ایف آئی اے کو خواتین کو نوکری کا جھانسہ دے کر ہراساں کرنے والے گینگ کی تلاش
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے اس گروہ کی تلاش کے لیے تحقیقات شروع کردی ہیں جو خواتین کو سرکاری نوکریوں کا جھانسہ دیکر اُنھیں جنسی طور پر ہراساں کر رہے ہیں۔ اس گروہ میں خواتین بھی شامل ہیں۔
ایف آئی اے کے حکام کے مطابق یہ تحقیقات ایف ائی اے کو براہ راست ملنے والی شکایات کے علاوہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی کنول شوذب کی درخواست پر شروع کی گئی ہیں جس میں رکن اسمبلی کا کہنا تھا کہ ان کے نام سے خواتین کو ٹیلی فون کال کی گئیں اور اُنھیں نوکریوں کا جھانسہ دیکر مختلف جگہوں پر بلوایا جاتا تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کنول شوذب کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کے دورے پر تھیں تو ان کی جماعت کی متعدد خواتین نے اُنھیں فون کیا کہ وہ انہیں لاہور بلوا کر خود آمریکہ میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیئے
’فیس بک پر خواتین سب سے زیادہ ہراساں ہو رہی ہیں‘
چائلڈ پورنو گرافی کیا ہے اور اس کی کیا سزا ہے؟
متاثرہ خواتین نے کہا کہ اُنھیں ٹیلی فون اور واٹس ایپ کالز بھی موصول ہوئی تھیں جس میں کال کرنے والے کی آواز کنول شوذب سے ملتی تھی۔
رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ اُنھیں بتایا گیا کہ نامعلوم کالر نے ان کی جاعت کی دیگر خواتین کے بارے میں بھی تفصیلات حاصل کی ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ معاملہ پارٹی کے اجلاس میں بھی اٹھایا گیا لیکن اس پر تیزی سے عمل درآمد نہیں ہوا جس کی امید کی جارہی تھی۔
ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ایک اہلکار کے مطابق ایسے واقعات میں ملوث افراد کی نشاندہی کے لیے تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اب تک کی معلومات کے مطابق ایسے گروہ کا تعلق لاہور اور اس کے قریبی علاقوں سے ہے۔
سائبر کرائم ونگ کے اہلکار نے ابتدائی تحقیقات میں جن افراد پر شبہ ظاہر کیا جارہا ہے اس کے بارے میں تفصیلات بتانے سے انکار کیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے حکام کے مطابق ان کے نوٹس میں یہ بات بھی آئی ہے کہ سوشل میڈیا پر ارکان پارلیمنٹ کے جعلی اکاؤنٹس بنا کر خواتین کو حکومت کی طرف سے شروع کیے گئے ’احساس‘ پروگرام میں نوکریوں کا جھانسہ دیکر اُنھیں جنسی طور پر ہراساں کیا جارہا ہے۔
ایف آئی اے کے اہلکار کے مطابق اس معاملے میں ضلعی سطح پر پاکستان تحریک انصاف کے عہدیداروں سے بھی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے پوچھ گچھ کیے جانے کا امکان ہے تاہم اس کا فیصلہ ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام کریں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ کراچی اور پشاور میں تعینات ایف آئی اے کے حکام کو اس بارے میں چھان بین کرنے کا کہا گیا ہے۔
سائبر کرائم ونگ کے اہلکار کے مطابق ابھی تک کسی بھی متاثرہ خاتون نے جسے مبینہ طور پر جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہو تحقیقاتی ایجنسی سے براہ راست رابطہ نہیں کیا۔
ایف آئی اے کے اہلکار کے مطابق اس کے علاوہ کچھ دیگر خواتین اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے دی گئی درخواستوں پر بھی تحقیقات ہو رہی ہیں جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ان کے نام پر سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس بنائے گئے ہیں اور ان کے نام لے کر پیغامات شیئر کیے جاتے ہیں۔
ایف آئی اے کے اہلکار کے مطابق سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس بنانے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم سٹاف کی کمی کی وجہ سے ان شکایات کو منطقی انجام تک پہنچانے میں مشکلات درپیش ہیں۔
- ماں بیٹی کے ملاپ کی کہانی: ’میں 17 سال بعد بیٹی کو دیکھ کر دوبارہ زندہ ہو گئی‘ - 29/03/2024
- شیاؤمی: چینی سمارٹ فون کمپنی نے الیکٹرک کار متعارف کروا کر کیسے ٹیسلا اور ایپل دونوں کو ٹکر دی - 29/03/2024
- خسارے میں ڈوبی پاکستان کی قومی ایئرلائن کو ٹھیک کرنے کے بجائے فروخت کیوں کیا جا رہا ہے؟ - 29/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).