کشمیر کی تازہ ترین صورتحال: سرینگر میں پبلک ٹرانسپورٹ ناپید، پیلٹ گن کا شکار 72 سالہ محمد صدیق کی کہانی


سرینگر

سری نگر کی مرکزی شاہراہوں پر پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وادی میں کرفیو کا آج 25واں دن ہے۔

کشمیر کی صورتحال پر بی بی سی کے خصوصی پروگرام نیم روز میں گفتگو کرتے ہوئے نامہ نگار عامر پیرزادہ نے بتایا کہ بہت سے علاقوں میں تعینات سکیورٹی اہلکاروں کو ہٹا دیا گیا ہے تاہم پرانے سری نگر میں سکیورٹی فورسز ابھی بھی تعینات ہیں۔

سڑکوں سے رکاوٹیں بھی ہٹا دی گئی ہیں اور ٹریفک کو چلنے کی اجازت ہے لیکن دکانیں اور پبلک ٹرانسپورٹ اب بھی بند ہیں۔

نامہ نگار کے مطابق انھوں نے سرینگر ٹرانسپورٹ کے انچارچ سے ملاقات کی اور پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں پر نہ آنے کی وجوہات معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ٹرانسپورٹ انچارچ نے بتایا کہ کسی بھی احتجاج کی صورت میں سب سے پہلے پبلک ٹرانسپورٹ زد میں آتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سرینگر کا نواحی علاقہ صورہ: کشمیری مزاحمت کا نیا مرکز

’کشمیر کے ہر تھانے میں ہمارے بچے قید ہیں‘

کشمیر: ’ایسی خبریں ملتی ہیں کہ نیند نہیں آتی‘

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ چار اگست کو ان کی گاڑیاں کشمیر کے مختلف علاقوں میں لوگوں کو لے کر گئیں تھیں تاہم انھیں ابھی تک علم نہیں کہ ان کی بسیں کہاں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سری نگر سے کشمیر کی مختلف ڈسٹرکٹ میں تقریباً 700 بسیں چلائی جاتی ہیں جن میں سے ان کے پاس صرف 100 بسوں کی معلومات ہیں جبکہ 600 کے بارے میں وہ نہیں جانتے معلومات کیونکہ ذرائع مواصلات پر پابندی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک اپنی بسوں کو سڑکوں پر نہیں لائیں گے جب تک حالات معمول پر نہں آ جاتے۔

کشمیر

اس وقت صرف نجی گاڑیاں ہی سڑکوں پر نظر آتی ہیں

نامہ نگار عامر پیرزادہ نے بتایا کہ انھوں نے کچھ تاجروں اور دکانداروں سے بھی ملاقات کی ہے اور پوچھا کہ وہ دکانیں کیوں نہیں کھول رہے۔ جس کے جواب میں دکانداروں نے کہا کہ حالات کہاں معمول پر ہیں، کیونکہ موبائل فون اور انٹرنیٹ تو ابھی بھی بند ہیں۔

دکانداوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب تک سیاسی قائدین قید سے باہر نہیں آ جاتے تب تک کوئی ایکشن نہیں لیا جا سکتا۔

سیاسی قائدین اور رہنماؤں کے انتظامیہ سے کسی معائدے کے حوالے سے گردش کرنے والی خبروں کے بارے میں عامر پیرزادہ نے بتایا کہ حکومت اور مقامی انتظامیہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ جب قید میں موجود سیاسی قائدین کو رہا کیا جائے گا تو پھر کیا ہو گا کیونکہ اس کے بعد افراتفری کے امکانات زیادہ ہیں۔ تاہم انھوں نے کسی معائدے کی تصدیق نہیں کی ہے۔

عامر پیرزادہ کے مطابق پہلے کشمیر میں حالات کشیدہ ہونے پر سیاسی قائدین کے زریعے حالات کو معمول پر لایا جاتا تھا لیکن اس بار تو سیاسی قائدین ہی قید میں ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ حالات کہاں جا رہے ہیں، سب ڈرے ہوئے ہیں اور کوئی کسی قسم کو کوئی رسک نہیں لینا چاہتا۔

تعلیمی اداروں کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے نامہ نگار نے بتایا کہ حکومت نے سکولوں کو کھولنے کا حکم تو دیا تھا لیکن زمینی حقائق کے مطابق کوئی بھی سکول نہیں کھلا، کچھ سکول مکمل بند ہیں تو کسی سکول میں صرف اساتذہ ہیں۔ بچے سکول نہیں آ رہے ہیں کیونکہ کوئی بھی والدین رسک نہیں لینا چاہتے۔

ہسپتالوں کے بارے میں عامر پیرزادہ نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے تک زیادہ تر ہسپتالوں میں کوئی لینڈ لائن کام نہیں کر رہی تھی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ذرائع مواصلات کی بحالی تک حالات کے معمعول پر آنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔


’انڈین فوجی نے تین بار مجھ پر پیلٹ گن چلائی‘

دوسری جانب انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں مسجد سے نماز پڑھ کر واپس آنے والے 72 سالہ دکاندار محمد صدیق نے نامہ نگار ریاض مسرور کو بتایا کہ وہ اگست کی دوپہر سرینگر کی پرانی مسجد سے نماز پڑھ کر نکلے تو ایک انڈین فوجی نے تین بار پیلٹ گن چلائی اور وہ زخمی ہو گئے۔

محمد صدیق کے مطابق انڈین فوجی نے بغیر کسی لڑائی کے پیلٹ گن کے شیل فائر کیے، محمد صدیق کا کہنا تھا کہ اس وقت وہاں آٹھ یا نو افراد جن میں بچے بھی شامل تھے، موجود تھے۔

محمد صدیق کے مطابق ان بچوں کی ماؤں نے کہا کہ نہ کوئی جھگڑا ہے، نہ کچھ ہے پھر بھی انڈین فوجی نے پیلٹ گن لگائی ہوئی ہے۔

محمد صدیق نے بتایا جب وہ زخمی ہوئے تو کچھ لڑکے انھیں گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ انتہائی کھٹن وقت تھا، راستے میں ہر جگہ رکاوٹیں تھی۔ ہسپتال پہنچنے تک انھیں پانچ دس بار روکا گیا۔

’محمد صدیق کا کہنا ہے ’ہم بوڑھوں اور بچوں نے کیا کیا ہے۔ یہ غلط بات ہے۔ ہم کمزور ہیں مگر ہماری طرف اللہ ہے، کمزروں کے پاس طاقت نہیں ہوتی لیکن ان کے پاس اللہ کی طاقت ہوتی ہے۔‘


’عسکریت پسند انٹرنیٹ اور موبائل فون کا غلط استعمال کرتے ہیں‘

دوسری جانب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے گورنر ستیا پال ملک نے گذشتہ روز پریس کانفرنس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیریوں کی تہذیب، ان کی شناخت اور ان کے مذہب کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔

ستیا پال ملک نے اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی کہ کشمیریوں کی تہذیب، مذہب اور شناخت نہ صرف مخفوظ ہیں بلکہ اب کشمیر میں ترقی اور روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کیے جائیں گے۔

https://twitter.com/ANI/status/1166689733696790529

انھوں نے اس موقع پر کشمیریوں کے لیے 50 ہزار نوکریوں اور بارا مولا میں میڈیکل کالج کے قیام کا اعلان بھی کیا۔

نامہ نگار ریاض مسرور نے بتایا کہ جب گورنر سے وادی کے حالات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بندشیں اور گرفتاریاں احتیاطاً عمل میں لائی گئی ہیں، جنھیں آہستہ آہستہ حالات میں بہتری دیکھتے ہوئے نرم کیا جائے گا۔

ریاض مسرور کے مطابق ذرائع مواصلات کی بندش کے حوالے سے سوالات کا جواب دیتے ہوئے گورنر نے کہا کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند انٹرنیٹ اور موبائل فون کا غلط استعمال کر کے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ ساری پابندیاں ہیں۔

تاہم ستیا پال ملک کے مطابق انتظامیہ حالات پر متواتر نظر رکھے ہوئے ہے اور جن علاقوں میں حالات بہتر ہوں گے وہاں مرحلہ وار فون سروس اور انٹرنیٹ سروس کو بحال کر دیا جائے گا۔

سرینگر

جب گورنر سے وادی کے حالات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بندشیں اور گرفتاریاں احتیاطاً عمل میں لائی گئی ہیں، جنھیں آہستہ آہستہ حالات میں بہتری دیکھتے ہوئے نرم کیا جائے گا

سپریم کورٹ میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے معاملے کی سماعت اور اس پر ردعمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے ریاض مسرور نے بتایا کہ مقامی لوگوں میں اس بارے میں ہلکا سا اطمینان اور امید پایا جاتا ہے لیکن خدشات پھر بھی موجود ہیں۔

واضح رہے کہ انڈیا کی سپریم کورٹ نے بدھ کے روز کہا ہے کہ عدالت اس معاملے کو سننا چاہتی ہے لیکن اس کی سماعت پانچ رکنی بینچ اکتوبر میں کرے گا۔

نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق وادی میں سیاسی قیادت کو قید میں رکھنے کے سوال پر گورنر ستیا پال ملک نے کہا ہے کہ انھیں احتیاطی طور پر ان کے گھروں کے انتہائی قریب ہی نظربند کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp