پرانی بانسری اور نئی پٹاری


آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ حمید گل مرحوم سہیل وڑائچ کی کتاب ”جرنیلوں کی سیاست“ میں فرماتے ہیں کہ عمران خان کو آئیڈیل لیڈر کے طور پر مانتے ہیں، ضروری ہے کہ نئی قیادت ابھاری جائے کیونکہ ہماری پُرانی قیادت فیل ہو چُکی ہے پرانے لیڈر اپنی تلخیوں کو ختم نہیں کر سکے اور نہ ہی مُلک و قوم کے لیے کچھ کر سکیں ہیں یہ لوگ ایک ہی چیز کو بار بار پریکٹس کر رہے ہیں جس کی وجہ سے قوم مایوسی کے گڑھے میں گر رہی ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم ایک نئی لیڈر شپ کو سامنے لائیں۔

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ریڈار پر اسی کی دہائی سے ہیں۔ ضیاءالحق ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔ پوری آب و تاب کے ساتھ حُکمرانی کر رہے ہوتے ہیں۔ عمران خان بھی کرکٹ کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں۔ چہار دانگ عالم اُن کا شہرہ ہوتا ہے۔ ضیاءالحق انھیں وزیر بننے کی پیشکش کرتے ہیں عمران خان شکریہ کے ساتھ اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

وقت گزرتا ہے۔ ضیاءالحق مُلک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرواتے ہیں ایک بار پھر اُن کی نگاہ انتخاب عمران خان پر جا کے ٹھہرتی ہے۔ ای مقتدر شخصیت عمران خان کے پاس پیامبر بن کے جاتی ہے خان کی طرف سے انکار کا جواب ملتا ہے۔

ضیاءالحق کی عقابی نگائیں لاہور سے تعلق رکھنے والے میاں نواز شریف پر جا کر ٹکتی ہیں وہ سیاست میں ضیاءالحق کے کندھوں پر سوار ہو کر آ جاتے ہیں۔ وزیرخزانہ سے سفر شروع ہوتا ہے پھر وزارت اعلٰی اور پھر سیاست کی معراج یعنی ملک کے وزیراعظم بنتے ہیں۔

اردو کا فصیح و بلیغ محاورہ ہے کہ ”نہ رہے بانس نہ بجے بانسری“ پاکستان میں سیاست کا بانس اسٹیبلشمنٹ نے ہر دور میں اپنے پاس رکھا انھوں نے سیاستدانوں کو سیاست کا بانس کبھی نہیں دیا بانس اپنے پاس رکھ کر خود بانسری بجاتے رہے اور بانسری کی دھنوں پر سیاست دان ناچتے رہے۔

نواز شریف کے لیے بریگیڈیئر امتیاز کام کرتے رہے اور ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے لیے بریگیڈیئر اعجاز شاہ، بریگیڈیئر امتیاز نے بھی سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کے ساتھ اُن کا جذباتی تعلق تھا اور وہ نواز شریف کے ساتھ اس حد تک جُڑ چُکے تھے کہ انھوں نے اپنی کشتیاں جلا دی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھی اور بریگیڈیئر حاضر سروس فوجی کی حیثیت سے آئی ایس آئی میں تھے مشہور زمانہ اپریشن مڈنائٹ جیکال کے ذریعے بی بی شہید کی پارٹی کے اراکین اسمبلی توڑنے کی کوشش میں شامل رہے۔ اس الزام پر انھیں فوج سے فارغ کیا گیا نواز شریف جب وزیراعظم بنے تو بریگیڈیئر امتیاز کو انھوں نے آئی بی کا سربراہ بنا دیا۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی عمران خان چھیانوے میں اپنی سیاسی جماعت لانچ کرتے ہیں سیاسی جماعت لانچ کرنے کے بعد 1997 کے انتخابات میں انھیں کوئی نشست نہیں ملتی۔ ہر ڈکیٹر اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے کنگ پارٹی بنا کر انتخابات کا ڈول ڈولتا ہے۔ کنگ پارٹی سے منتخب ہو کر آنے والے ممبران اسمبلی طالع آزما کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ مشرف نے بھی عمران خان کو انتخابات میں کچھ نشستیں دینے کا وعدہ کرتے ہیں عمران ایک بار پھر انکار کرتے ہیں۔ 2002 میں انتخابات ہوتے ہیں اور تحریک انصاف کے مقدر میں ایک نشست آتی ہے۔

2008 کے انتخابات میں تحریک انصاف انتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہے پیپلزپارٹی اور ن لیگ مل کر حکومت بناتے ہیں۔ ن لیگ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی چاہتی ہے پیپلزپارٹی پس و پیش کر رہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں اختلافات ہو جاتے ہیں ن لیگ حکومت سے علحیدہ ہو جاتی ہے۔

سال 2011 کا ہوتا ہے تحریک انصاف مینار پاکستان لاہور میں تاریخی جلسہ کرتی ہے کہا جاتا ہے جلسے کی کامیابی کے پیچھے مبینہ طور پر اس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف شجاع پاشا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف 33 نشستیں حاصل کرتی ہے اُس کے بعد تحریک انصاف نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ نواز شریف وزیراعظم بنتے ہیں اور پیپلزپارٹی اپوزیشن میں تحریک انصاف جاندار اپوزیشن کرتی ہے۔ 33 نشستوں کے ساتھ عمران خان وزیراعظم میاں نواز شریف کو تگنی کا ناچ نچاتے ہیں۔

2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کامیاب ہوتی ہے اور عمران خان وزیراعظم بنتے ہیں وہ اپنی تقریروں میں اکثر فرماتے ہیں کہ بائیس سال کی جد وجہد کے بعد اُنھیں یہ مقام ملا حقائق دیکھیں جائیں تو 22 سال نہیں بلکہ 35 سال کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے ساتھ وہ یہاں تک پہنچے۔

اپوزیشن پس زنداں ہے۔ کشمیر مودی کی یلغار کے بعد دنیا کا سب سے بڑا عقوبت خانہ بنا ہوا ہے۔ مہنگائی کا اژدھا پھن پھیلائے ہے، مسائل کا انبار ہے۔ فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں۔ سپہ سالار تین سال کی توسیع لے چُکے ہیں۔ وزیراعظم اور عسکری قیادت کا امتحان ہے کہ وہ طوفان کے بھنور میں گھرے ملک کو باہر کس تدبر سے نکالتے ہیں۔ اس امتحان میں وزیراعظم کامیاب ہو گئے تو لانے والے بھی خوش ہوں گے بصورت دیگر کسی نئی لیڈر شپ کو تیار کیا جائے گا

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui