انڈیا میں گواہ بننا کس قدر خطرناک ہے


گواہ

گذشتہ دنوں انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں انّاؤ ریپ کیس کا شکار اور ان کے وکیل رائے بریلی کے قریب سڑک حادثے میں زخمی ہوگئے تھے اور اب تک ان کی حالت تشویشناک ہے۔

اس حادثے میں متاثرہ لڑکی کی دو خواتین رشتہ دار ہلاک ہوگئیں ان میں سے ایک سنہ 2017 میں ہونے والے ریپ کے واقعات کی چشم دید گواہ تھیں۔

لکھنؤ سے بی بی سی کے نامہ نگار سمیرآتماج مشرا کے مطابق متاثرہ خاتون اور گواہ کو سکیورٹی فراہم کی گئی تھی لیکن حادثے کے دن مسلح اہلکار ان کے ساتھ نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیے

اناؤ ریپ کیس: ’خاندان کے ہر فرد کو دھمکی ملی ہے‘

مذہبی رہنما کو جیل پہنچانے والی لیڈی پولیس افسر

ہندوستان کا تفتیشی ادارہ سی بی آئی اب اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے اور ریپ کے ملزم بی جے پی کے رہنما اور رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر تمام الزامات سے انکار کرتے ہیں۔

لیکن اس واقعے نے ایک بار پھر ہندوستان میں گواہوں اور عینی شاہدین کی حفاظت کی طرف سب کی توجہ مبذول کرائی ہے۔

عینی شاہدین کو عدالتی نظام کی آنکھ اور کان کہا جاتا ہے لیکن اگر ملزم بااثر ہے تو پھر انڈیا میں عینی شاہد ہونا آسان نہیں ہے اور ایسا بہت سے معاملات میں دیکھا گیا ہے۔

آسارام باپو اور نارائن سائی کیس

آسارام باپو۔ نارائن سائی کا معاملہ اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔

دنیا بھر میں 200 سے زیادہ آشرم چلانے والے آسارام باپو کے بیٹے نارائن سائی کے خلاف جاری ریپ کیس میں مہندر چاولہ ایک اہم گواہ ہیں۔

آسارام باپو اور اس کے بیٹے نارائن سائی فی الحال ریپ کے مقدمے میں جیل میں ہیں لیکن سکیورٹی کے بارے میں مہندر چاولہ کی تشویش ختم نہیں ہوئی۔

وہ کہتے ہیں: ‘اگر آسارام جیل میں ہے تو کیا ہوا اس کے سینکڑوں حامی مجھے نشانہ بنا سکتے ہیں۔’

مہندر کے مطابق آسارام باپو کے مقدمے سے منسلک اب تک کل 10 افراد پر حملے ہو چکے ہیں۔ ان میں سے تین کی موت ہوگئی ہے جبکہ ایک شخص راہل سچن آج تک لاپتہ ہے۔

‘جن لوگوں پر حملہ ہوا یا جن کی موت ہو ئی وہ سب اہم گواہان کے زمرے میں آتے تھے لیکن آج تک آسارام پر اس کے الزامات نہیں عائد کیے گئے۔’

مہندر چاولا کو پولیس کا تحفظ حاصل ہے لیکن پھر بھی ان سے رابطہ کرنا آسان نہیں ہے۔ وہ نامعلوم فون نمبر نہیں اٹھاتے یہاں تک کہ اگر آپ نے انھیں کسی کے حوالہ سے پیغام دیں تو بھی ان کے پاس بہت سارے سوالات ہوتے ہیں۔

اس کی وجہ انھیں برسوں سے ملنے والی دھمکیاں اور ان پر ہونے والے قاتلانہ حملے ہیں۔

مہندر چاولہ کا دعویٰ ہے کہ 13 مئی سنہ 2015 کی صبح 9:30 بجے جب وہ ہریانہ کے پانی پت ضلع کے سانولی خورد گاؤں میں اپنی پہلی منزل کے گھر میں آرام کر رہے تھے تو انھوں نے باہر سے ایک آواز سنی۔

باہر انھیں دو افراد نظر آئے جن کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ ان میں سے ایک زینہ چڑھ رہا تھا جبکہ دوسرا نیچے حفاظت کر رہا تھا۔

دونوں آپس میں گتھ گئے اور اسی دوران حملہ آور نے مہندر چاولا پر دو فائر کیے۔ پہلی گولی دیوار پر لگی جبکہ دوسری مہندر کے کندھے پر۔

حملہ آور انھیں مردہ سمجھ کر چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ وہ تقریباً آٹھ سے دس دنوں تک ہسپتال میں رہے۔

مہیندر چاولا کے مطابق حملہ آور نے یہ کہہ کر دھمکی دی تھی کہ ‘نارائن سائیں کے خلاف گواہی دیتا ہے؟’

دوسری طرف ، آسارام باپو کے وکیل چندرشیکھر گپتا نے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘سنہ 2013 میں آسارام باپو کی گرفتاری کے بعد جن معاملوں کو حملہ بتایا جا رہا ہے ان میں سے کسی میں بھی آسارام ملزم نہیں ہیں۔ سنہ 2009 میں آشرم کے راجو چانڈک نامی ایک سادھک (پجاری) پر حملہ ہوا۔ آسارام باپو کو اس معاملے میں ملزم قرار دیا گیا ہے۔’

مہندر چاولہ کے الزامات پر چندر شیکھر گپتا نے کہا: ‘اگر آپ پر حملہ ہوتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ ملک کے وزیراعظم نے آپ پر حملہ کروایا ہے تو پولیس اس کی تحقیقات کرے گی اور پولیس جانچ میں ان الزامات کو غلط پائے گی۔’

کئی بار گواہوں پر رقم اور دھمکیوں جیسے دباؤ پڑتے ہیں اور ایسے معاملات میں ملزمان ثبوت کی کمی کے سبب چھوٹ جاتے ہیں۔

امت جیٹھوا قتل قدمہ

گجرات میں آر ٹی آئی کارکن اور ماحولیات کے ماہر امیت جیٹھوا قتل کیس میں ان کے وکیل آنند یاگنک ایک گواہ بھی ہیں۔

یاگینک کے مطابق 20 جولائی سنہ 2010 کو گجرات ہائی کورٹ کے باہر امت جیٹھوا کے قتل سے ایک روز قبل امت نے اپنے چیمبر میں اپنی زندگی کے بارے میں تشویش ظاہر کی تھی۔

یاگینک کے مطابق امیت جیٹھوا قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران 195 میں سے 105 گواہ اپنے بیان سے مکر گئے۔

رواں سال جولائی میں سابق ممبر پارلیمان دینو سولنکی کو امت جیٹھوا کے قتل کے مقدمے میں قصوروار پایا گیا جس کے بعد یاگنک کو سکیورٹی فراہم کی گئی۔

پولیس کا غیر مددگار رویہ اور بدعنوانی بھی گواہوں کی پریشانیوں میں اضافہ کرتی ہے۔

عدالتی نظام میں گواہوں کے ساتھ کس طرح برتاؤ کیا جاتا ہے اس کے متعلق سنہ 2018 کے حکم میں سپریم کورٹ کے جج اے کے سکری نے مہندر چاولہ بمقابلہ حکومت ہند کیس میں لکھا کہ گواہوں کو نہ تو عدالتی تحفظ فراہم ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ منصفانہ سلوک ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کا نظام عدل گواہوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتا، ان کی مالی اور ذاتی حالت کو دیکھے بغیر عدالت طلب کر لیا جاتا ہے، نیز انھیں سفر کے اخراجات بھی نہیں دیے جاتے۔

سپریم کورٹ

عدالتوں میں مقدمات کے کئی سالوں تک گھسیٹے جانے کی وجہ سے بھی گواہ یا تو اپنے بیانات سے پلٹ جاتے ہیں یا گواہی دینے سے انکار کرنے لگتے ہیں۔

برسوں عدالت کا چکر لگانے بار بار پولیس کے سامنے واقعے کو دہرانے اور معاشرے میں بات کو پھیلانے سے گواہوں کی ذاتی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کی طرح انڈیا میں عینی شاہدین کے لیے کوئی سرکاری پروگرام یا قانون موجود نہیں ہے حلانکہ اس کے بارے میں سالوں سے مختلف لا کمیشنز میں بات کی جاتی ہے۔

سنہ 2017 میں شروع ہونے والے سکیورٹی پروگرام کے مطابق اس پروگرام کے ذریعے اب تک 8،600 عینی شاہدین اور ان کے گھر کے 9،900 ارکان کو نئی شناخت، نئے دستاویزات اور طبی سہولیات فراہم کی گئیں ہیں۔

جبکہ برطانیہ میں نیشنل کرائم ایجنسی ایسا ہی پروگرام چلاتی ہے جس میں لوگوں کو برطانیہ کے اندر اور گواہ پر منڈلانے والے خطرے کے پیش نظر بعض اوقات یو کے سے باہر بھیجا جاتا ہے۔

کچھ گواہوں کو اتنا خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ انھیں اپنے کنبے اور دوستوں سے ہمیشہ کے لیے دور رہنا پڑتا ہے کیونکہ جگہ کی منتقلی یا تبادلہ مستقل ہوتا ہے۔

گواہوں کی حفاظت

آسٹریلیا میں بھی گواہوں کے تحفظ کے لیے نیشنل وٹنس پروٹیکشن پروگرام اپریل سنہ 1995 سے شروع کیا گیا ہے۔

ان ترقی یافتہ ممالک کے پروگرام کی طرز پر دسمبر سنہ 2018 میں سپریم کورٹ نے ہندوستان میں گواہوں کے تحفظ کی ایک سکیم کو منظوری دی اور کہا کہ جب تک پارلیمنٹ اس پر کوئی قانون نہیں لاتا اس سکیم کو بنیاد بنا کر کام کیا جائے گا۔

اس سکیم کے تحت گواہ کو ہر ضلع میں تشکیل پانے والی ‘کمپیٹینٹ اتھارٹی’ کو درخواست لکھنا ہوگی۔ اس اتھارٹی میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، پولیس سربراہ اور پراسیکیوشن اہم ممبر ہوں گے۔ گواہ پر کس قدر شدید خطرہ میں ہے اس کے متعلق پولیس تفتیش کرے گی اور پھر اسی بنیاد پر اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔

گواہوں کے تحفظ کے پروگرام میں گواہ کی حفاظت کے لیے مکمل رازداری کے بارے میں کہا گیا ہے۔ اس کے لیے اٹھائے جانے والے کچھ اقدامات مندرجہ ذیل ہیں؛

  1. گواہوں کے ای میلز اور کال کی نگرانی کی جائے گی۔
  2. ان کے گھروں میں حفاظتی آلات لگائے جائیں گے۔
  3. عارضی طور پر ان کی رہائش بدل دی جائے گی۔
  4. ان کے گھر کے آس پاس نگرانی کا انتظام ہوگا۔
  5. اس کی گواہی خصوصی طور پر تیار عدالت میں ہوگی جہاں براہ راست ویڈیو لنک، ون وے مرر، گواہ چہرے اور آواز وغیرہ کو بدلنے کی سہولیات میسر ہوں گی۔

اس سکیم پر ہونے والے اخراجات کے لیے ایک فنڈ بنانے کی بات بھی کی گئی ہے۔

دنیا کے کچھ گواہوں کو تحفظ کے پروگراموں میں جہاں گواہ کی شناخت کو مستقل طور پر تبدیل کرنے کی اجازت ہے اس کے بارے میں ماہر قانون نوین گپتا کہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے گواہوں پر اکثر منفی اثرات پڑتے ہیں کیونکہ وہ اپنی پرانی زندگی سے ہمیشہ کے لیے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں ایک کمپیٹینٹ اتھارٹی بنانے کی سمت میں کتنا کام ہوا ہے ابھی یہ واضح نہیں ہے لیکن بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں ریاستوں کے ماہرین اور اعلیٰ پولیس عہدیداروں نے بتایا کہ اس سکیم پر عمل درآمد جاری ہے۔

جیسکا لال قتل کیس، پریہ درشنی مٹو قتل کیس اور نتیش کٹارا قتل کیس میں گواہوں کے بیانات بدلنے سے تحقیقات پر ہونے والے اثرات کی وجہ سے دہلی ہائیکورٹ نے دہلی میں گواہوں کے تحفظ کی سکیم متعارف کرانے کی بات کی تھی۔

اسے دہلی میں 2015 میں نافذ کیا گیا تھا۔

سنہ 2018 میں عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں گواہوں سے متعلق پروٹیکشن سکیم کے نفاذ کے بارے میں جو بات کہی وہ اسی دہلی ہائی کورٹ کی سکیم پر مبنی تھی۔

نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی کے ایک افسر اور اس پروگرام میں شامل ہونے والے نوین گپتا کے مطابق سنہ 2013 سے 2019 تک موصول ہونے والی 236 درخواستوں میں سے 160 کو تحفظ دیا گیا تھا۔

لیکن گواہوں کی حفاظت سے متعلق سوالات ختم نہیں ہوئے ہیں۔

ویاپم گھپلہ

پرشانت پانڈے سنہ 2015 میں سامنے آنے والے ویاپم گھپلے کے وھسل بلوور اور گواہ ہیں۔

انھیں اس مبینہ گھپلے کا پتہ طویل عرصے تک سکیورٹی اداروں کے ساتھ کام کرتے رہنے کے سبب چلا۔

مدھیہ پردیش میں سرکاری ملازمتوں میں تقرری اور میڈیکل کالج میں داخلے کے امتحان کے لیے امیدواروں کے بجائے کسی اور سے پرچے لکھنوانے، امتحانات کے سوالات لیک ہونے وغیرہ کو ویاپم سکیم (گھپلے) کا نام دیا گیا۔

ویاپم اس دفتر کا نام تھا جو یہ امتحانات منعقد کراتا تھا۔

پرشانت پانڈے اور بھوپال میں بی بی سی کے لیے رپورٹنگ کرنے والے شوریح نیازی کے مطابق گذشتہ چند سالوں میں اس معاملے میں تقریبا 50 افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ‘ہلاک ہونے والوں میں سے بہت سے یا تو گواہ تھے یا وہ کسی طرح اس کیس سے منسلک تھے اگر چہ اس کیس سے ان کا نام منسلک کرنا ایک چیلنج تھا۔’

پرشانت کے مطابق خود ان پر تین چار بار حملے ہوچکے ہیں، ایک بار جب ان کی بیوی گاڑی چلا رہی تھی اور جس میں اس کا بیٹا، والد اور دادی بیٹھے تھے ایک ٹرک نے اتنی تیزی سے ٹکر ماری جس سے وہ گاڑی دور تک گھسٹتی چلی گئی۔ اس میں کسی کو چوٹ نہیں آئی۔

وہ کہتے ہیں: ‘مجھے متعدد بار فون پر دھمکیاں ملیں ہیں جس میں مجھ سے کہا گیا ہے کہ زیادہ سمارٹ نہ بنو۔ 50 مارے جا چکے ہیں تمہارا 51واں نمبر ہے۔’

پولیس نے ان اموات پر کیا کارروائی کی یہ واضح نہیں ہے۔

ایسے میں یہ نظر آتا ہے کہ عدالتی نظام کے لیے گواہوں کا تحفظ ایک عرصے تک بہت بڑا چیلنج رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp