اپنی محبوب سڑک کی یاد میں


پانچ دریاؤں والے پنجند سے ذرا آگے جہاں سندھ، چناب کا ہاتھ پکڑتا ہے، سیت پور کا صدیوں پرانا قصبہ موجود ہے۔ تھوڑا آگے بڑھیں تو دو دریاؤں کے بازوئی حصار میں موضع سرکی ہے جو آدھا یہاں اور آدھا اندر ہے یعنی دریا برد ہو چکا ہے۔ پانیوں کی اسی آغوش میں ایک پرانی بستی ٹبہ برڑہ کی بھی ہے جس کا واحد سرکاری پرائمری سکول صدر ایوب خان کے عشرہ ترقی کی برکات کا ہم عصر و امین ہے۔ شاید یہ وہی دور تھا جب پڑھنے والے لکھا کرتے تھے اور لکھنے والے پڑھا کرتے تھے۔ اب تو جنہیں لکھنا چاہیے وہ پڑھ رہے ہیں اور جنہیں پڑھنا چاہیے وہ لکھ رہے ہیں۔

27 اپریل 2019 ء کے جاں ستاں موسم میں یہ میرے گاؤں کا دل ستاں منظر ہے، جسے عزیزم محسن رحیم برڑہ کے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا۔ زیر نظر تصویر میں سونے جیسی فصلوں کے درمیان جو سڑک آپ کو لیٹی نظر آ رہی ہے اسے اس گاؤں کی اولین سڑک ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اپنے ہوش سنبھالنے کے بعد جب میں امی اور ابو کے ساتھ پہلی مرتبہ گاؤں گیا تھا تو یہ سڑک بن رہی تھی یعنی تار کول بچھائی جا رہی تھی۔ سو تانگے والے نے ہمیں سڑک سے کچھ دور پہلے ہی راستے میں اتار دیا تھا۔ ہمیں درمیانی راستہ اختیار کرتے ہوئے فصلوں کے درمیان پگڈنڈیوں پر چل کر اپنے گھر جانا پڑا تھا۔

دریاؤں کی آڑی ترچھی سلوٹوں کے درمیان واقع میرے اس گاؤں کی یہ سڑک مجھے اس لئے بھی پیاری ہے کہ اس کے کنارے استادہ نیم اور ٹاہلی کے سایہ دار درختوں کی ماں سمان چھاؤں میں بیٹھ کر میں نے اچھے دنوں کے خواب بنے۔ تپتی دوپہروں میں اسی سڑک کے درختوں کے نیچے براجمان ہو کر استاد کا آموختہ دہرایا۔ دھمی ویلے اس سڑک کے کنارے لئی کے خود رو پودوں کے پتوں سے جھاڑو بنا کر اپنے چھپر سکول کی صفائی کی۔ ان درختوں کی چھاؤں سے ماں جیسی خوشبو اور سائے سے باپ جیسی فکر پھوٹتی تھی۔

آب و خاک کے مرقد میں سانس لیتی یہ سڑک مجھے اس لئے بھی محبوب ہے کہ اس کے نیچے گزرنے والے مائنر کی چھوٹی پلی کے اوپر دونوں اطراف سڑک پر موجود رکاوٹوں پر پیر رکھ کر میں نے پہلی بار سائیکل پر چڑھنا سیکھا اور اسی مہربان سڑک پر سائیکل چلانا سیکھی۔ اسی سڑک پر ہر صبح اور ہر شام بھائی جان کو وہیل چیئر پر بٹھا کر بادیہ پیمائی کے لئے لے جاتا تھا۔ اس سڑک کی منقبت ایک ایسا فرض ہے جس کا کفارہ نہیں۔

اب جبکہ وقت نے ہر تصویر بدل کر رکھ دی ہے، اس کے کونے مڑ گئے ہیں اور رنگ بھی بھورے ہونے لگے ہیں۔ اس منظر کے کچھ کرداروں کو کہولت نے آ لیا اور مجھ سمیت کچھ معدوم ہونے کا انتظار کھینچ رہے ہیں۔ یہ 1990 ء کی دہائی کے اولین بلیک اینڈ وائٹ لیکن روشن دنوں کی بات ہے۔ اس سڑک نے فاصلوں کو نیا مفہوم ہی عطا نہیں کیا تھا بلکہ یہ پہلی ترقی تھی جس سے گاؤں کے لوگ آشنا ہوئے تھے۔ سرکی اڈہ سے میرے گاؤں ٹبہ برڑہ جانے والی یہ سڑک صرف سڑک ہی نہیں بلکہ میری ہم عصر محبوبہ اور ہجر، فراق اور وصل کا روشن استعارہ ہے۔

تاریخ کی رنگینی اور وقت کی دھوپ چھاؤں کے باعث میرے لئے اس سڑک کی یاد اب اس پوسٹ کارڈ کی مانند ہے جس کے ایک طرف خوبصورت تصویر اور دوسری طرف اداس تحریر ہوا کرتی ہے۔ خوبصورت تصویر اس سڑک کے اختتام پر موجود قدیمی قبرستان کی ہے، جس میں والد محترم نسیم صاحب سمیت میرے پرکھوں کی قبریں ہیں اور اداس تحریر آس، امید سے بوجھل فضا اور مٹتے ہوئے نقوش کی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ دونوں طرف سرشاری، ہجر اور وصال کا رنگ بالکل ایک جیسا ہے۔ خوبصورتی اور شکست خوردگی کا یہ منفرد امتزاج مجھے اپنے بڑے بھائی اور استاد شبیر احمد ناز کی یاد دلاتا ہے جن کے اردگرد کی تلخی، ان کی لہجے کی مٹھاس پہ اثر انداز نہیں ہوتی تھی۔

اب بھی شام ڈھلے جب شام سلونے چرواہے میری اس محبوب سڑک پر اپنے ریوڑ کو ہانکتے گھروں کو لوٹتے ہوئے اپنی جادو ہنسی میں مٹھڑے فریدن یار کی کافی کی تانیں اڑاتے ہیں تو ان کی آواز کے ساتھ ساتھ جانوروں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی آواز، دھرتی اور دل دھرتی پر کھوئے ہوؤں کی جستجو اور سرود رفتہ کی مونجھ کی صورت گہری اداسی چھوڑ جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).