انڈیا پاکستان ٹرین سروس معطلل: آخری ٹرین کے مسافر واپسی کے لیے پریشان


محمد اکرم

اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ایسی صورتحال ہو گی تو ہم یہاں آتے ہی نہیں: محمد اکرم

’مجھے انڈیا واپس جانا ہے وہاں میرے بوڑھے والدین ہیں جنھیں میں سنبھالتا ہوں یہاں سے نکلنے کے لیے کوئی بھی میری مدد نہیں کر رہا ہے۔‘

یہ الفاظ ہیں محمد اکرم کے جو تھر ایکسپریس کے ذریعے کھوکھرا پار مونا باؤ سرحد سے پاکستان آئے تھے۔

انڈین حکومت کی جانب سے پانچ اگست کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد پاکستان نے تھر اور سمجھوتہ ایکسپریس دونوں کو ہی معطل کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

‘منقسم کشمیریوں کے لیے اچھی خبر’

’تیاری مکمل تھی پھر علم ہوا ٹرین جا ہی نہیں رہی`

سمجھوتہ ایکسپریس بحال، لائن آف کنٹرول پرکشیدگی

مسلم ہندو یاری بٹوارے پر بھاری

بچوں سے ملنے میں 26 برس کیوں لگ گئے؟

اس اچانک فیصلے سے دونوں ممالک کے درمیان سفر کرنے والے شہریوں کی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے اور انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے صوبے گجرات کے شہر گودھرا سے تعلق رکھنے والے محمد اکرم بھی انھی میں سے ایک ہیں۔

کراچی کا علاقہ گودھرا کیمپ انڈین ریاست گجرات کے شہر گودھرا سے آنے والے گجراتی کمیونٹی کے لوگوں نے آباد کیا تھا۔ یہاں پر گودھرا مسلم انجمن اور گودھرا مسلم ویلفیئر ایسوسی ایشن کے نام سے فلاحی تنظیمیں موجود ہیں جو لوگوں کو فلاحی خدمات فراہم کرتی ہیں۔

اس آبادی کا رجحان مذہب کی طرف زیادہ ہے اور لوگوں کی اکثریت تبلیغی و مذہبی جماعتوں سے وابستہ ہے۔

محمد اکرم کراچی میں اپنی خالہ سے ملنے آئے تھے جو گودھرا کیمپ کے علاقے میں رہتی ہیں مگر جس ٹرین میں وہ کراچی پہنچے وہ تعطل سے قبل آنے والی آخری ٹرین ثابت ہوئی۔

اکرم کا کہنا ہے کہ انھیں کراچی کا ہی ویزہ ملا تھا جس کے بعد وہ اپنے تمام رشتے داروں کے پاس گئے مگر اب وہ واپس جانا چاہتے ہیں۔

’میری والدہ، والد چارپائی پر ہیں، ان کا خیال کرنے والا اور کوئی نہیں ہے، میرے دیگر بھائی شادی شدہ ہیں وہ الگ رہتے ہیں۔ میرے ویزے کی معیاد پانچ ستمبر کو ختم ہو جائے گی۔ مجھے بس پاکستان سے انڈیا واپس جانا ہے۔‘

محمد اکرم کے مطابق جب وہ پاکستان پہنچے تو اس وقت انھیں کشیدگی کا علم ہوا۔ ’اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ایسی صورتحال ہو گی تو ہم یہاں آتے ہی نہیں۔‘

گودھرا مسلم انجمن

محمد اکرم پانچ افراد کے ہمراہ پاکستان آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی حکام اور انڈین ہائی کمشنر کوئی مدد نہیں کر رہا ہے، کوئی ہمیں بتا نہیں رہا کہ ہماری واپسی کیسے ہو گی‘۔

خدیجہ بی بی ہر سال ایک مہینہ پاکستان میں گزارتی ہیں۔ پاکستان میں ان کی پھوپھی اور خالہ رہتی ہیں، وہ غیر شادی شدہ ہیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا ’اگر واپس انڈیا نہیں جا سکے تو کیا ہوا پاکستان میں ہی رہ جائیں گے۔‘

گودھرا میں گجراتی کمیونٹی ریڑھی سے لے کر چھوٹے کاروبار سے وابستہ ہے۔ اکثر گھر دو یا ڈیڑھ کمرے پر مشتمل ہے۔

ایک ایسے ہی گھر میں افضا بی بی سے ملاقات ہوئی جو پہلی بار پاکستان آئی ہیں اور اس دورے کی وجہ ن کے ماموں کے گھر میں شادی کی تقریب بنی۔

افضا بی بی کے تین بچے ان کی واپسی کے منتظر ہیں جن کی عمریں نو سال سے تین سال کے درمیان ہیں۔

افضا بی بی

بوڑھی والدہ بچوں کو سنبھال رہی ہیں اب زیادہ وقت گزرنے سے انھیں دشواری ہو رہی ہے: افضا بی بی

ان کا کہنا ہے کہ ان کی بوڑھی والدہ بچوں کو سنبھال رہی ہیں اور اب زیادہ وقت گزرنے سے انھیں دشواری ہو رہی ہے۔

افضا کے شوہر رمضان بھی ان کے ہمراہ آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ٹرین میں 165 کے قریب لوگ آئے تھے سب ہی یہاں واپسی کے لیے پریشان ہیں۔

’وہاں سے نکلے تھے تو حالات نارمل تھے۔ بعد میں گاڑیاں بند ہو گئیں۔ ہم جس گاڑی میں آئے وہ آخری تھی اب یہاں سے کوئی جانے والی اور وہاں سے کوئی آنے والی گاڑی نہیں ہے۔‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگوں کے باوجود بھی کئی خاندان رشتے داریوں کو نبھاتے ہوئے آ رہے ہیں پھر چاہے کراچی کے مسلمان ہوں یا تھرپاکر، عمرکوٹ اور سانگھڑ کے ہندو خاندان۔

بٹوارے کے وقت دونوں ممالک کی ریاستوں خاص طور پر سندھ، راجستھان اور گجرات میں کئی خانداوں کا بھی بٹوراہ ہوا۔

آج بھی کئی لوگ اپنی جائے پیدائش، والدین کے گھر دیکھنے کی حسرت، شادی بیاہ کی تقریبات اور آخری رسومات میں شرکت کی خواہش رکھتے ہیں۔

افضا کے شوہر رمضان

افضا کے شوہر رمضان

پاکستان اور انڈیا میں کشیدگی کی وجہ سے یہ خاندان سماجی اور ثقافتی طور پر زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

پاکستان میں سرحدی اضلاع تھر پارکر، عمرکوٹ اور سانگھڑ کا ویزہ مل جاتا ہے تاہم انڈیا کی جانب سے باڑمر،بھج، جیسلمیر اور پالن پور کے ویزہ نہیں دیے جاتے۔ اس میں حالیہ اضافہ گودھرا گجرات کا ہے۔ کئی بار دو تین کلو میٹر کا فاصلہ 200 کلو میٹر کا سفر بن جاتا ہے۔

محمد الیاس کا ننھیال گودھرا گجرات میں ہے وہ گذشتہ چار سالوں سے وہاں نہیں جا سکے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ والدہ شادی کر کے یہاں کراچی آ گئیں جبکہ ان کے ماموں، خالہ اور چچا سب انڈیا میں ہیں۔ پاکستان میں ان کا کوئی نہیں صرف بہن بھائی ہیں۔

’ہمارے تعلقات سالوں سے ہیں۔ مل جل کر رہیں گے تو اچھی بات ہے دونوں ملکوں کی بنی رہے گی تو کاروبار بھی اچھا ہو گا۔‘

گودھرا کمیونٹی

یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان چلنے والی ٹرین سروس معطل ہوئی ہو۔

سمجھوتہ ایکسپریس شملہ معاہدے کی روشنی میں سنہ 1976 میں شروع کی گئی تھی اور پاکستان اور انڈیا میں کشیدگی اور اندرونی حالات کی وجہ سے کئی بار معطل ہو چکی ہے۔

سنہ 1980 کی دہائی میں انڈین پنجاب میں ایمرجنسی کی صورتحال کی وجہ سے اس کو عارضی طور پر معطل کیا گیا تھا۔

سنہ 2002 میں انڈین پارلیمان معطلی کی وجہ سے سمجھوتہ ایکسپریس بند رہی۔

اس کے علاوہ فروری سنہ 2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے، دسمبر سنہ 2007 میں بینظیر بھٹو کے قتل اور رواں سال فروری میں پلوامہ اور بالاکوٹ کے واقعات کے بعد بھی ریلوے سروس معطل کی گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32492 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp