اس کی بیوی سے سارا محلہ خوش تھا


سردار دلدار سنگھ سوڈھی کی عدالت کا اک واقعہ۔ دوسرے سال کا ذکر ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا اور پہلا مقدمہ تو نہیں تھا مگر عدالت کی کارروائی وکلاء کی جرح اور فریقین کی جگت بازی برسوں زبان زد عام رہی۔ نظر بظاہر تو یہ سیدھا سادھا طلاق اور علیحدگی کا کیس تھا۔ یہ شادی لڑکے کی مرضی کے خلاف اس کی ماں باپ کی مرضی سے ہوئی تھی اس لیے بڑوں کی کوشش تھی کسی طرح سے یہ گاڑی چلتی رہے۔ ہر چند ناچاقی بوقت رخصتی ہی شروع ہوگئی جب لڑکی کا چال چلن مشکوک نظر آیا۔

شادی کے بعد بھی لڑکی کے وہی حالات رہے اور چند دنوں میں سارا محلہ زیر دام آگیا۔ شوہر اپنی بیوی سے نالاں تھا ہر روز بارڈر پہ کشیدگی رہتی سرحدی جھڑپیں بھی روز کا معمول تھا جس میں چھوٹے ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا جاتا۔ مگر کسی طرح اس کمبل سے جان چھوٹتی نظر نہ آئی تو شوہر نامدار نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جج صاحب بھی اپنی نوعیت کے شوقین مزاج تھے۔ جج صاحب نے عورت کا چہرہ دیکھا پھر اس کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔

فریقین کے بیانات قلم بند ہوئے وکلاء کے دلائل اور قانونی نکات بھی زیر بحث آئے۔ جج صاحب نے مرد سے کہا تمہارا مسئلہ کیا ہے تمہاری بیوی میں کیا خرابی ہے۔ شوہر نے بغیر کسی لگی لپٹی کے عرض کیا میں اپنی بیوی سے خوش نہیں ہوں۔ جج صاحب عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور وہی سوال دہرایا۔ عورت نے کیا جواب دیا اس کو آخر پہ اٹھا رکھتے ہیں۔

عمران خان کی حکومت کو اک سال مکمل ہوا۔ اس دوران مہنگائی کا سونامی آیا جس کے آگے غربا خش وخاشاک کی طرح بہہ گئے۔ ڈالر جو ایک سو پانچ کے قریب تھا اب ایک ساٹھ کے اوپر اڑان بھر رہا ہے۔ ڈالر کے مہنگا ہونے سے بیٹھے بٹھائے پاکستان اربوں کا مقروض ہوگیا۔ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ دوسرا درآمدات کے بھاری بوجھ کی وجہ سے ڈالر سے ہر آدمی متاثر ہے۔ پٹرول جو ایک سال پہلے تک سو سے زیریں سطح پہ مرتکز تھا اب ساری حدیں پھلانگ کر سرپٹ دوڑ رہا ہے۔

بجلی اور سوئی گیس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ عوام کا ہوش اڑا رہا ہے۔ سفید پوشی کا بھرم ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے۔ روٹی نان کی قیمتیں بھی عوام کو فیضیاب کررہی ہیں۔ عمران خان صاحب کو ایک ہی تقریر آتی جس کو انہوں نے کم ظرف جٹ کے کٹورے کی طرح خوب برتا ہے۔ ہر فورم پہ کرپشن کرنے والوں کو للکارا معیشت کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا لیکن میدان عمل میں ان کا دامن یکسرخالی ہے۔ دامن تو میرا خالی ہے جگنو نہ چراغاں۔ کوئی لائحہ عمل کیا ہوتا اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔ معیشت کی بحالی کے نام پہ دیار مصر سے نورتن اٹھا لائے ہیں۔

اک سال میں خان صاحب کی اندرون ملک کارکردگی پہ تو سوالیہ نشان ہے مگر خارجہ محاذ کچھ بہتر رہا۔ اوّل اوّل تو عرب ممالک کی طرف سے کمک آئی۔ محمد بن سلمان اور محمد بن زاید کے دوروں نے حکومت کو استحکام بخشا۔ ملائشیا کے مہا تیر محمد نے بھی پذیرائی بخشی۔ ترکی کے طیب اردوان اور چائنہ کی طرف سے بھی گرمجوشی رونق افروز ہوئی۔ امریکہ کا دورہ جو بہت ہی نازک اور بہت اہمیت کا حامل تھا اس میں پاکستان کی اہمیت کا احساس کیا گیا۔ بڑے عرصے بعد پاکستانی سربراہ حکومت کی اس طرح پذیرائی کی گئی۔

ہم نے مانا خان صاحب کو جب حکومت ملی تو گزشتہ حاکموں کی بدولت معشیت تباہ حال تھی۔ کرپشن کا بازار گرم تھا ہر طرف زبوں حالی تھی۔ نئے قرض لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ خان صاحب کا یہ بیانیہ مان لیا مگر اس ایک سال میں صحت عامہ علاج معالجہ اور ہسپتالوں کا معیار کیا بہتر ہوا۔ ایک سال پہلے ادویات کی قیمتوں کا تقابل اگر آج کے دن سے کیا جائے تو جواب مل جائے گا۔

وزارت تعلیم میں کون سے جھنڈے گاڑے ہیں کیا بہتر آئی ہے اس جواب بھی چنداں مشکل نہیں۔ پولیس بھی اسی طرح اعلیٰ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ کرکٹ جو خان صاحب کی خاصیت ہے اس میں نکھار روبہ زوال ہے۔ پنجاب میں وسیم اکرم پلس ساکنان شہر کو باؤنسر پہ باؤنسر مار رہے ہیں۔ سو دن میں صوبہ جنوبی پنجاب والے خسرو بختیار اور اس قماش اور دوسرے ہیرے خان صاحب کی مالا میں جھلملا رہے ہیں۔

جج صاحب نے عورت کی طرف دیکھا اور اپنا سوال دوبارہ دہرایا۔ تمہارا شوہر تم سے خوش نہیں ہے تمہارا اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ عورت نے کہا جج صاحب میری اک عرض ہے میں جواب تب دوں گی جب یہ گانا چلایا جائے۔ عمران خان دے جلسے چے آج میرا نچنے نوں جی کردا۔ کپتان خان دے جلسے چے آج میرا نچنے نوں جی کردا۔ جج صاحب نے گانا چلوا دیا اور عورت کی طرف دیکھا۔ عورت بولی جج صاحب سارا محلہ مجھ سے خوش ہے بس اس نگوڑے کو موت پڑی ہے۔
ایک سال میں خارجہ محاذ پہ پہ سارا محلہ خوش ہے بس۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).