گلگت بلتستان جہاں قلم پابند اور بندوق آزاد ہے


ویسے تو ہم جیسے تلاش معاش میں غریب الوطن ہونے والے گھر سے دور ہی رہتے ہیں مگر سالانہ چھٹیوں پر پہاڑوں کی یاترا زندگی کے معمول کا حصہ رہی ہے۔ چھٹیوں کے دوران سال بھر میں ہوئی دائمی جدائیوں کی تعزیتوں، دنیا میں نئے آنے والوں کی مبارکبادوں اور عزیز و اقارب سے میل ملاقاتوں کے بعد جو وقت بچتا ہے اسے کسی پہاڑ دیوتا کی آغوش میں گزارنے کی کوشش ہوتی ہے۔

کوہ پامیر میں واقع قرمبر کی جھیل سے نکلتے دریا ہنہ سارا کے کنارے میرے وطن میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ جگہ جگہ سکولوں کو جاتے رنگے برنگے لباسوں میں ملبوس بچوں کی قطاریں دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ کوئی دور افتادہ دیہاتوں کا منظر ہے بلکہ پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی خاص پوش علاقوں کا گمان ہوتا ہے۔ مگر بوڑھے والدین اب چھڑی ہاتھ میں لئے بھیڑ بکریاں اور گائے بیل ہانکتے بھی نظر آتے ہیں جو پہلے پوتے پوتیوں کا کام ہوا کرتا تھا۔ بازار بڑے ہو گئے ہیں اور دکانوں میں مختلف برانڈ کی مصنوعات دستیاب ہیں۔ گھر میں مہمانوں کی تواضع اب روایتی مکھن، چائے، لسی کے بجائے کالے، پیلے، سرخ و سبز مشروبات سے ہوتی ہے۔

مٹی اور کالے پتھروں سے بنے گھرمعدوم ہوتے جارہے ہیں ان کی جگہ اب آر سی سی اور مختلف ڈیزائن میں بنی پکوڑا چھتوں کے مکان نظر آتے ہیں جن کی اندر ہر قسم کی سہولیات سے آراستہ کمرے، باتھ روم اور کیچن دیکھ کر نہیں لگتا کہ ان گھروں کے مکین ملک کی سب سے کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ چونکہ یہاں شرح خواندگی بہتر ہے جس کی وجہ سے معیار زندگی میں اچھی رہن سہن شامل ہوچکی ہے وگرنہ بڑے بڑے دولتمند سمگلروں اور زمینداروں کے ہاں بھی ایسی طرز رہائش نظر نہیں آتی۔

شرح خواندگی کے ساتھ لوگوں کے فکر و شعور میں بھی نمایاں تبدیلی نظر آئی ہے۔ جن باتوں کو میشت خداوندی سمجھ کر شکر آدا کیا جاتا تھا اب سوال اٹھایا جاتا ہے۔ معیار زندگی کو بہتر بنانے اور اس کو قائم رکھنے کے لئے مقابلہ بھی کٹھن سے کٹھن تر مگر مواقع کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔ سرکاری شعبے میں نوکریوں اور کاروبار کی ریوڑیاں سیاسی وابستگیوں کے نام پر قبائلی، لسانی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر بانٹی جاتی ہیں اور نجی شعبہ یہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ذاتی کاروبار سرمائے کا متقاضی ہے جس کی فروانی یہاں ناپید ہے۔ بازار میں کھوٹا مال اور جعلی مصنوعات کو ارزاں نرخوں میں بیچ کر زیادہ منافع کمانے والے گروہ قابض ہیں جن کی پشت پناہی کرنے والے بشام سے یہاں تک بیسیوں چیک پوسٹوں پر جامہ تلاشی کے باوجود ان کو ڈھونڈ نہیں پاتے۔

مذہبی سیاسی تنظیموں کی بنیاد پرستی اور فرقہ پرستی ایک طرف یہاں کے نوجوان جمہوری سیاسی پارٹیوں کے اندر چھپی فرقہ واریت کو بھی خوب سمجھتے ہیں۔ ان ہی نوجوانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کی بدولت جب اختیارات اور وسائل دستیاب ہوتے ہیں تو قابض وہ ہوتے ہیں جو ان کے حصول کے لئے کوشش کرنے والوں کو غدار اور ملک دشمن قرار دے کر مخبریاں کر رہے ہوتے تھے۔ سیاسی جماعتوں کو جب سیاسی کارکنوں کو آگے لانے کا موقع ملتا ہے تو گرفتاریوں، ڈنڈوں اور جیلوں کی صعوبتیں جھیلنے والے کہیں اور رہ جاتے ہیں ان کی جگہ لاہور، لاڑکانہ، بنی گالہ، راولپنڈی اور جوٹیال کی پرچی والے آگے ہوتے ہیں۔ اس مایوسی کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دیس میں اب مفاد پرستوں اور موقع پرستوں کے علاوہ کوئی صاحب شعور اور خرد مند سیاسی کارکن وفاقی سیاسی تنظیموں سے وابستہ نہیں ہونا چاہتا۔

ریاستی ادارے لوگوں کی ریاست پر عدم اعتماد اور مایوسی کی وجوہات تلاش کرنے کے بجائے دیواروں پر ملک سے محبت کے رنگ برنگ خوش نما نعرے لکھوا کر حب الوطنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو کہیں کسی کو ایک مخصوص ٹوپی پہنا کر اور کسی کے ہاتھ میں جھنڈی تھما کر وفادار بنانے کی سعی کر رہے ہیں۔ مگرحسن، عقل، فہم و شعور شاید خریدا اور بیچا نہیں جاسکتا ورنہ ہر دولتمند حسین، عقلمد اور باشعور بھی ہوتا۔ نہ ہی وفاداری اور محبت کسی پر زبردستی ٹھونسی جا سکتی ہے ورنہ ہر محکوم اور غلام وفادار ہوتا اور دنیا میں کبھی بغاوت نہ ہو پاتی۔

گلگت بلتستان میں بھی جموں و کشمیر کے دیگر حصوں کی طرح حق ملکیت اور شہریت کا ایک خاص قانون نافذ تھا جس کو سٹیٹ سبجیکٹ رول کہا جاتا ہے۔ اس قانون کو حال ہی میں ہندوستان نے اپنے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ختم کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ ایک ماہ سے ہنگامی حالات کا سامنا ہے، بات اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل تک جا پہنچی ہے اور پاکستان اور بھارت کے بیچ ایٹمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اس قانون کو گلگت بلتستان میں 1960 ء سے بھی پہلے معطل کیا گیا ہے جس پر یہاں کے باشندوں کو شدید تحفظات ہیں۔ کہیں سرحدی حدود کی خلاف ورزی سے عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے تو کہیں چین سے ملانے والی شاہراہ کی توسیع کے لئے لی گئی زمین کا معاوضہ ایک دہائی گزرنے کے بعد بھی نہ مل سکا ہے اور نوبت زمین مالکان کے فاقوں تک آچکی ہے۔ مگر ان باتوں کے خلاف بولنا بغاوت اور غداری کے زمرے میں آتا ہے۔

حکومت پاکستان نے ملک میں دہشت گردی کے قلع قمع کے لئے انسداد دہشت گردی کا ایک قانون بنایا ہے جس کا نفاذ گلگت بلتستان میں ہوتا ہے۔ مگر یہاں اس قانون کا اطلاق سب سے زیادہ سیاسی کارکنان اور لکھنے والوں پر دیکھا گیا۔ کئی سیاسی کارکن اس قانون کے تحت جیلوں میں بند ہیں اور بہت سوں کو مقدمات کا سامنا ہے۔ اس قانون کے شیڈول 4 کے تحت تمام ایسے لوگ جو عامتہ الناس کو فساد پر اکساتے ہیں ان کی نقل و حرکت پر حکومت کو پابندی لگانے کا اختیار ہے۔ شاید اس قانون کے بنانے والوں کے ذہن میں دہشت گردی کے لئے مذہبی منافرت پھیلانے والے عناصر رہے ہوں مگر گلگت بلتستان میں اس قانون کا 16 ایم پی او کی طرح سیاسی کارکنان، لکھنے اور بولنے والوں کے خلاف بے دریغ ستعمال کیا جاتا ہے۔ ایک مربوط آئینی عدالتی نظام کی غیر موجودگی میں کسی بھی ریاستی اور حکومتی جبر کی صورت میں داد رسی بھی ممکن نہیں جس کی وجہ سے خاموشی کی ایک ایسی فضا پیدا ہو چکی ہے جس کے اندر ایک طوفان چھپا ہے۔ بادی النظر میں شیڈول 4 کے ذریعے لکھنے والے ہاتھوں اور بولتی زبانوں پر چپ کی مہر لگا دی گئی ہے مگر ذہنوں اور دلوں میں مچلتا طوفان لوگوں کے چہروں پر بخوبی دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔

یوں وطن میں کچھ دن گزار کر واپسی کا قصد کیا تو پتہ چلا کہ بابوسر اور چلاس کے درمیان واقع تھک کے مقام پرایک مجاہد کمانڈر نے شاہراہ پر مسافروں پر آنے جانے کی پابندی عائد کردی ہے۔ دوسرے روز صبح جب شاہراہ کو واہ گزار کرنے کی خوشخبری ملی تو شکرانے کی دعاؤں کے ساتھ سفر کا آغاز ممکن ہو سکا۔

سفر کے دوران اس مقام سے گزرتے ہوئے واقعہ کے بارے میں معلومات لینے پر پتہ چلا کہ یہاں غیرت کے نام پر ہونے والی قتل کی ایک واردات میں جب پولیس تحقیقات کرنے پہنچی تو موصوف کمانڈر بھی تشریف فرما تھے۔ ایک پولیس آفیسر نے فرض شناسی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کمانڈر کی بندوق چھینی جس کے دوران اول الذکر کے ہاتھ پر زخم بھی آیا۔ کمانڈر نے ایک گرنیڈ پھینکا اور موقع سے فرار ہو کر اپنے دیگر ساتھیوں اور حامیوں کو جمع کر کے سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ کمانڈر اور اس کے دیگر ساتھیوں کا مطالبہ تھا کہ چونکہ حکومت کے ساتھ ان کا امن کا معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت ان کو تحفظ حاصل ہے اس لئے ان کی بندوق واپس کی دی جائے اور ان سے معافی مانگ کر آئندہ ایسی جسارت نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی جائے۔

صبح نو بجے پیش آنے والے اس واقعہ کے نتیجے میں دن بھر سڑک کی بندش کے بعد رات گئے مذاکرات میں بندوق کی واپسی اور کمانڈر کی آزادانہ نقل و حرکت کی یقین دہانی کے بعد مسافروں کو بھی یہاں سے گزرنے کی اجازت ملی تو میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ انسداد دہشت گردی کے قانون کے ذریعے قلم پر پابندی لگا کر اور بندوق کو آزادی دے کر دہشت گردی کیسے ختم کی جا سکتی ہے؟

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan