اس کی بیوی کی سہیلی


ہارون میرا دوست تھا۔ ہم اکثر صبح کے وقت نہر کنارے سیر کرنے جایا کرتے تھے۔ سیر کی غرض سے نہر تک پہنچنے میں ہمیں روزانہ غریب محلے کے قبرستان سے گزر کر نہر پر جانا پڑتا تھا۔ دربار والی مسجد میں نماز فجر ادا کرنے کے بعد ہم خراماں خراماں نہر کی طرف چل نکلتے۔ یہ ایک سینکڑوں سال پرانا قبرستان تھا۔ اکثر قبریں بارشوں کے پانی سے بیٹھ چکی تھیں۔ کچھ قبریں ایسی تھیں جن میں جھاڑیاں، کیکر کے درخت، عق کے پودے اور جنگلی گھاس اگ چکی تھی۔

قبرستان بھی خوب عبرت کی جگہ ہے۔ ہم جب قبرستان سے گزرتے تو درود شریف کی تسبیحیاں کرتے ہوئے گزرتے۔ فاتحہ خوانی کرتے اور تمام باشندگان شہر خموشاں کی ارواح کو بخشتے۔ اپنے اس عمل سے ہمیں دلی سکون ملتا۔ قبرستان سے گزرتے ہوئے فاتح خوانی کرنا اب ہمارا معمول تھا اور ایک طرح کی عبادت بھی۔ ہم دونوں شادی شدہ تھے۔ میرے دو بچے اور ہارون کے چار بچے تھے۔ ہارون کی شادی کو گیارہ سال ہوچکے تھے اور میری شادی کو دسواں سال شروع تھا۔

ہم اپنی اپنی شادی شدہ زندگی میں مصروف اور بڑے خوش تھے۔ دوران سیر ہم اکثر اپنی گذشتہ یادوں کو تازہ کرتے۔ کئی طرح کے اپنی شرارتوں کے، معاشقوں کے اور بعض دفعہ بہت سارے نصیحت آموز واقعات بھی ایک دوسرے کو سناتے۔ اس طرح گھنٹہ ڈیڑھ سیر بھی ہوجاتی اور وقت گزرنے کا پتہ بھی نہ چلتا۔ آج ہارون کچھ بجھا بجھا سا تھا۔ بظاہر تو وہ میرے ساتھ نہر کنارے سیر کے لیے جا رہا تھا مگر جانے کیوں مجھے لگ رہا تھا کہ وہ آج میرے ساتھ نہیں ہے۔

قبرستان سے گزرتے ہوئے بھی اس کی کیفیت پہلے سی نہیں تھی۔ خیر ہم فاتحہ خوانی سے فارغ ہوکر نہر کے پل پر پہنچے۔ نہر کے پل پر پہنچ کر ہم اکثر مشورہ کیا کرتے تھے کہ کدھر جانا ہے۔ نہر کے ساتھ ساتھ مشرق کی طرف جائیں تو کنارے کے دونوں جانب رہائشی کالونی تھی۔ کالونی کے لوگوں نے نہر کے دونوں اطراف اپنے من پسند پھول پودے اور کیاریاں بنا رکھی تھیں۔ ان باغیچوں میں کھلے تروتازہ پھول پودے صبح کے منظر کو اور بھی دلکش کردیتے۔

اس خوبصوت علاقے میں کناروں پر اگی سبز گھاس پر کالونی کی ادھیڑ عمر عورتیں جوگر پہنے تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے واک کررہی ہوتیں۔ کبھی کبھار کوئی پینتیس چھتیس سال کی آنٹی بھی ٹہلتی ہوئی یا نہر کے پانی میں پاؤں ڈال کر پیر ہلاتے اور پانی سے اٹھکیلیاں کرتے نظر آجاتی۔ مغرب کی طرف نہر کے دونوں جانب ہر ی بھری فصلیں سبزیاں پیڑ پودے ماحول کو قدرتی حسن سے خوبصورت بنائے ہوئے تھے۔ مغرب کی جانب سیر کرنے والوں کا کافی رش ہوتا۔

زیادہ تر نظر کی عینکیں لگائے بزرگ کیکر شیشم اور سکھ چین کی مسواک کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ پوتے پوتیوں کی باتیں کرتے ہی ملتے۔ لیکن آج ہارون جوگر اتار کر کسی ہارے ہوئے سپہ سالار کی طرح نہر کے پل پر بنی چھوٹی چھوٹی دیوار پر ہی بیٹھ گیا اور مجھے کہنے لگا باباجی آپ آج اکیلے ہی سیر کو جائیں۔ میں ادھر بیٹھ کر آپ کا انتظار کرتا ہوں۔ اب مشرق کی طرف ٹہلتی خواتین یا آنٹیوں کے ساتھ یا مغرب کی طرف کھانستے ہوئے بزرگوں کے ساتھ میں سیر کیسے کرتا۔

لہذا میں بھی ہارون کے ساتھ پل کی دیوار پر ہی بیٹھ گیا۔ ہم چپ چاپ بیٹھے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ کافی دیر خاموشی رہی آخر میں نے خاموشی کو توڑا۔ میں نے ہارون سے پوچھا۔ میں نے کہا ہارون جب سے ہم مسجد سے نکلے ہیں تم چپ اور پریشان لگ رہے ہو۔ پریشانی بتانے سے ختم نہ ہو تو کم ضرور ہو جاتی ہے۔ ہم تو ویسے بھی دوست ہیں۔ مجھے بتانے میں تمھیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، بتاؤ کیا مسئلہ ہے۔ ہارون کہنے لگا بابا جی آپ پتہ نہیں کیا سوچو گے۔

میں نے کہا کیا سوچوں گا مجھے پتہ ہے تم کمینے ہو۔ اس سے زیادہ کیا سوچ سکتا ہوں۔ میری بات پر ہارون نے کوئی خاص تاثر نہ دیا بلکہ ہلکا سا کہا سیم ٹو یو۔ میں نے کہا اچھا سیم ٹو یو کے بچے بتا کیا مسئلہ ہے۔ رات بھابھی سے لڑائی ہوئی ہے۔ جاب کا کوئی مسئلہ ہے۔ امی ابو نے کچھ کہا۔ ہوا کیا؟ تو وہ کہنے لگا۔ ”باباجی میری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ میری بیوی ہمیشہ اپنی ایک کزن کی بہت تعریف کرتی۔ ہمیشہ کہتی خدیجہ بہت خوبصورت ہے۔

خدیجہ میری بیوی کی خالہ کی بیٹی تھی۔ خدیجہ کا بھائی میرا ہم زلف تھا۔ میری شادی خاندان سے باہر ہوئی تھی اس لیے میں نے کبھی خدیجہ کو نہیں دیکھا تھا۔ یاشاید پہلے کبھی وہ سامنے آئی ہو تو میں نے اس کی طرف غور نہ کیا ہو۔ میری شادی کو چھ ماہ ہوئے تھے اور ان چھ ماہ میں کوئی چھ سو بار میرے سامنے میری بیوی نے خدیجہ کے حسن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے ہوں گے۔ کبھی کبھی اپنی بیوی کی زبان سے خدیجہ کی تعریف سن کر میں سوچ میں پڑ جاتا کہ اگر خدیجہ اس قدر خوبصورت ہے تو میری شادی خدیجہ سے کیوں نہ ہوئی اور پھر نئی نئی شادی کے لطف کے سامنے خدیجہ کا غائبانہ حسن ماند پڑجاتا۔

میں اپنی دلہن کے مہندی لگے ہاتھوں کی رعنائیوں میں کھو جاتا۔ دن بھر کی تھکی ہوئی میری بیوی اس دن حق زوجیت ادا کرنے کے بعد کروٹ لے کر جلدی سو گئی۔ مگر میں جاگ رہا تھا کہ اچانک مجھے خدیجہ کا خیال آگیا۔ میں نے اپنی بیوی کا موبائل اٹھا کر موبائل کی گیلری کی تصاویر دیکھنا شروع کردیا۔ میری انگلی جس سے میں تصویریں آگے کر رہا تھا اس وقت ساکت ہوگئی جب بیس بائیس سال کی ایک سبز سوٹ میں کناری والا دوپٹہ لیے تیکھے نقش و نگار والی بہت خوبصورت لڑکی کی تصویر میری آنکھوں کے سامنے آگئی۔

اتنی خوبصورت لڑکی؟ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ دیر تک میں اس تصویر کو دیکھتا رہا۔ پھر میں نے اپنی بیوی کے موبائل کی نمبروں والی لسٹ نکال لی۔ پتہ نہیں میرے دل میں کیا چل رہا تھا۔ حالانکہ میری بیوی کی محبت میں اس کے پیار میں کوئی کمی نہ تھی۔ بہرحال میں نے خدیجہ کا موبائل نمبر خدا بخش کے نام سے اپنے موبائل میں سیو کرلیا۔ وقت گزرتا گیا۔ ایک بار پھر خدیجہ کا خیال میرے دل سے نکل چکا تھا۔ میری بیوی امید سے تھی اور بضد تھی کہ ہمارا پہلا بچہ میرے میکے میں ہی پیدا ہوگا۔

لہذا میں نے بیوی کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور خدیجہ کو اپنے سسرال چھوڑ آیا۔ میری بیوی کو اپنے میکے گئے ہوئے تیسرا دن تھا جب اچانک رات کو مجھے خدیجہ کا خیال آیا اور میں نے خدیجہ کے نمبر پر ایک میسج کردیا۔ السلام وعلیکم۔ کوئی ایک گھنٹے بعد میسج کا جواب آیا جی وعلیکم السلام، کون؟ میں نے میسج میں ٹھیک ٹھیک اپنا نام اور پہچان بتا کر کہا، اپنی بیوی کی زبان سے ہمیشہ آپ کی تعریف سنی تو آج سوچا بات ہی کرلی جائے۔

جب میں نے اپنی حقیقی پہچان بتائی تو فوراً خدیجہ کا فون آگیا۔ میں نے کال اٹینڈ کی۔ خدیجہ نے کہا کیسے ہیں بھائی؟ میں نے کہا میں تو ٹھیک ہوں، بس آپ کے حسن بارے بہت سن رکھا ہے کہ آپ بہت خوبصورت ہیں۔ میری بیوی تو آپ کی تعریف کرتے تھکتی ہی نہیں۔ کیا آپ سچ مچ بہت خوبصورت ہیں؟ میرے اس سوال پر خدیجہ نے ہنستے ہوئے کہا بھائی کیسی باتیں کرتے ہیں۔ آپ کی بیوی میری سہیلی ہے بس اس لیے پیار کرتی ہے۔ میں نے کہا جی بس میں بھی غائبانہ آپ کے حسن کا دیوانہ ہوگیا ہوں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2