بڑھتی ہوئی وحشت اور جنسی تشدد کے شکار معصوم بچے!


وادی مہران سندھ جسے صوفیوں، بزرگوں، ولیوں، اللہ والوں کی دھرتی کہا جاتا ہے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی، لال شہباز قلندر، سچل سرمست، سامی، بیدل کی دھرتی سے محبت، پیار، پریم امن ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بزرگوں کی فکر، فلسفے اور امن پیار کی تبلیغ کو چھوڑ کر نفرت، حسد، انتقام اور وحشت کو اپنایا گیا ہے۔ سندھ کی مہمان نوازی کی مثالیں دنیا میں دی جاتی تھی لیکن اب سب کی جگہ نفسہ نفسی نے لے لی ہے۔ پہلے لوگ سادہ انپڑھ ہوا کرتے تھے لیکن ان میں محبت، احترام، پیار مہمان نوازی اور انسانیت تھی، اب انسانیت کے روپ میں وحشی پن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

معصوم بچوں کو اغوا کرکے قتل کردیا جاتا ہے، معصوم بچوں کو انا اور ذاتی دشمنی کے لیے پکڑ کر زندہ جلادیا جاتا ہے۔ اور پھولوں جیسی مہکتی پیاری بچیوں کے ساتھ ریپ کیا جا رہا ہے اور انہیں قتل کرکے پھینک دیا جاتا ہے۔ جب تک ہم حقیقت پسند نہیں بنیں گے اور ایسے وحشت پر پردہ رکھتے رہیں گے تو کل اللہ نہ کرے اللہ نہ کرے وہی وحشی ہمارے بچوں کے ساتھ بھی اس طرح کی وحشت کرسکتے ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی کے مزار کے قریب نوڈیرو بلاول ہاؤس کے عقب میں 8 سالہ معصوم بچی زارا منگی لاپتا ہوتی ہے۔

ورثا دھونڈتے ہیں، مگر زارا نہیں ملتی۔ دوسرے تیسرے روز ایک بوری بند لاش ملتی ہے۔ جب اسے دیکھا جاتا ہے تو وہ معصوم بچی زارا منگی کی نعش ملتی ہے، جسے وحشی صفت ملزمان نے اغوا کرکے ریپ کرنے کے بعد گلا دبا کر بیدردی سے قتل کرنے کے بعد بوری میں بند کر کے پھینک دیا گیا۔ بچی کی لاش کو نوڈیرو تعلقہ ہسپتال لایا جاتا ہے، جہاں پر دو لیڈی ڈاکٹرز نے پوسٹ مارٹم کیا۔ ملزمان کا تعلق بھی پیپلزپارٹی سے تھا۔

ذرائع کے مطابق ایک با اثر شخص نے لیڈی ڈاکٹرز کو پیغام بھجوایا کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اس طرح دینی ہے جس سے ریپ کو چھپایا جاسکے۔ لیڈی ڈاکٹرز نے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ جاری کی کہ زارا منگی کے ساتھ ریپ نہیں ہوا ہے، اسے صرف قتل کیا گیا ہے۔ لاڑکانہ سمیت سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تو ایس ایس پی لاڑکانہ مسعود بنگش نے ملزمان کو گرفتار کر لیا۔

اور ملزمان نے جرم کا اعتراف کیا کہ انہوں نے زارا منگی کو اغوا کرنے کے بعد ریپ کیا اور واقعے کو چھپانے کے لئے اس کا گلہ دبا کر بوری بند لاش پھینک دی تاکہ ہم بچ سکیں۔ جب پولیس نے ملزمان کی جانب سے ریپ کا انکشاف کیا تو دوبارہ احتجاج ہوئے۔ عدالت نے دوبارہ قبر کشائی کرنے اور پوسٹ مارٹم کیا۔ زارا منگی کا مفت کیس لڑنے والے لاڑکانہ ڈسٹرکٹ بار کے صدر اور نامور قانون دان اطہر عباس سولنگی نے بتایا کہ

”معصوم بچی زارا منگی کی قبر کشائی کرکے پوسٹ مارٹم کیا جا رہا تھا۔ 20 روز کا وقت گزرنے کے باوجود بچی کے کفن سے خون بہہ رہا تھا، وہ خون میں لت پت تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے آج اور ابھی اس کی تدفین کی گئی ہو۔ اس کی ریپ کی وجہ سے کیا حالت تھی وہ بتائی نہیں جا سکتی۔ وحشت اتنی تھی کہ ریپ کرتے وقت اس کے جسم اور سر کو کاٹا گیا تھا۔“ ان کا کہنا تھا کہ ”لیڈی ڈاکٹرز نے غلط رپورٹ پیش کی وہ بھی اتنی ہی ذمے دار ہیں جتنے ملزمان، ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔“ اطہر عباس سولنگی نے مزید کہا کہ ”وہ یہ کیس مفت لڑیں گے۔ اگر پولیس نے یا کسی اور نے بھی مداخلت کی تو ہم عدالت سے انصاف لے کر رہیں گے“

حقیقت کو دیکھا جائے تو لیڈی ڈاکٹرز جو خواتین ہونے کے باوجود بھی ایک بچی کے کیس خراب کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اگر مرد ڈاکٹر کرتا تو بات سمجھ میں بھی اجا تی ہے۔ قصور کی زینب اور لاڑکانہ کی زارا منگی کا کیس ایک جیسا ہی ہے۔ دونوں میں وحشت ہے۔ مگر سندھ کے مقابلے میں پنجاب حکومت نے نہ صرف ڈی این اے ٹیسٹ کرکے ملزم کو گرفتار کیا، اسے جیل بھیجا۔ اس کا ٹرائل ہوا اور سزائے موت بھی سنا دی گئی ہے۔ جبکہ بلاول بھٹو زرداری کے دیس میں زارا منگی کے ساتھ انصاف تو کیا ہوا، مگر ملزمان کو سزا سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

ایسے وحشی ملزمان جن کو چوراہوں پر لٹکانا چاہیے تھا ان کو سزا سے بچانے کے لئے زارا منگی کے ورثا کو نہ صرف تنگ کیا جا رہا ہے بلکہ جھوٹے مقدمات درج کرنے کی دھمکیاں اور نقل مکانی کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ملزمان اتنے با اثر تو نہیں ہیں مگر سیاسی مداخلت کی وجہ سے انہیں ریلیف مل جائے گا۔ ورثا اتنے مسکین غریب ہیں کہ وہ آگے چل کر قاتلوں کو معاف کر سکتے ہیں۔ کیا ہماری عدلیہ کیس کا جلد از جلد ٹرائل کرکے ملزمان کو زینب کے ملزم کی طرح سزا دے سکتے ہیں؟

دوسری جانب اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے حلقے گڑہی یاسین میں، 8 سالہ بچی سمیہ کھوسو کے ساتھ موٹرسائیکل سوار وحشی صفت ملزم نے اغوا کرکے ویران جگہ میں جنسی درندگی کا نشانہ بنایا۔ جب وہ تھانے پرچہ کٹوانے گئے تو پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ ورثا چنگچی رکشا پر 25 کلو میٹر دور شکارپور ڈسٹرکٹ ہسپتال پہنچے۔ ڈاکٹروں نے بچی کا علاج کرنے کی بجائے سکھر سول ہسپتال ریفر کرنے کے لئے کہا۔

غریب مسکین ورثا خون میں لت پت بچی کو شکارپور سے 40 کلو میٹر دور سکھر سول ہسپتال چنگچی رکشا میں پہنچے۔ مگر افسوس کہ ہسپتال انتظامیہ نے سمیہ کی والدین کو کہا کہ آپ لاڑکانہ ہسپتال لے جائیں۔ ہمارے پاس سرجن پروفیسر نہیں ہیں جو سمیہ کھوسو کا علاج کر سکیں! وہاں سے ایک مریض نے جب میڈیا والوں کو فون کیا کہ ”خون میں لت پت بچی ہے اس کے ساتھ ریپ ہوا ہے اس کی بلیڈنگ کی وجہ سے جان خطرے میں ہے۔ اگر علاج نہ ہوا اور لاڑکانہ ریفر کیا تو بچی راستے میں ہی دم توڑ دے گی۔“ ڈاکٹر جن کو ہم مسیحا سمجھتے ہیں ان کے پاس ریپ زدہ بچی کا علاج کرنے کے لئے ٹائم نہیں تھا لیکن نجی کلینک اور نجی ہسپتالوں میں ڈیوٹی سرانجام سے رہے تھے۔ جب یہ بات میڈیا میں آئی خبر بریک ہوئی تو ایم ایس سمیت ایک درجن پروفیسر ڈاکٹر، سرجن ہسپتال پہنچ گئے اور علاج شروع کیا۔ بچی کی آپریشن کرنے کے بعد جان بچائی گئی۔

کیا ہم انسان کہلانے کے قابل ہیں؟ کیا کسی مہذب معاشرے میں ریپ زدہ بچی کا علاج کرنے کی بجائے ایک کے بعد دوسری اور تیسرے ہسپتال ریفر کیا جا سکتا ہے؟ ہم ایسی قوم میں ہیں جب ہمارے اپنے بچے کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے، ریپ ہوتا ہے یا قتل کیا جا تا ہے ہم چلاتے ہیں، چیختے ہیں اور پتا نہیں کیا کیا نہیں کرتے! مگر جب کسی اور کے بچے جے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے تو ہم ملزمان کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ ہم انسانیت بھول جاتے ہیں۔

کراچی میں معصوم بچی خدیجہ کو بھی اغوا کرنے کے بعد ریپ کرکے قتل کردیا گیا۔ ملزم تو گرفتار ہوا لیکن خدیجہ کے ورثا کو مقدمہ سے ہاتھ اٹھانے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ حیدرآباد جیسے ٹھنڈی ہواؤں کے شہر میں بھی دو بہن بھائی قادر بخش سیال اور رخسانہ سیال کو ایک شخص نے اغوا کرکے بیدردی سے قتل کیا۔ ملزم گرفتار ہوا لیکن اس قاتل کی عمر کم کروا کہ اسے ریلیف دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شکارپور کے علاقے خانپور میں 10 سالہ یتیم بچی ملوکاں کی ایک عمر رسیدہ شخص کے ساتھ زبردستی شادی کرائی جا رہی تھی، اطلاع ملنے پر پولیس نے موقع پر پہنچ کر دولھے، نکاح خواں اور ایک عورت کو گرفتار کیا۔

مقدمہ درج ہوا۔ جب بچی کو دارالامان منتقل کیا گیا تو پتا چلا کہ اس کی طبیعت بگڑ گئی ہے۔ سول ہسپتال منتقل کیا گیا۔ جب اس کا چیک اپ ہوا تو پتا چلا کہ اس کے ساتھ نکاح سے پہلے ریپ ہوا ہے۔ آپریشن کرکے علاج کے بعد اسے واپس دارالامان منتقل کیا گیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ ملوکاں اب اس وحشیت ناک واقعہ کے بعد ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے۔ اس کا مزید علاج کرایا جائےگا۔ جبکہ شکارپور کے ڈاکٹروں نے رپورٹ جاری کی ہے کہ ملوکاں کے ساتھ کوئی جنسی زیادتی یا تشدد نہیں ہوا ہے، سول ہسپتال سکھر کے گائنی لیڈی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ملوکاں کو آپریشن کرکے 11 ٹانکے لگے ہیں۔

جبکہ گزشتہ اکتوبر میں سکھر کے علاقے نصرت کالونی میں 10 سالہ بچے فرخ انصاری کو 4 ملزمان نے اغوا کرکے روہڑی کے پہاڑوں میں جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو جلادیا گیا۔ جب والدین نے بچے کے لئے تلاش شروع کی، پولیس نے تفتیش کی تو چاروں ملزم گرفتار ہوئے۔ سکھر کے تھرمل کالونی میں ہندو معصوم بچی مٹھی باگڑی لاپتا ہوگئی۔ اس کی تلاش کی گئی برابر والے گھر میں دفن اس کی لاش کو نکالا گیا۔ ملزمان نے بچی کے کانوں میں پڑے سونے کے زیور اتارنے کی کوشش کی، چلانے پر اسے قتل کرکے گھر میں ہی دفن کر دیا گیا۔

پرانے سکھر کے علاقے شیخ محلہ میں بچے علی رضا شیخ کو ایک ملزم نے اغوا کرکے قتل کرنے کے بعد لاش کو دریائے سندھ میں پھینک دیا۔ اسی علاقے میں شاعر جبار مہر کے معصوم بھتیجے کو ملزمان نے اغوا کرنے کے بعد قتل کرکے دریائے سندھ میں پتھروں میں باندھ کرکے پھینک دیا۔ جب بچہ دریائے سندھ میں مچھیروں کو ملا تو انہوں نے پولیس کو اطلاع دی اور مرکزی ملزم بھی گرفتار ہوئے لیکن انہیں سزا نہیں ملی ہے۔ جبکہ علی رضا شیخ کے قاتل تو آزاد ہو کر بھی واپس آچکے ہیں۔

روہڑی کے علاقے نیو یارڈ کے رہائشی ریلوے ملازم شادے کے 2 بچے گم ہوگئے۔ تلاش کرنے پر ان ہی کے رشتے دار کے گھر سے دفن شدہ لاشیں ملیں۔ وجہ انا اور انتقام کی آگ تھی جس کو بچوں کے خون سے ٹھنڈا کیا گیا تھا۔ ملک میں بچوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے کام کرنے والی سماجی تنظیم ”ساحل“ کی کچھ عرصہ قبل جاری ہونے والی گزشتہ سال کی رپورٹ کے روشنی میں ملک بھر روزانہ 10 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رکارڈ ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ کیس خیرپور میں 144 رکارڈ ہوئے ہیں۔

گھوٹکی میں 87 کیس رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ سکھر میں 57 کیس دائر ہوئے ہیں۔ لاڑکانہ 75 کیس اور کراچی میں 82 کیس رکارڈ کا حصہ بنے ہیں۔ 2017 سال کی نسبت گزشتہ سال 2018 میں 11 فیصد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ پایا گیا ہے جبکہ اس سال کا دیٹا ابھی جاری نہیں ہوا ہے۔ سندھ بھر کی طرح پورے ملک میں 3 ہزار سے زائد بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رکارڈ ہوئے ہیں جن میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، تشدد، اغوا، قتل و غارت اور ریپ کے کیسز شامل ہیں۔ ملک بھر میں 26 بچوں اور 23 بچیوں کو اغوا کرکے قتل کیا گیا ہے۔ 282 بچوں اور 156 بچیوں کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعات رکارڈ ہوئے ہیں۔

اگر اسی طرح بچوں کے جنسی تشدد کے واقعات میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا تو یقیناً یہ ہمارے نسلوں کی بربادی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ بچوں کو قتل کرنے، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والوں اور وحشی صفت ملزمان کے خلاف اگر کارروائی نہ ہوئی اور ان کے کیسز جلد از جلد نہ نمٹائے گئے تو وہ آسانی سے رہا ہو کر جرم کرنے لگیں گے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ بچوں کے ریپ میں ملوث ملزمان کو چوراہوں چوکوں پر سرعام لٹکایا جائے تاکہ والدین اور بچوں میں پیدا ہوا خوف ختم ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).