تحصیل حاصل پور، ضلع اوسلو


اوسلو میں جس پہلے پاکستانی سے ہمارا تعارف ہوا وہ تیس پینتیس سال کا ایک نوجوان تھا، ہنس مکھ اور خوش شکل، میرے پوچھنے سے پہلے ہی اُس نے بتادیا کہ اُس کا تعلق حاصل پور سے ہے، میں نے سوال کیا کہ ناروے میں کتنے سال ہو گئے، جواب دیاآتی سردیوں میں پندرہ سال ہو جائیں گے، میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ پھر حاصل پور تو پیچھے رہ گیا اب تو خود کو نارویجین کہو، اس کے چہرے سے اداسی کا ایک سایہ سا لہرا کر گزر گیا مگر اگلے ہی لمحے پھر و ہی دل موہ لینے والی مسکراہٹ واپس آگئی، بولا ”حاصل پور پیچھا نہیں چھوڑتا، اب بھی ہر سال پاکستان جاتا ہوں، دوستوں سے ملتا ہوں، میرا بس چلے تو حاصل پور اٹھا کر ناروے لے آؤں۔ “ اس ایک جملے میں پوری داستان پوشیدہ ہے، ہماری خواہشات کی، ہماری محبتوں کی، ہماری محرومیوں کی، ہماری خواہشوں کی اور ہماری بے بسی کی۔

یورپ کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں، پہلا سوال دماغ میں یہ آتا ہے کہ ایسا نظام پاکستا ن میں کیوں نہیں بن سکتا، ان لوگوں کے پاس آخر ایسا کون سا نسخہ ہے جو استعمال کرنے سے سب لوگ ٹھیک ٹھیک کام کرنے لگتے ہیں، انہیں کون سی دوائی پلائی جاتی ہے جو انہیں سسٹم کے اندر رہنا سکھاتی ہے۔ ہر قسم کی عالمی درجہ بندی میں یورپی ممالک باقی دنیا سے آگے ہیں اور ناروے یور پ میں سب سے آگے، ناروے نے اپنا نظام یوں بنایا ہے کہ ایک بات دوسرے سے جوڑ دی ہے۔

بچے کو پیدا ہوتے ہی ایک ذاتی نمبر دے دیا جاتا ہے جو اس کی تاریخ پیدائش کے علاوہ پانچ ہندسوں پر مشتمل ہوتا ہے، باقی تمام زندگی اسی ذاتی نمبر کے تحت گزاری جاتی ہے، اسکول، پاسپورٹ، لائسنس، قرضہ، نوکری، سب تفصیل اس نمبر میں فیڈ ہوتی رہتی ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں، پاکستان میں بھی شناختی کارڈ نمبر سے یہ کافی تفصیل نادرہ جیسے اداروں کے پاس مل جاتی ہے مگر اس سے مربوط نظام نہیں بنتا۔

ناروے کی ریاست نے صرف تفصیل جمع نہیں کی بلکہ اسے یوں استعمال کیا ہے کہ لوگوں کے لیے ایک فلاحی نظام وجود میں آ گیا، مثلاً ہر نارویجین بچے کے لیے تعلیمی وظیفہ ملتا ہے، ذہین یا لائق ہونے کی کوئی شرط نہیں، اگر وہ امتحانات میں اچھے نمبر لے تو اس وظیفے کا زیادہ تر حصہ معاف ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ محنت نہ کرے تو اُس صورت میں معاف نہیں ہوتا، جب وہ بچہ کہیں نوکری کرتا ہے تو حکومت کی طرف سے اُس کی کمپنی کو یہ اطلاع پہنچ جاتی ہے کہ تنخواہ میں سے پانچ یا دس فیصد کٹوتی کرکے اُس وظیفے کی مد میں جمع کروا دے، یہ تمام تفصیل اس ذاتی نمبر کے تحت جمع ہوتی رہتی ہے۔

یہ نظام پاکستان میں بنانا مشکل نہیں، طلباکے وظیفے کواُن کی تعلیمی کارکردگی سے جوڑ دیا جائے، اگر ایک مخصوص سطح سے نمبر کم آئیں تو مستقبل کی تنخواہ سے آسان اقساط میں وظیفہ وصول کرکے کسی اور مستحق بچے کو لگا دیا جائے۔ اسی طرح ناروے میں اگر کوئی بیمار ہو جائے تو ڈاکٹر مریض کا معائنہ کیے بغیر دوا نہیں دیتا، معائنے کے بعد ڈاکٹر اپنے کمپیوٹر میں مریض کا نمبر ڈالتا ہے، اس کی دوا لکھتا ہے اور کمپیوٹر رسید مریض کے حوالے کر دیتا ہے، اب پورے ناروے کی فارمیسی میں یہ اطلاع پہنچ گئی ہے کہ اِس مریض کو فلاں دوا چاہیے، مریض کسی بھی فارمیسی سے جا کر وہ دوا لے سکتا ہے، فارمیسی دوا پر ڈاکٹر اور مریض کا نام چسپاں کرکے مریض کے حوالے کردیتی ہے، کوئی دوسرا یہ استعمال نہیں کرسکتا۔

ایک آخری مثال ناروے کے پینشن سسٹم کی، ہر شخص کی آمدن پر ٹیکس تو ہر ملک میں ہے، پاکستان میں بھی ہے، ناروے نے مگر یہ کیا ہے کہ ٹیکس کو پینشن سے مشرو ط کر دیا ہے، ایک ملازم کی تنخواہ پر جتنا ٹیکس حکومت وصول کرتی ہے اسی شرح سے ریٹائرمنٹ کے وقت اُس کی پینشن مقرر کر دی جاتی ہے، سرکاری یا نجی نوکری سے کوئی فرق نہیں پڑتا، دونوں کو پینش ملتی ہے۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ کاروبار کرتے ہیں اور صرف اُس پر ٹیکس دیتے ہیں تو پھر پینشن کے حقدار نہیں البتہ بزنس میں اگر آپ اپنی تنخواہ مقرر کرکے اُس پر ٹیکس دیں تو پھر آپ کو اُس ٹیکس کی شرح کے مطابق اُس وقت پینشن ملے گی جب آپ اپنے کاروبار سے ریٹائرمنٹ ہو جائیں گے۔ یہاں دانش مند لوگ یہی کرتے ہیں، سکون سے پینشن وصول کرکے زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں، اپنے ہاں تو لوگ قبر میں جانے سے پہلے تک نوٹ گنتے رہتے ہیں، حالانکہ آپ کا پیسہ وہی ہے جو آپ کے ہاتھ سے خرچ ہو گیا، باقی آپ نے فقط کمایا ہوتا ہے، وہ پیسہ آپ کا نہیں ہوتا۔ ناروے کے نظام میں بظاہر تو کوئی خرابی نہیں مگر جو تفصیلات حکومت جمع کرکے شہریوں کو قانون کی پاسداری پر مجبور کررہی ہے اس کے نتیجے میں چھوٹے کاروباری ختم ہوتے جا رہے ہیں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہو رہی ہے جو ناروے کے مجموعی نظام انصاف کی روح کے منافی ہے۔

نارویجین لوگ صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں، سائیکل چلانے کا بہت شوق ہے، پہاڑوں پر پیدل بھاگتے ہوئے چڑھ جاتے ہیں، اونچائی والی جگہوں پر جاگنگ کرتے ہیں، ہر دوسری گاڑی کے اوپر اسکئینگ کا سامان لدا ہے، جونہی انہیں موقع ملتا ہے کھٹ سے گاڑی نکالتے ہیں اور اپنے خوبصورت پہاڑوں کی سیر کو نکل جاتے ہیں، کشتی رانی کے بھی دلدادہ ہیں، شاپنگ مالز میں بڑی بڑی کشتیاں برائے فروخت مل جاتی ہیں، اوسلو کے ساحل پر جا بجا کشتیاں یوں کھڑی نظر آتی ہیں جیسے کسی پلازے کے باہر گاڑیوں کی پارکنگ ہو۔

اوسلو دیگر یورپین شہروں سے کچھ مختلف ہے، یورپ کے ہر بڑے شہر میں ایک پر شکوہ گرجا گھر ہوتا ہے، شہر کے بیچ دریا بہتا ہے اور مرکز میں سیاحوں کی گہما گہمی ملتی ہے، اوسلو نسبتاً پر سکون ہے، آبادی کم ہے، چھوٹا سا ڈاؤن ٹاؤن ہے جو پیر سے جمعرات تک شام ڈھلے ہی سو جاتا ہے۔ مگر اوسلو سے باہر ناروے کے دو روپ ہیں، ایک روپ آپ کو جون جولائی میں اس راستے پر نظر آتا ہے جو گائیرینگر کی طرف جاتا ہے، یہ دنیا کے خوبصورت ترین راستوں میں سے ایک ہے، سڑک کے ساتھ جھیل، کہیں کہیں تیرتی برف اور پہاڑوں سے گرتے جھرنے، اگر کہیں رُک کر تصویر لیں تو یوں لگے گا جیسے جنت کی تصویر کشی کی ہے۔

دوسرا روپ، اگست /ستمبر میں اُس راستے پر نظر آتا ہے جو Rjukan یا Geilo کی طرف جاتا ہے، یہاں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ ناران کاغا ن کے راستے پر جا رہے ہوں، یہاں پاکستان اور ناروے کی خوبصورتی برابر ہو جاتی ہے، کئی جگہ تو یقین نہیں آیا کہ یہی وہ ناروے ہے جس کے قصیدے ہم پڑھتے ہیں۔

ناروے بلاشبہ دنیا کے چند خوبصورت ممالک میں سے ایک ہے مگرہم پاکستانی اس کی خوبصورتی کی وجہ سے نہیں اس کے نظام کی وجہ سے یہاں آتے ہیں، چاہتے ہم یہ ہیں کہ نظام پاکستان آ جائے ہمیں ناروے نہ جانا پڑے، یہ کام ذرا مشکل ہے اس لیے ہم حاصل پور سے اٹھ کر اوسلو آ جاتے ہیں اور پھر اُن گلیوں، محلوں اور راستوں کو یاد کر تے رہتے ہیں جہاں ہمارے حاسد رشتہ دار رہتے تھے، بے وفا محبوبہ تھی اور بے تکلف دوست تھے جن سے ہماری کوئی بات چھپی نہیں تھی۔ اوسلو میں سب کچھ ہے مگر حاصل پور نہیں، کاش میں اوسلو کو اٹھا کر حاصل پور لا سکتا!
ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ مضمون۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada