ایلف شفق کے ناول ”ناموس“ پر الطاف فاطمہ کا تبصرہ


مصنفہ: ایلف شفق مترجم: ہما انور ناشر: جُمہوری پبلیکیشنز

ایلف شفق کا ناول ”ناموس“ اس کے ان دوسرے تمام بے مثال ناولوں کی صف میں, جو اب تک میرے مطالعہ سے گزری ہیں، ایک منفرد اور ایک الگ ہی مقام رکھتا ہے جس کی تعریف، تحسین اور تجزیے کے لیے الفاظ کو گرفت میں لانا مشکل ہی نہیں بلکہ میرے امکان سے بالاتر ہیں۔

”ناموس“ ایلف شفق کی وہ بے مثال اور بے نظیر ناول ہے جس میں اس کا فن اس کے وسیع، لامحدود، بین التہذیبی تجربے، بے پناہ ذہین مشاہدے اور مدرکات کی حسیات کے علاوہ لطیف ترین جذبوں کی بھٹی سے گزر کر ایسا کندن بن گیا ہے جو اپنی چمک اور چکاچوند سے نظر کو چھپکا دینے کی بجائے ایک خنک نرمی سے دوچار کرتا ہے جس کی تعمیر صرف دل و نظر کی مجذوبی ہی سے ہوتی ہے۔

ایلف شفق کی اس ناول کے بارے یہ طے کرنا کہ اس کا مرکزی خیال کیاہے اور اس کے کس کردار کو اہم اور مرکزی کردار (ہیرو یا ہیروئن) قرار دیا جائے، یہ بہت مشکل پیچیدہ اور لاحاصل نظر آتا ہے۔ اس کا ہر کردار اپنی جگہ پر منفرد اور اہم ہے۔ اس کے اندر مجبوری اورمحبوبی نے ایک ایسی کرشماتی قوت پیدا کر دی ہے جو قاری کے ذہن کو اپنے مکمل محیط میں لیتی ہے بلکہ اس طرح Arrest کرتی ہے کہ آپ قطعی طور پر فیصلہ نہیں کر پاتے کہ اس میں مرکزی کردار کس کو قرار دیا جائے۔

سو اس سلسلے میں میرا اپنے طور پر کیا ہوا جو تجزیہ ہے، وہ کچھ یوں ہے۔ ۔ ۔ مگر میں اپنے طور پر کچھ کہنے سے قبل یہ ضرور کہنا چاہتی ہوں کہ یہ میرا اپنا خیال ہے کسی دوسرے کو متفق ہونے کی پابندی نہیں کہ میرا خیال بلکہ یقین یہ ہے کہ کسی قاری پر ہم خیالی یا اتفاقِ رائے کی پابندی لگنا ہی نہیں چاہیے کہ ہر قاری اگر وہ درحقیقت صاحب نظر اور صاحبِ رائے ہو تو اپنے طور پر بھی ایک نظریہ اور رائے رکھنے میں آزاد ہے، بلکہ ایک طرح سے قاری ہی بہتر طور پر نقاد ہوتا ہے جو ایک غیرجانب دار نظر اور حق تنقید رکھتا ہے۔

سو اب میرا ایک قاری کی حیثیت سے ایلف شفق کی ناول کے ابتدائی باب کے آخری جملہ جو پیمبے قدر اور جمیلہ یاتر کے باپ برزو کی زبان سے ادا ہوا، یہی جملہ اس ناول کا خیال یا کِلّی ہے جس کے گرد پوری ناول کا اسٹرکچر گھومتا ہے۔ تمام علاقے، مضافات، منظر، عمارتیں اور مخلوق جس کو خدا نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے، اپنی تمام تر خوبیوں، کمزوریوں، نارسائیوں، خباثتوں اور قوتوں کے ساتھ اسی ایک نافِ ارض یعنی ناول کے جہان کے گرد اس طرح نظر آتا ہے۔

ایلف کے ہاتھ میں پکڑا قلم ایک ایسی چکنی مٹی ہے جو اسی کِلّی کے چاک پر جماتی ہے، چاک گھوم رہا ہے، مٹی سے کوزے اور ظروف بن رہے ہیں ہر نوع کے۔ اس میں ایلف کا اپنا ارادہ یا شوق شامل نہیں وہ تو بس گیلی مٹی لگاتی ہے۔ چاک پر گھومتی مٹی کا تودہ، کوزہ خود اپنی اشکال اور شبہیں اور طے کرتا ہے۔ کوزہ گری جاری رہتی ہے۔ آخر میں مٹی خود ہی بولتی ہے۔

خود کوزہ و خود کوزہ گرو خود گل کوزہ

ہاں تو وہ بروزکی زبان سے نکلا ہوا جملہ کیا ہے اورکیسا ہے، سنئے: ”ایک دوسرے سے مماثل جڑواں بچے اتنے ہی بدقسمت ہوتے تھے جتنا کہ مبارک یا خوش بخت۔ وہ خوش قسمت ہوتے تھے کہ ان کے پاس ہمیشہ دوسرا موجود ہوتا جس پر وہ انحصار کرسکتے تھے، لیکن وہ بد قسمت بھی تھے کہ ان میں سے اگر ایک شکستہ دل یا نا امید ہوتا تو دونوں ہی کے مقدر میں تکلیف اُٹھانا تھا اور اسی کی طرح دگنی تکلیف سے گزرنا۔ “

جمیلہ کو حیرت تھی کہ اگر ایسا معاملہ تھا تووہ کیا سبب یا بات تھی جس سے دونوں ہی کوگزرنا تھا چاروناچار۔

بس برزو کے منہ سے نکلاہوا یہی جملہ اس ناول کا نقطہ آغاز بھی ہے اور انجام بھی۔ تو چلئے آغاز و انجام کی بات لمبی ہے۔ ہم ابتدا کی بات کرتے ہیں۔

ابتدا، یعنی پہلے باب کی تفصیل و کوائف سے ہمیں وہم ہوتا ہے کہ پیمبے ہی اس ناول کا مرکزی کردار ہو سکتی ہے۔ پیمبے قدر جو حسین اور دلنواز ہے اور خوش بخت بھی۔ لیکن آگے چل کر ہم پر اس راز کا انکشاف سا ہونے لگتا ہے کہ اس کا مرکزی کردار کوئی انسانی کردار نہیں بلکہ وہ خطہ ہے جس کے مضافاتی علاقے سے ان جڑواں بچیوں کے جم پل کا رشتہ قائم ہوا اور وہ علاقہ چاربایان کا مضافاتی دیہی ماحول اور موسم ہیں جن کو ہم نے پورے حجری، شجری اور حیاتی وجودوں میں پوری قوتِ نمو سے اپنے پورے محیط میں اُبھرتے اور وجود پاتے دیکھا۔ یہی تو وہ Life embryo ہے، علق (خلق الانسان من علق) کی صورت میں پایا جانے والا ریزہ جو ایک مواد، ایک ننھے سے بے وجود جرثومے سے ایک مکمل تجسیم کے عمل سے گزرتا ہوا ایک منفرد فرد بنتا ہے۔

ناول کاآغاز پیمبے قدر کی بیٹی اسما کی ایک خود نوشت تحریر سے ہوتا ہے۔ جڑواں ماں کی یہ بیٹی خود بھی دو جڑواں بیٹیوں کی ماں ہے۔ ایک مکمل گھر دار ماں جن کو اپنی ماں کے اور اپنے خاندان۔ ۔ ۔ تو پراک خاندان کی سب سے بڑی اولاد اسکندر توپراک کی قید کی مدت ختم یا پوری ہونے کی وجہ سے شروز بری جیل سے لینے وصول کرنے جانا ہے۔ اور یہ اس یادداشت کی تفصیل ہے جواس سفر کی تیاریوں کے دوران اس کے ذہن پر طاری رہی اور قلمبند ہوتی رہی اور قلم بندی یادداشت کے پورے دورانیے میں وہ ایک خاموش کشاکش، نفرت اور مامتا کے کرب سے گزر رہی ہے جس کو وہ اپنی تحریر کی آخری سطور میں کچھ ان الفاظ میں قلم بند کرتی ہے :

”میں اسے اس کا کمرہ دکھاؤں گی اور آہستگی سے دروازہ بند کر دوں گی۔ میں اسے وہاں چھوڑ دوں گی اپنے گھر کے ایک کمرے میں خود سے دور نہ ہی قریب۔ میں اسے ان ہی چار دیواروں میں محصور رکھوں گی، محبت اور نفرت کے درمیان، ان میں سے ہر ایک جذبہ محسوس کرنے پر میں مجبور ہوں۔ ۔ ۔ میرے دل کے خانے میں ہمیشہ مقید وہ میرا بھائی ہے، اور ایک قاتل۔“

کتنی لرزا دینے والی، رونگٹے کھڑے کر دینے والی خود نوشت ہے۔ ۔ ۔ اس بہن اور ماں جائی کے قلم سے نکلنے والی بے ارادہ، بے ساختہ نکلنے والی یہ تحریر جو اپنی ماں کے قاتل اُس کے اپنے بیٹے کی قید کی سزا پوری کرنے کے بعد رہائی پراس کو لینے جانے سے قبل تِل کا حلوہ بڑے دھیان سے تیار کر رہی ہے۔ ماں کی ترکیب کے عین مطابق اور اس کو لاکر حلوہ کھانے کو دیتے وقت کہے گی میں ہمیشہ ماں کی پوری ترکیب کے مطابق بناتی ہوں مگر ویسا نہیں بنتا۔

اس تحریر کے بعد اسماء کی تحریر آگے چل کر نہیں ملتی۔ ۔ ۔ بلکہ قصہ یا واقعات فلیش بیک کے انداز میں کبھی آگے اور کبھی پیچھے، خود بخود سامنے آتے پیمبے قدر کے نام کی مناسبت یا تعبیر بن کر از خود سرزد ہوتے چلے جاتے ہیں۔ قضا و قدر کی اپنی رضا سے بیٹے کی شدید آرزو و حسرت کے برعکس چھ بیٹیوں کے بعد مزید دو جڑواں بیٹیوں کا ہونا۔ ۔ ۔ روایتی توام بچوں کے برعکس مختلف اور بالکل متضاد عادتوں اور فطرت کے باوجود انتہائی محبت اور یگانگت۔

اور پھر، ماں کا مر جانا۔ ان کا پروان چڑھنا۔ ان کی شادیوں کے مرحلے پر ایک بار پھر قضا و قدر کا واقعات کا رُخ، وقت کی رہوارپر اپنی گرفت مضبوط کرنا۔ پیمبے قدر یا جمیلہ یاتر۔ اور آدم۔ کیا یہ انتخاب ان تین افراد کے درمیان کسی کی بھی رضا یا انتخاب پر منحصر اور منتج ہوا۔ نہیں فیصلہ تو بالاخر قضا و قدر کے ہی ہاتھ رہنا تھا۔ ورنہ آدم اور جمیلہ یاترہی کی خواہش کے مطابق وقوع پذیر ہوتے۔ لیکن قضا و قدر کی منشاء تو یہی تھی سوپیمبے قدر ہی کے حق میں فیصلہ ہونا قرار پایا۔

اب یہاں پر مجھے اپنے خیال اور تجزیے کے متعلق یہ کہنا پڑتا ہے کہ دراصل اس ناول کے پس و پیش یا فلیش بیک میں جو وقوعے سامنے آرہے ہیں، اس میں مصنفہ ایلف شفق کے منصوبے یا کسی ارادے سے تیار کر دہ فریم ورک کے پابند ہو کر واقعات سامنے نہیں آرہے ہیں بلکہ یہ سب تو اوپر سے نازل ہو رہے ہیں۔ اور یہ کتنی مرتبہ ہوتا ہے کہ مصنف کو اس صورتِ حال کا سامناکرنا پڑتا ہے کہ اب ناول وہ خود نہیں لکھے گا بلکہ ناول اپنے آپ کو اس سے لکھوائے گی۔

سو یہاں بھی یہی صورتِ حال ہے اور ہو رہی ہے۔ البتہ ایک مقام پر محسوس ہوتا ہے کہ تو پراک خاندان میں ایک نیا موڑ آنے کی شدبد ہے اور وہ ہے تو پراک خاندان میں خاصے عرصے کے بعد لندن میں پیدا ہونے والا لڑکا یونس جو اپنے علامتی نام کے اثرات اور شخصیت کے زیراثر قابل ذکر اور خاندان کے دوسرے افراد سے مختلف ہے۔ گردوپیش اور ماحول کی ناسازگاری سے گھبرا کر فراری ذہن کے ساتھ ساتھ تبدیلی اور تجسس کی خواہش ذہن کو بے چین رکھتی ہے۔

وہ اپنے گھر میں آنے والی نئی نئی کبیدگی کشیدگی کی تاب نہ لاتے ہوئے گوشہ عافیت کی تلاش میں اپنے سکول کے ساتھ والی ایک خراب و خستہ بوسیدہ عمارت میں داخل ہوا جو اپنے انہدام اور قدامت کے علاوہ عفونت، گندگی اور پُرہول ہونے کی مناسبت سے Agora کے نام سے مشہور تھی۔ جس کے ایک نم بوسیدہ اور تاریک ہال میں عجیب و غریب حلیوں اور نشوں میں چور افراد کی موجودگی نے اس کو حیران اور قدرے پریشان تو ضرور کیا، مگر جلد ہی محسوس کیا کہ یہ زندگی کی ناہمواریوں سے شاکی، امن کے متلاشی، انارکی پسند، لادین اور عافیت پسند بے عمل لوگوں کا ایک ٹولہ ہے جو کسی موہوم امید کے ساتھ جی رہے ہیں اور اس منزل کی طرف رواں ہیں جس کی راہ کا بھی ادراک نہیں۔

ہوسکتا ہے کہ نمناک، تاریک اور عفونت اورغلاظت سے بھرپور جگہ یونس کی سزا اور عقوبت بن کر رہ جاتی، لیکن اس ٹولے کے درمیان ٹوبیکو کا کردار بھی ہے جس نے غیر ارادی اور نادانستہ طور پر یونس کے قدموں کو اپنی جگہ پر قائم رکھا، جو رفتہ رفتہ اس تاریکی اور عفونت زدہ کمیوں کے ماحول سے وابستگی کے باوجود ایک نئی متین، معتدل شخصیت میں ڈھلتا گیا۔

ایلف شفق کی اس ناول میں قاری کا واسطہ نہ صرف تو پراک خاندان کے کرداروں سے پڑتا ہے بلکہ متعدد کردار کے مختلف وسیلوں اور رابطوں کے ذریعے اتنی تفصیل اتنی وضاحت سے سامنے آتے ہیں، کبھی جیل کے اندربند مختلف جرائم اور بشری کمزوریوں اور خامیوں کے ساتھ کبھی ان کے نگران افسروں کی صورت میں کہ اگر ان میں سے ہر ایک شخصیت کے بارے میں چند سطور بھی لکھوں تو یہ تبصرہ اتنا ہی طویل اور ضخیم ہو جائے گا جتنا یہ ناول۔ سو میں یہاں صرف ایک ہی بات کہہ سکتی ہوں کہ اس ناول کے تمام کرداروں کے بارے میں یہی احساس ہوتا ہے کہ ان کو تخلیق کرنے والی مصنفہ نے ارادتاً نہیں بلکہ اپنی افتادِ طبع کی رحیمی اور مشفقی کے تحت، جسے ایک مجبوری ہی سمجھئے، کسی کردار کو بھی لعنت اور ملامت کا ہدف بننے نہیں دیا۔

ہر بار جب کسی کردار کی خیانت، بے راہ روی، تکبر اور دوسروں سے بدسلوکی کی بات آتی ہے، وہ ان کے سامنے ڈھال بن کر ان کا دفاع کرنے کو سامنے آجاتی ہے۔ آدم کی ساری بدعنوانیاں، جوا کھیلنا، بیوی بچوں سے لاپرواہی، حد یہ کہ روکسانہ سے والہانہ تعلق بھی، اس کو قابل نفرت اورہدفِ ملامت بنانے کے بجائے، ان اسباب و علل کو تفصیل سے بتا کر، جن کی وجہ سے اور جس تناظر میں نشوونما پاکر ایسی شخصیت کی تشکیل ہوئی۔ وہ اپنی ماں کا قاتل اسکندر اور اس ناول کے دوسرے تمام وہ کردار جو مختلف موقعوں پر وقتاً فوقتاً سامنے آئے۔

وہ اپنی تمام تر خامیوں کمزوریوں حد یہ کہ مجرمانہ افعال کے باوجود بنیادی طور پر ویسے نہیں ہوتے بلکہ ان کی ابتدائی اور حالیہ ناہمواریوں اور جبر کے پس منظر میں نمو پاکر اس نتیجے یا انجام تک پہنچتی ہیں۔ یوں سمجھ لیں یہ ایلف شفق کا تجزیہ اور نظریہ نہیں بلکہ یہ اس کا ایمان و ایقان ہے کہ کوئی بشر بھی اپنی بنیاد اور نہاد سے برا نہیں ہوتا، بلکہ وہ تو زندانئی تقدیر ہوتا ہے، اچھے یا برے حالات کی کار سازی ایک طرح سے اس کے ہاتھ میں ہوتی ہی نہیں، بلکہ ہونی ہو کر رہتی ہے۔

البتہ اس ناول کا ایک کردار ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس کی زندگی اور اس کی تقدیر دورانِ حیات سے انجام تک، اس کے خیال اور ارادے کے پابند ہوئے۔ اور دورانِ حیات کے پورے سفر میں اس کے قول وفعل کی باگ پر اس کی خواہش اور ارادے کی گرفت رہی اور وہ کردار ہے جمیلہ یاتر کا۔ جمیلہ یاتر جو مالا چار بایان (چار ہواؤں کا گھر) کے علاقے کے ایک کُرد خاندان میں اپنی جڑواں بہن کے ساتھ پیدا ہوئی، لیکن توام بچوں کی روایتی یکسانیت سے قطعی مختلف کردار و ذہن کی مالک اور منفرد طرزِ عمل رکھتی ہے۔

دونوں بہنوں میں بجز حیرت انگیز صوری مشابہت کے قول و فعل میں قطعی یکسانیت نہیں۔ اپنی جنم بھومی مالا چار بایان کی طبعی ناموسمی خواص سے البتہ ناقابل یقین حد تک وابستگی اور اوصاف سے متصف اپنی مٹی سے اس کا خمیر اُٹھا اور اسی مٹی کی کوکھ سے نکل کر باہر آنے والی جڑی بوٹیوں سے اسے نہ صرف الفت ہے، بلکہ وہ ان کے اندر مخفی اثرات اور فوائد سے آگاہ بھی ہے۔ ان ہی کے ذریعہ اس کے اندر چارہ سازی اور دردمندی اور کارمسیحائی کا جذبہ فروغ پایا۔ یہی اس کی زندگی تھی۔ فطرت یا قضا وقدر نے اس کی زندگی کا جوپیٹرن طے کیا، اس کے ہر موڑ میں خود اس کا ارادہ اور فیصلہ شامل ہوا۔ وہ ایک ایسا کردار ہے جس کی زندگی کے ہر موڑ پر خدا بندے سے خود پوچھتا ہے، بتا تیری رضا کیا ہے۔

جہاں تک میرا خیال ہے، میرے نزدیک جمیلہ کے کردار کے بعد کوئی اور کردار اتنا قابلِ ذکر نہیں ہے، سو یاتر (بس کافی ہے )۔

اس ناول کو جُمہوری پبلیکیشنز لاہور 03334463121 نے شائع کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).