آئل ٹینکرز پر حملے: ‘امریکہ کے سائبر حملے سے ایران کی صلاحیت کو نقصان پہنچا’


ایرانی پاسدارانِ انقلاب کا گشت

اطلاعات کے مطابق امریکی حکومت کے لیے کام کرنے والے ہیکرز نے ایران کی جانب سے خلیج فارس میں سفر کرنے والے تیل بردار بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی میں استعمال ہونے والے کمپیوٹر سسٹمز کو نقصان پہنچایا ہے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی خبر میں سینیئر امریکی حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ کارروائی رواں برس جون میں اس دن کی گئی تھی صدر ٹرمپ نے ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرائے جانے کے جواب میں جوابی فضائی حملہ کرنے کا حکم واپس لے لیا تھا۔

اخبار کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ جون میں ہونے والے ایک خفیہ سائبر حملے کے نتیجے میں اس اہم ڈیٹابیس کا صفایا کر دیا گیا جسے ایران کا نیم فوجی دستہ آئل ٹینکرز پر حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا امریکہ ایران کے ساتھ جنگ کرنے جا رہا ہے؟

’ایرانی جہازوں نے امریکی جہاز کو راستہ بدلنے پر مجبور کیا‘

ایران پر پابندیوں سے استثنیٰ کی یورپی درخواست مسترد

حکام کے مطابق اس کارروائی سے ایران کی خفیہ طور پر خلیج فارس میں بحری آمدورفت کو خفیہ طور پر نشانہ بنانے کی صلاحیت میں کمی آئی ہے۔

نیویارک ٹائمز کا حوالہ دیتے ہوئے امریکہ میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار پیٹر بویس کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے مطابق حملے کے بعد اب تک ایران اپنے ڈیٹابیس کی بازیابی اور متاثرہ کمپیوٹر سسٹمز دوبارہ چلانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

خیال رہے کہ خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے علاقے میں رواں برس تیل بردار بحری جہازوں کو نشانہ بنانے یا سبوتاژ کرنے کے کئی واقعات پیش آئے ہیں جن کے لیے امریکہ ایران کو ذمہ دار ٹھہراتا رہا ہے تاہم ایران ایسے الزامات سے انکار کرتا رہا ہے۔

ایران امریکہ مذاکرات

دوسری طرف امریکی سیکریٹری دفاع مارک ایسپر نے ایران پر زور دیا ہے کہ اسے خلیج فارس میں بین الاقوامی کشیدگی کم کرنے کے لیے واشنگٹن سے بات چیت کرنا ہو گی۔

پینٹاگون میں ایک پریس کانفرنس میں مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ ’ہم ایران سے تنازع نہیں چاہتے۔ ہم ان سے سفارتی سطح پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔‘

مارک ایسپر

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’صدر (ٹرمپ) نے ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ ایرانی رہنماؤں سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ایرانی ہم سے ملنے اور بات کرنے پر رضامند ہوں گے تاکہ ہم یہ مسئلہ حل کر سکیں۔‘

خیال رہے کہ رواں ہفتے فرانس میں جی سیون سرہراہی اجلاس میں صدر ٹرمپ نے، جن کی حکومت نے ایران پر مزید بین الاقوامی دباؤ کی حکمت عملی اپنائی ہے، کہا تھا کہ وہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے اگلے چند ہفتوں میں ایران کے صدر حسن روحانی سے صحیح وقت پر ملنا چاہیں گے۔

تاہم ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے، جنھوں نے اسی دوران فرانس کا ایک مختصر اور غیر اعلانیہ دورہ کیا تھا، اس بیان پر اپنے ردعمل میں کہا کہ اگر امریکہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے میں واپس بھی آ جائے تب بھی ایرانی اور امریکی صدور کے مابین ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔

ایران کی پالیسی پر موجودہ امریکی صدر اپنے پیشرو براک اوباما سے اختلاف رکھتے آئے ہیں۔ گذشتہ برس امریکہ نے یکطرفہ طور پر سنہ 2015 میں ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔

تاہم صدر ٹرمپ نے پیر کو کہا کہ وہ ایران کے ساتھ نئے جوہری معاہدے کے لیے پر امید ہیں۔

سنہ 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد ایران کے افزودہ کیے گئے یورینیئم کی ایک حد مقرر کی گئی تھی۔ جس کے بدلے میں کچھ پابندیاں ختم کی گئی تھیں اور ایران تیل کی برآمد کر سکتا تھا جو ایرانی حکومت کا بڑا ذریعہ آمدن ہے۔

لیکن امریکہ نے یہ معاہدہ سنہ 2018 میں ختم کر دیا اور پابندیاں پھر سے عائد کر دیں۔ اس کی وجہ سے ایران میں معاشی بحران آیا، اس کی کرنسی ریکارڈ حد تک گر گئی اور وہاں سے غیر ملکی سرمایہ کار بھی دور ہوئے۔

امریکہ ایران

اس کے ردعمل میں ایران نے جوہری معاہدے کے تحت کیے وعدوں سے ہٹنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

آپریشن سینٹینل

گذشتہ کچھ ماہ سے خلیج فارس میں ایران کی جانب سے تیل کے ٹینکر ضبط کرنے سے بین الاقوامی تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ برطانیہ نے جبرالٹر کے مقام پر ایک ایرانی آئل ٹینکر ضبط کیا تھا۔

اسی کے ساتھ امریکہ نے خلیج فارس میں تجارتی جہازرانی کی صنعت کی حفاظت کے لیے ’آپریشن سینٹینل‘ کا اعلان کیا تھا۔

اپنی گفتگو میں مارک ایسپر نے بتایا کہ ’آپریشن سینٹینل کا آغاز ہو چکا ہے جس میں برطانیہ، آسٹریلیا اور بحرین ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ مزید ملک اس آپریشن میں شامل ہوں گے اور خطے میں امن لانے کے لیے یہ مددگار ثابت ہو گا۔

’خطے میں ہماری، ہمارے دوست ممالک اور دیگر ساتھیوں کی موجودگی سے اب تک مزید اشتعال انگیز رویہ روکا گیا ہے۔‘

امریکی سیکریٹری دفاع کے مطابق وہ ایران سے بات کرنا چاہتے ہیں اور سفارتی راستے سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ’مجھے نہیں لگتا ابھی بحران ٹل گیا ہے۔ لیکن ابھی تک سب ٹھیک چل رہا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp