نوید ثابت ہوئی۔ اس لیے گاؤں والے ان کی ناراضگی کو خدا کی ناراضگی سمجھتے، ان کی مسکراہٹیں ہی گاؤں کی جان بن گئی تھی، بلکہ یوں تھا کہ پھولوں سے پیاری گلنار کے گلنار سے ہونٹ جب جنبشِ کرتے تو پہاڑ، پیڑ سبھی کو جیسے گدگدی ہوتی جواباً سبھی ہنستے۔

وقت گزرتا گیا دونوں ساتھ ساتھ سکول جاتے، لکھتے، پڑھتے کھیلتے گئے۔ لیکن جب جماعت ہشتم آئی تو ریحان نے شہر میں جاکر پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ گلنار کی بھی بہ ضد تھی لیکن گلنار کے والد حسین روایات کی یہ زنجیر توڑ نہ سکے۔ حالانکہ گلنار کو پانچویں کے بعد سکول چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔ مگر خدا کی ناراضگی کے ڈر سے سب کو ننھی گڑیا کے سامنے ہار ماننا پڑی لیکن آج جب گلنار قدرے بڑی تھی تو اسے پہلی بار بڑوں سے ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اسے شدید کمتری کا احساس ہوا تھا۔ یہ اس کی زندگی کا پہلا جھٹکا تھا۔ مجازی خداؤں کے ہاتھوں اور وہ بھی بلوچ مجازی خدا جو غیرت کی خاطر خون اور آنسوؤں کے دریا بہا دیں۔ گلنار کے چند معمولی آنسو کے قطرے اس سماج میں اس کی نادانی کی علامت تھے۔ اس رات اسے زمین تنگ معلوم ہوئی تھی جہاں اسے اس کے خوابوں کو سجانے، انھیں رکھنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ وہ سوچتی رہتی ”کیا ہمیشہ زمین عورت کے لئے پیمائش اور رقبے میں چھوٹی ہوتی ہے۔ اگر ہاں تو یہ کیوں کر ماں ہے جبکہ ماں کی آغوش تو ایک جہان لگتی ہے۔ تو پھر یہ دھرتی عورت کی ماں نہیں ہوئی آخر یہ کس کی ماں ہے؟“

ریحان جب شہر پہنچا تو پہلے پہلے اسے گلنار بہت یاد آتی۔ وہ ایک دو مہینے بعد گاؤں آتا تو سب سے پہلے حسین کے گھر جاتا۔ گلنار اسے دیکھ کے گل کی طرح کھلتی۔ ہزاروں روایات کے بندھنوں کے باوجود زمانہ ان کے پیار کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ریحان کا گاؤں آنا بند ہوگیا۔ گلنار کچے رستوں میں کچی امیدوں کی ڈوری لئے روز انتظار کرتی۔ کبھی اسے لگتا پرندے اس پہ ہنس رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ”نادان لڑکی ریحان نہیں آئے گا کیونکہ وہ شہر گیا ہے اور شہر جانے والوں کا غم ہم سے پوچھئے۔ جب گاؤں سے کوئی اڑ کر شہر چلا جاتا ہے نا تو پھر وہ واپس نہیں آتا سنا ہے شہر میں جال ہوتے ہیں۔“ لیکن گلنار سنتی اور جھٹک دیتی۔

ایف ایس سی کے بعد ریحان ایک دو سالوں تک نہیں آیا۔ گلنار ہر ہفتے بیمار ہونے لگی۔ ابھرے ہوئے گلاب جیسے گال سوکھ گئے۔ آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے نظر آنے لگے تھے۔ وہ سادہ سی پھولوں جیسی گلنار گم سم رہنے لگی تھی۔ یہ درد سارا گاؤں جانتا تھا بلکہ پہاڑ بھی اس کی کھلکھلاتی ہنسی کے محتاج تھے۔

اسے درد تھا کہ جب ریحان آخری بار گاؤں آیا تھا تو وہ کیوں اس سے نظریں ملانے میں دشواری محسوس کررہا تھا کہیں پرندے ٹھیک تو نہیں کہتے؟

لیکن ایک دن گاؤں میں خبر پھیل گئی کہ ریحان آنے والا ہے اور وہ آکر شادی کرنے والا ہے۔ جب گلنار کو یہ پتہ چلا تو وہ سارے غم، سارے خدشات بھول کر جھومنے لگی اور پل پل خود کو کوستی رہی کہ کیوں اس نے خوامخواہ اتنے گندے واہمے پال رکھے تھے۔ وہ پھر انتظار کرتی رہی۔ وہ پھر ساردن ا انتظار کرتی رہی، پر ریحان نہیں آیا، شہر کی گاڑی بھی آئی لیکن ریحان نہیں آیا۔

دوسرے دن پتہ چلا ریحان شہر میں کسی دوسری لڑکی سے محبت کرتا ہے اور اسی سے شادی کررہا ہے۔ اس کے لئے وہ کافی دن سے اپنے ماں باپ کو منا رہا تھا لیکن وہ نہیں مان رہے تھے کیونکہ یہ ان کے بلوچ روایات کے خلاف تھا۔ لیکن اگلے دن وہ ریحان کی بھیجی ہوئی گاڑی میں شہر گئے اور شہر جاکر وہ ریحان کا درد سمجھ گئے۔

لیکن دوسری طرف یہ خبر گلنار کے لئے صور اسرافیل تھا، جسے وہ سہہ نا سکی۔ لیکن وہ بلوچ عورت تھی روئی بھی نہیں۔ البتہ کچھ وقت بعد وہ گھر میں زنجیروں سے قید ضرور ہوگئی۔ کیونکہ اسے شہر سے آنے والے لوگوں سے نفرت ہے، وہ انھیں پتھر مارتی ہے، گالی دیتی ہے۔ گاؤں والوں کو اپنے واہمہ کا بھی یقین ہوچلا ہے کہ نا خدا ناراض ہوا اور نا عذاب آیا سوائے ایک فرد پہ، اسی پھول جیسی لڑکی پہ جس کی خوبصورتی پہ تتلیاں بھی رشک کرتی تھی۔ آج وہ زنجیروں اور تعویزوں کے بیچ گر چکی ہے اور وہ ہزاروں عورتوں کی طرح انھیں اپنا دوست اور مددگار مانتی ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ وہ عورتیں ہوشمند ہیں اور گلنار پاگل۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).