واٹس ایپ: آپ کا عدالتی شریکِ کار


مملکتِ خداداد یعنی کہ ارضِ پاکستان روزِ اوّل ہی سے بدخواہوں کی نظر میں کانٹے کی مانند کھٹکتی چلی آئی ہے۔ دشمنانِ پاکستان کی بھرپور مخالفت کے باوجود قیامِ پاکستان کا خواب اپنی تعبیر سے ہمکنار ہوا۔ مخالفین کا بس یہاں تو نہ چل پایا، مگر مخاصمت دل سے دور نہ ہوئی۔ مملکتِ پاکستان کی روز افزوں ترقی دیکھ کراب بھی ان کے سینے پر سانپ لوٹتے ہیں۔ اپنا بغض و کینہ دل میں دبائے رہتے ہیں۔ مگر جیسے ہی پاکستان ترقی کی راہ پر ایک قدم بھی آگے بڑھاتا نظر آتا ہے، ان بدباطنوں سے یہ کامیابی ہضم نہیں ہو پاتی اور ان کا خبثِ باطن بے جا تنقید کی صورت میں ہویدا ہونے لگتا ہے۔

آج کا دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا نے دنیا کا چہرا بدل کر رکھ دیا ہے۔ فور جی سے آگے بڑھ کر دنیا فائیو جی ٹیکنالوجی کی دوڑ میں لگی ہے۔ ای کامرس نے کاروبار کے طور طریقے بدل دیے ہیں۔ ہر ٹرانزیکشن چند کلِکس کی دوری پر ہے۔ ای گورننسس اور ای لرننگ، کے اچھوتے آئیڈیاز نے دنیا بدل کر رکھ دی ہے۔ اشیائے ضرورت کی خرید و فروخت ای کامرس پورٹلز اور موبئل ایپس کے ذریعے ہو رہی ہے۔

کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر گاڑی تک کی خریداری آئن لائن کی جارہی ہے۔ عدلیہ نے انصاف کی فوری فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مقدمات کی ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت کا جدید طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ ایسے میں اگر کسی جج کو اس کے تبادلے کے احکامات واٹس ایپ کے ذریعے موصول ہو گئے تو کیا قیامت ٹوٹ پڑی؟ کیا یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں ترقی کی جانب ایک اور قدم نہیں؟ فوری اور سستے انصاف کے حصول کی خاطرٹیکنالوجی کے استعمال میں آخر کیا قباحت ہے؟

ان بدخواہوں کو پاکستان کی ترقّی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ یہ پاکستان کو پتھر کے دور میں واپس گھسیٹ لے جانا چاہتے ہیں۔ کبھی ٹویٹرپر مشیروں کی تقرری و برطرفی کا مذاق بناتے ہیں اور کبھی واٹس ایپ پر ججوں کے تبادلے پر واویلا مچاتے ہیں۔ دراصل ان لوگوں کو پاکستان کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی، مگر اپنا بغض چھپانے کی خاطر اس بہانے کی آڑ لیتے ہیں کہ جج کو دورانِ سماعت اچانک کیوں تبدیل کیا گیا؟

ہمارے وزیرِاعظم آغاز ہی سے اس امر کا اظہار کرتے آ رہے ہیں کہ افراد نہیں ادارے اہم ہوا کرتے ہیں۔ اس نادان قوم کو مثالیں دے دے کر سمجھاتے رہے ہیں کہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دنوں میں عین جنگ کے دوران جرنیل تبدیل کیے جاتے رہے ہیں۔ کوئی ان بدباطنوں سے پوچھے کہ اگر عالمی جنگوں کے دوران جرنیل تبدیل ہو سکتے ہیں تو دورانِ سماعت جج کیوں تبدیل نہیں کیا جا سکتا؟

کبھی توسیع پر اعتراض ہے تو کبھی تبادلے پر۔ کبھی تبدیلی پر اعتراض ہے تو کبھی احتساب کے عمل پر۔ کبھی نئے پاکستان پر اعتراض ہے تو کبھی ریاستِ مدینہ کے خواب پر۔ یعنی ان لوگوں سے اور تو کچھ بِن پڑتا نہیں، بس اعتراض در اعتراض کا ایک سلسلہ ہے جو کہ زلفِ جاناں کی مانند دراز تر ہوا چلا جاتا ہے۔ ذرا سوچیے تو سماعت تھی بھی کس کے مقدمے کی؟ ایک سرٹیفائیڈ مافیا کے کارندے کا مقدمہ۔ جس مافیا کی جانب سے دورانِ سماعت منصفوں کو بلیک میل کرنے کے شواہد ساری قوم کی آنکھوں کے سامنے آ چکے ہیں۔

ان کے مقدمات کی سماعت کے دوران ججوں کی مسلسل تبدیلی دانشمندی کا تقاضا بھی ہے کہ جیسے ہی کوئی جج ان کے نرغے میں آنے لگے، اس کے تبادلے کے احکامات آ جائیں اوراس مافیا کو اپنا داؤ کھیلنے کا موقع میّسر نہ آ سکے۔ یاد رہے کہ کوئی مضبوط ادارہ اپنی معمول کی سرگرمیوں کی ادائیگی کے لیے کسی فردِ واحد کا محتاج نہیں ہوا کرتا۔ کسی کے تقرّر و تبادلے سے فراہمیء انصاف کے عمل میں خلل نہیں آ سکتا۔ احتساب کا پہیہ رکنے والا نہیں اور نہ ہی کسی کو این آر او ملے گا۔

کپتان جب دل میں کچھ ٹھان لیتا ہے تو فطرت کی سب قوّتیں یکجا ہو کر اس مقصد کی برآوری کے لیے سرگرم ہو جایا کرتی ہیں۔ یہی قانونِ قدرت ہے۔ بہتر ہے کہ آپ اپنی توانائی منفی مقاصد میں استعمال کر کے ضائع کرنے کی بجائے اسے ہر جمعہ آدھ گھنٹا کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے وظیفے کی بجا آوری میں استعمال کریں۔ بلکہ اگر ہمّت کر کے وظیفے کا دورانیہ ایک گھنٹے تک طویل کر لیں تو فلسطین کی آزادی بھی بعید از قیاس نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).