الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی پر تنازع کیوں؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سربراہ جسٹس اطہر من اللہ وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی مشاورت کے بغیر الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تعیناتی کے خلاف درخواست پر حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
تاہم چیف جسٹس نے سماعت کے دوران یہ بھی کہا ہے کہ یہ معاملہ حزب مخالف کو پارلیمان میں اٹھانا چاہیے تھا اور ایسے معاملات کو پارلیمنٹ کی بجائے عدالتوں میں کیوں لایا جاتا ہے۔
درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے جہانگیر جدون کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے دونوں ارکان کی تعیناتی میں وزیراعظم عمران خان اور قائد حزب اختلاف میں شہباز شریف کے درمیان بامقصد مشاورت کا قانونی تقاضا پورا ہی نہیں کیا گیا اس لیے تعیناتی غیر قانونی ہے۔
الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر اعظم عمران خان اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے درمیان نئے ارکان کی تعیناتی کے لیے خط و کتابت کی ضرور ہوتی رہی لیکن اس سے متعلق بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار سے یہ بھی استفسار کیا کہ آیا اس تعیناتی کو اپوزیشن لیڈر نے کہیں چیلینج کیا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوا تو ہو سکتا ہے وہ اس فیصلے سے متفق ہوں۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ صرف قائد حزب اختلاف ہی نہیں بلکہ پوری اپوزیشن کو الیکشن کمیشن کے دونوں ارکان کی تعیناتی پر اعتراض ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا عدالت کے بلانے پر روسٹرم پر آئے اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن ہونے کے بعد عدالت سے رجوع کرنے کے سوا کوئی دوسرا فورم موجود نہیں تھا جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ نوٹی فکیشن ہو گیا تو پارلیمنٹ اس بارے میں بےبس ہے۔
عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 12 ستمبر تک ملتوی کر دی اور دونوں نئے ارکان کو حلف لینے سے روکنے کی درخواست پر بھی نوٹس جاری کر دیا۔ اس درخواست میں صدر، وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
’خواتین کے پولنگ سٹیشن اپنے علاقے میں قائم کیے جائیں‘
’یہ الیکشن کمیشن ہے آڑھت کی دکان نہیں‘
خیال رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے چند روز قبل ماہرِ قانون خالد محمود صدیقی کو سندھ جبکہ محمد منیر کاکٹر کو بلوچستان سے الیکشن کمیشن کا رکن مقرر کیا گیا تھا تاہم یہ معاملہ اس وقت تنازع کا شکار ہو گیا تھا جب چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان نے ان دونوں ارکان سے حلف لینے سے معذوری ظاہر کر دی تھی اور یہ موقف اپنایا تھا کہ ان ارکان کی تعیناتی کے لیے آئینی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے اس پیشرفت پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا اور اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جانے کی بات کی گئی ہے۔
وزارت قانون کے حکام کا کہنا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ اگر قائد ایوان اور قاید حزب اختلاف میں کسی نام پر اتفاق نہ ہو اور کافی عرصے سے یہ آئینی عہدے خالی ہوں تو ایسے حالات میں تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہوگا۔
بلوچستان اور سندھ سے الیکشن کمیشن کے ارکان کی نشستیں رواں برس 12 جنوری کو گذشتہ ارکان کی مدتِ ملازمت کے خاتمے کے بعد سے خالی ہیں۔ آئین کے مطابق نئے ارکان کی تعیناتی 45 دن کے اندر ہونی تھی مگر یہ معاملہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈلاک کے باعث اگست تک آن پہنچا۔
اب حکومت کی جانب سے ان نئی تعیناتیوں اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا کی جانب سے اس اقدام کو مسترد کرنے کے بعد ملک میں ایک آئینی ڈیڈلاک پیدا ہوگیا ہے جس کا حل فی الوقت بظاہر کسی کے پاس نہیں ہے۔
تنازع کیا ہے؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل پاکستان کے آئین کی شق 213 سے 221 تک کے تحت ہوتی ہے۔
شق 218 (2) کے تحت الیکشن کمیشن پانچ افراد یعنی ایک چیف الیکشن کمشنر اور چاروں صوبوں سے ایک ایک رکن پر مشتمل ہونا ہے۔ شق 218 (2) (ب) کے تحت ارکان کی تعیناتی کا طریقۂ کار بھی وہی ہے جو آئین کی شق 213 (2 اے) اور (2 بی) کے تحت الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا ہے۔
الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور اس کے کُل ارکان کی تعداد پانچ ہے جن کا کام انتخابی عذرداریاں، الیکشن سے متعلق شکایتیں نمٹانا، الیکشنز کی تیاری کی نگرانی کرنا، حلقہ بندیاں اور ان پر اعتراضات وغیرہ کے مسائل، نااہلی کی درخواستوں اور ان فریقوں کے دلائل سن کر ان پر فیصلہ دینا، اور ان جیسے دیگر کئی کام ہوتے ہیں۔
شق 213 (2 اے) کے تحت وزیرِ اعظم کو الیکشن کمشنر (یا ارکان) کی تعیناتی کے لیے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سے مشاورت کرنی ہوتی ہے۔
اس کے بعد تین ناموں پر مبنی ایک فہرست ایک پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجی جاتی ہے جو کہ ان تین ناموں میں سے کسی ایک پر اتفاق کرنے کے بعد انھیں منتخب کر سکتی ہے جس کے بعد صدر ان کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد سے صدر کو اس تعیناتی کا اختیار نہیں ہے چنانچہ وہ صرف پارلیمانی کمیٹی کے فائنل کردہ نام کو ہی تعینات کر سکتے ہیں۔
حتمی فیصلہ کرنے والی 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل شق 213 (2 بی) کے تحت قومی اسمبلی کے سپیکر کو کرنی ہوتی ہے جس میں سے نصف ارکان حکومتی بینچز سے جبکہ باقی نصف ارکان اپوزیشن جماعتوں سے ہونے چاہییں۔
کس اپوزیشن جماعت کو اس کمیٹی میں کتنی نمائندگی ملے گی اس کا فیصلہ پارلیمنٹ میں ان کی تعداد پر منحصر ہوتا ہے۔
اس تازہ ترین آئینی بحران کی بنیاد یہی طریقہ کار ہے کیونکہ آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب پارلیمانی کمیٹی کسی نام پر اتفاق نہیں کر سکی تو صدر عارف علوی کے پاس ارکان کی از خود تعیناتی کا آئینی اختیار موجود نہیں ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے (بالترتیب) بلوچستان اور سندھ کے ارکان کے لیے بھیجے گئے تین تین نام
سندھ | بلوچستان |
خالد محمود صدیقی، ماہرِ قانون | امان اللہ بلوچ، سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج، کوئٹہ |
جسٹس (ریٹائرڈ) فرخ ضیا شیخ، سابق جج سندھ ہائی کورٹ |
منیر کاکڑ، ماہرِ قانون |
اقبال محمود، سابق انسپکٹر جنرل سندھ پولیس |
میر نوید جان بلوچ، سابق صوبائی نگراں وزیر، کاروباری شخصیت |
دوسری جانب قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نے اپوزیشن کی جانب سے دونوں خالی عہدوں کے لیے مندرجہ ذیل نام بھیجے۔
سندھ |
بلوچستان |
خالد جاوید، سابق صدر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن |
صلاح الدین مینگل، سابق ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان |
عبدالرسول میمن، سابق جج سندھ ہائی کورٹ |
شاہ محمد جتوئی، وکیل سپریم کورٹ |
نور الحق قریشی، سابق جج، اسلام آباد ہائی کورٹ |
محمد رؤف عطا، سابق ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان |
دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین میں اس حوالے سے یہ متعین نہیں کیا گیا کہ اگر پارلیمانی کمیٹی کسی نام پر متفق نہ ہو سکے تو اس کے بعد کیا ہونا چاہیے۔
تعیناتی قبول نہ کرنے سے الیکشن کمیشن کی ساکھ بہتر ہو گی
پارلیمانی امور پر نظر رکھنے والے صحافی ایم بی سومرو کے نزدیک چونکہ اس معاملے پر آئین میں صدر کا براہِ راست کردار متعین نہیں ہے، اس لیے چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف آئینی اعتبار سے درست ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم اس بات کے پابند ہیں کہ وہ قائدِ حزبِ اختلاف سے الیکشن کمشنر یا کمیشن کے ارکان کی تعیناتی پر مشاورت کریں اور اگر معاملہ پارلیمانی کمیٹی حل نہیں کر پاتی، تو دونوں کو دوبارہ مشاورت کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب چاروں صوبوں میں آئندہ کچھ عرصے میں بلدیاتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، تو الیکشن کمیشن کا مکمل نہ ہونا اور نئے ارکان کی تعیناتی پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈلاک پیدا ہوجانا بلدیاتی انتخابات کی شفافیت پر سوالات کھڑے کر سکتا ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب بھی اس مؤقف سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی ڈیڈ لاک کی صورت میں مذاکرات جاری رکھنے چاہیے تھے اور کئی کوششیں کرنی چاہیے تھیں۔
مگر وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کے باوجود ڈیڈلاک ختم نہ ہوتا تو حکومت دستور کی تشریح کے لیے معاملہ آئین کی شق 186 کے تحت سپریم کورٹ کے پاس بھجوا سکتی تھی یا پھر یہ کہ اگر کسی مسئلے کا حل آئین میں موجود نہیں تو آئین میں ترمیم بھی کی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس تعیناتی کو قبول نہ کرنے سے نہ صرف الیکشن کمیشن کی ساکھ بہتر ہوگی بلکہ آئین کی بالادستی کو بھی فروغ ملے گا۔
’افسوس کی بات تو یہ ہے کہ صدر کے پاس اپنی بھی ایک قانونی ٹیم ہوتی ہے، ان کو یہ چیک کرنا چاہیے تھا اور اسے اس سمری کو وہیں روک دینا چاہیے تھا بجائے اس کے کہ یہ الیکشن کمیشن کے پاس جاتا اور وہاں سے مسترد ہوتا جس سے حکومت کی سبکی ہوئی۔‘
ارکان پر متفق نہیں ہو رہے تو چیف الیکشن کمشنر پر کیسے ہوں گے؟
دوسری طرف الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تعیناتی کے بارے میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ حکومت اور حزب مخالف کو اس معاملے پر بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ میں موجود دونوں بڑی جماعتیں ابھی صرف الیکشن کمیشن کے دو ارکان پر ہی متفق نہیں ہو سکیں تو تین ماہ کے بعد تو چیف الیکشن کمشنر کا تقرر ہونا ہے تو اس اہم آئینی عہدے پر وہ کیسے متفق ہوں گی۔
وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے اپنی جماعت کی قیادت کے سامنے بھی یہ بات رکھی ہے کہ ہمیں آئینی اداروں میں متنازع تعیناتیاں نہیں کرنی چاہییں اور یہ کام اتفاق رائے سے ہونا چاہیے کیونکہ الیکشن کمیشن کو آزاد اور خود مختار بنانے کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے بڑی جدوجہد کی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد صدر کے پاس تو ان تعیناتیوں کا کوئی اختیار نہیں، فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ قانونی ہونے کی بجائے سیاسی زیادہ بن گیا ہے اور حکومت اور حزب مخالف کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ عوام نے جو اُنھیں ذمہ داریاں دی ہیں اس کو پورا کریں۔
- ٹوبہ ٹیک سنگھ میں لڑکی کے قتل کی ویڈیو وائرل: ’جو کچھ ہوا گھر میں ہی ہوا، کوئی بھی فرد شک کے دائرے سے باہر نہیں‘ - 28/03/2024
- چین کی معیشت پر پانچ سوالات: پاکستان سمیت دیگر ممالک میں چینی سرمایہ کاری کا مستقبل کیا ہے؟ - 28/03/2024
- اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کا خط: عدلیہ پر اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے الزامات کی حقیقت کیا ہے؟ - 28/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).