پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں چکوٹھی کے رہنے والوں کی دہائی: ’ہم آنے والی نسلوں کو جنگ ورثے میں نہیں دینا چاہتے‘


چکوٹھی، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر

چکوٹھی سیکٹر میں داخل ہونے پر یہ سائن پوسٹ یہاں آنے والوں کا استقبال کرتی ہے

بی بی سی کی رپورٹر سحر بلوچ صحافیوں کے اُس گروپ میں شامل تھیں جنھیں جمعرات کو پاکستانی فوج نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر پر لائن آف کنٹرول کا دورہ کروایا۔ انھوں نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے چکوٹھی میں لائن آف کنٹرول کے قریب رہنے والے لوگوں سے بات کر کے یہ رپورٹ بھیجی ہے۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرینگر سے صرف 100 کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستان کی جانب چکوٹھی سیکٹر ہے جہاں کے رہنے والے انڈیا اور پاکستان کے درمیان جاری حالیہ تنازعے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔

مگر ہر طرف فوج کی بھاری نفری ہونے کی وجہ سے وہاں عموماً لوگ اپنی معاشی مشکلات کا ذکر صرف دبے لفظوں میں ہی کر پاتے ہیں اور یہی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ انھیں ادھر کوئی تکلیف نہیں ہے اور وہ وطن کے لیے جان تک دینے کو تیار ہیں۔

چکوٹھی کے رہائشی 75 سالہ نور محمد پچھلے 36 سال سے چکوٹھی میں کریانے کی دکان چلا رہے ہیں۔ اب ان کے ساتھ کام میں ان کے بیٹے اور بھتیجے بھی ہاتھ بٹاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’ایسا لگتا ہے ڈل جھیل بھی خوفزدہ ہے‘

سرینگر کا نواحی علاقہ صورہ: کشمیری مزاحمت کا نیا مرکز

کشمیر: ’وہ تھوکتا رہا اور پھر اسے دل کا دورہ پڑ گیا‘

یہاں کے حالات کے متعلق جب نور محمد سے پوچھا گیا تو وہ اس حوالے سے کافی افسردہ دکھائی دیے۔

وہ کہنے لگے کہ ‘حالات تو بہت خراب ہیں یہاں لیکن میں نے اس دکان کی بنیاد خود رکھی ہے۔ میں ایک بار غصے میں یہاں سے اٹھ کر راولپنڈی چلا گیا لیکن پھر واپس آنا پڑا کیونکہ وہاں رہائش مہنگی ہے۔’

نور محمد مزید بتاتے ہیں کہ اگر وہ یہاں سے صرف کچھ کلومیٹر ہی دور چلے جائیں تو انھیں تحفظ تو ملتا ہے مگر ساتھ میں مہنگائی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

’یہاں سے صرف آٹھ کلومیٹر نیچے کا علاقہ بھی رہائش کے اعتبار سے کافی محفوظ ہے، مگر وہاں کے لوگوں کو جب پتہ چلتا ہے کہ ہم اوپری علاقے سے آئے ہیں تو وہ ہمارے لیے کرائے بڑھا دیتے ہیں۔‘

چکوٹھی کے دکاندار نور محمد، چکوٹھی، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر

75 سالہ نور محمد چکوٹھی میں کریانے کا کام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے لیے کسی اور جگہ رہنا ممکن نہیں ہے

چکوٹھی میں رہنے والے کئی دیگر افراد بھی حالات کی خرابی کے باوجود یہاں رہنے کی وجہ انھی عوامل کو قرار دیتے ہیں۔

نور محمد کی دکان سے کچھ قدم آگے ایک نوجوان دکاندار محمد امین نے بتایا کہ ‘ہمارے آباؤ اجداد شروع سے یہیں رہے ہیں اور اب یہاں سے جانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔’

لیکن امین کہتے ہیں کہ پہلے انڈیا کی طرف سے لائن آف کنٹرول کے ذریعے کافی سامان آ جاتا تھا اور وہ بہت کچھ یہاں سے بھیج سکتے تھے، لیکن اب یہ سلسلہ بھی رک چکا ہے۔ مایوس نظر آنے والے امین کہتے ہیں کہ ‘اب جیسی بھی ہے ہمیں نبھانی ہے۔’

پاکستانی فوج کی طرف سے چکوٹھی میں دی جانے والی بریفنگ کی دوران اعلیٰ افسران کئی بار یہ دہراتے ہوئے سنائی دیے کہ انڈیا نے لائن آف کنٹرول کے پاس سے کئی گاؤں خالی کروا کر آبادی کو پانچ کلومیٹر پیچھے بھیج دیا ہے۔

جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا آنے والے دنوں میں پاکستانی فوج بھی آبادیوں کو فائرنگ کی زد سے دور کرے گی تو ایک افسر کا کہنا تھا کہ ‘فی الحال نہیں، جب تک ہم ان لوگوں کی حفاظت کرسکتے ہیں تب تک انھیں یہیں رکھیں گے۔ ہمارے لوگ ملک و قوم سے پیار کرنے والے ہیں، وہ یہاں سے کہیں نہیں جانا چاہتے۔’

چکوٹھی کے دکاندار محمد امین، چکوٹھی، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر

چکوٹھی کے ایک دکاندار محمد امین کہتے ہیں کہ پہلے انڈیا کی طرف سے سامان آ جاتا تھا اور وہ بھی سامان بھیج سکتے تھے مگر اب یہ سلسلہ رک چکا ہے

2015 سے لے کر 2019 تک لائن آف کنٹرول پر ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 70 ہے، جبکہ اس سال اب تک کی ہلاکتوں کی تعداد 27 ہوچکی ہے۔

حال ہی میں ایک تین سالہ بچی اور 45 سالہ شخص کی لائن آف کنٹرول پر ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکت ہوئی جس کے بعد سے لوگ باہر تو نکلتے ہیں، لیکن اپنا کام کر کے جلدی سے گھر چلے جاتے ہیں۔

پاکستان مسلم ممالک، سلامتی کونسل سمیت عالمی برادری پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمے اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

لیکن اب تک کئی ممالک یہ کہہ کر کشمیر کے معاملے سے دستبردار ہوچکے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کو دو طرفہ مکالمے کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو سلجھانا چاہیے۔

چکوٹھی، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر

چکوٹھی میں لائن آف کنٹرول سے نزدیک ہونے کی وجہ سے پاکستانی فوج کی موجودگی ہر جگہ نظر آتی ہے

چکوٹھی کے لوگوں کی انڈیا کے ساتھ جنگ کے بارے میں کئی جذبات ہیں۔ بازار میں موجود میڈیا کے نمائندوں کو دیکھ کر ایک ضعیف شخص نے اس بات کا اعلان تو کیا کہ ’ہم پاکستان کے لیے مرنے کو تیار ہیں‘، لیکن ان کے آس پاس کھڑے نوجوان تھوڑی بہت بات کرنے کے بعد اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان نظر آئے۔

جہاں پاکستان اور انڈیا کے مابین اس وقت لائن آف کنٹرول پر ہونے والی فائرنگ کے بارے میں الزامات کا تبادلہ جاری ہے، وہیں لائن آف کنٹرول کی دونوں جانب رہنے والے لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے نام پر لڑی جانے والی یہ جنگ کب ختم ہوگی۔

نور محمد کہتے ہیں ’میں کیوں کسی دوسرے (پڑوسی ملک) کے بارے میں برا بھلا کہوں جب مجھے پتہ ہے کہ ہمارے جیسے لوگ وہاں بھی بستے ہیں۔ میں اپنے بچوں کے لیے اور آنے والی نسل کے لیے ورثے میں جنگ نہیں چھوڑنا چاہتا۔ یہ جنگ ہم بوڑھوں کو ماردے۔ لیکن اب مزید جوان نہیں مریں۔ ہم مزید لاشیں نہیں اٹھا سکتے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp