او بی ایل نہیں اب ایم بی ایس کا دور ہے


میں چاروں بڑے چیفوں کا ٹاؤٹ نہیں تھا۔ ان میں دو میرا بہت ہی خیال رکھتے تھے اور دوسرے دو نے مجھے رخصت پر بھیج دیا تھا۔ یہ جو چیف ہوتے ہیں کچھ میرے سینئر ہوتے ہیں اور کچھ جونیئر لیکن جب وہ چیف بن جاتے ہیں تو پھر چھٹی بھیجنا یا نوکری دینا انہی کی مرضی سے ہوتا ہے۔ میں خدمت بہرحال جاری رکھتا ہوں۔ ایس ایچ او کے بدلنے سے ٹاؤٹ کی پوزیشن تھوڑی اوپر نیچے ہو سکتی ہے لیکن صبر سے کام لیں تو اگلا ایس ایچ او آپ کے سٹیٹس کو بحال بھی کر سکتا ہے۔ میں آپ کا بہت مشکور ہوں کہ آپ نے اتنے اہم شو میں انٹرویو کے لئے میرا انتخاب کیا ہے۔

میں انتخابات کا ماہر بھی ہوں۔ اللہ کا فضل ہے میں بڑا عزت دار آدمی ہوں۔ درمیانے دو چیفوں کے دور میں جب میں چھٹی پر تھا تو میں نے کئی انتخابات میں حصہ لیا اور ہارا۔ اس کا مجھے کوئی افسوس نہیں۔ کیونکہ میں اپنی ذات کے بارے میں زیادہ سوچتا ہی نہیں۔ مجھے تو بس اس ملک کی فکر رہتی ہے۔ اس لیے اس ملک کے الیکشن میں زیادہ تن دہی سے ”لڑاتا“ ہوں، جی جی ”لڑاتا“ ہی کہا ہے میں نے۔ ملک کے الیکشن جیتنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

آپ نے دیکھا کہ اس صدی کے پہلے الیکشن عوام کے بھرپور اصرار پر قائداعظم محمد علی جناح کی پارٹی ”مسلم لیگ ق“ نے جیتا۔ اس سے اگلے الیکشن کو جیتنے کا منصوبہ بھی میں نے خوب بنا لیا تھا لیکن کامیابی تھوڑی کم رہی۔ 2008 کے الیکشن کی آئی جے آئی کچھ زیادہ ہی غیر فطری تھی۔ اس لیے میں اس کے حق میں زیادہ نہیں تھا لیکن آپ کو پتا ہے کہ خفیہ چیف چونکہ بڑے چیف بن چکے تھے تو ان کی مرضی کا خیال رکھنا ضروری تھا۔ لیکن پھر بھی سیٹیں تمام سیاسی پارٹیوں میں اس حساب سے تقسیم کی تھیں کہ حکومت بڑے چیف کے ماتحت ہی رہے۔ یہی وہ بندوبست ہے جو اس ملک میں جمہوریت کو دوام بخشتا ہے اور جمہوری حکومتیں ایک کے بعد ایک کامیابی سے چل رہی ہیں۔ کیونکہ مارشل لا کا اب دور ہی نہیں رہا۔ اب اسی طرح کام چلانا پڑتا ہے۔

آپ کراچی والوں کے جرائم کی بات کر رہے ہیں، ظاہر ہے کہ مجھے سب پتا ہے۔ لیکن توبہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ میرے بعد پاکستان کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں انہوں نے دی ہیں۔ اس لیے ان کے جرائم معاف کرنا اچھی بات ہے۔ یوں کہنا مناسب نہیں کہ اس حکومت کی لانڈری میں دھلے ہیں وہ۔ ایسی کوئی بات نہیں ان کی توبہ دل سے تھی تو قبول ہو گئی۔

میں نے بھی پاکستان کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ محمد بن قاسم کے ساتھ مل کر ایک سندھی عورت کی پکار پر لبیک کہا تھا اور اسے وقت کے ظالم بادشاہ سے بچایا تھا۔ اس حساب سے سندھی لوگوں کو میرا شکر گزار ہونا چاہیے۔ لیکن وہ پتا نہیں محمد بن قاسم کے ساتھ ساتھ میرے بھی مخالف ہو گئے ہیں۔ یہ ملک کے خلاف ایک سازش ہے۔

عمران اور جنرل مشرف دونوں ہی بڑے لیڈر ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک چیف تھا اور دوسرا کپتان ہے۔ کپتان بھی اچھا ہوتا ہے۔ اب تو خیر کپتان کا مرتبہ اور بھی بڑھ چکا ہے، بھلا ہو امریکیوں کا، انہوں نے ”اوبر“ شروع کر کے کپتانوں کی ویلیو بہت بڑھا دی ہے۔ اب پرانے ٹیکسی ڈرائیور چاہے وہ جتنے بھی امیر اور زردار ہوں یا شریف اور ایماندار بن جائیں ان کا دور ختم ہو چکا ہے۔

اب آتے ہیں مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب، تو بتاتا چلوں کہ دو چھوٹے چیف میرے بھی ٹاؤٹ تھے لیکن وہ اب نظر بندی کے مزے لے رہے ہیں۔ سچی بات ہے کہ ہم انہیں اب استعمال ہی نہیں کرنا چاہتے۔ دنیا اب بدل چکی ہے اور ہم ایک ذمہ دار ریاست ہیں۔ ہم اب انڈیا کی طرح غیر ذمہ دارانہ حرکات کرتے اچھے نہیں لگتے۔ انڈیا اپنی غیر ذمہ دارانہ حرکات کی وجہ سے سفارتی جنگ ہار چکا ہے۔ دنیا میں اس کا موقف کوئی نہیں سن رہا اور سب ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔ اب ہم بہت جلد کشمیر کا مسئلہ پرامن طریقے سے حل کر دیں۔

ہمارا بیانیہ یہ ہے کہ جنگ اور دہشت گردی کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ جی پہلے کی بات اور تھی کہ افغانستان وغیرہ وغیرہ۔ ہو سکتا ہے کہ اس سلسلے میں کوئی غلطی ہوئی بھی ہو لیکن مجھے اس کا علم ہی نہیں ہے۔ اب ایسی کوئی آپشن ہمارے سامنے نہیں ہے۔ ہم لبرل اور امن پسند ہیں اور ہر قسم کی دہشت گردی کی بھرپور مذمت اور مخالفت کرتے ہیں۔ اور ساری دنیا دیکھے گی کہ ہم کتنی ذمہ دار قوم ہیں۔ آپ میرے ٹاؤٹوں کی فکر نہ کریں۔ وہ تو اپنی نظربندی پر خوش ہیں اور کبھی بھی آپ انہیں شکایت کرتا نہیں دیکھیں گے۔

ڈالر اور ریال اپنا رخ بدل چکے ہیں۔ دنیا دیکھے گی کہ اب کبھی بھی کوئی اسامہ ہماری بغل سے نہیں نکلے گا۔ او بی ایل کا دور ختم ہوا اب ایم بی ایس کا دور ہے اور وہی چلے گا۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik