کیسے نشاندہی کریں کہ ایک مرد اپنی ساتھی کو قتل کر سکتا ہے؟ آٹھ مراحل کا ماڈل


گھریلو تشدد

سنہ 2017 میں دنیا بھر میں تقریباً 30 ہزار سے زائد خواتین کو ان کے موجودہ یا سابقہ پارٹنرز نے قتل کیا

سنہ 2017 میں دنیا بھر میں تقریباً 30 ہزار سے زیادہ خواتین کو ان کے موجودہ یا سابقہ ساتھیوں یا پارٹنرز نے قتل کر دیا۔

فوجداری نظام کے ایک برطانوی ماہر کا کہنا ہے کہ اپنی شریک حیات کو جان سے مار دینے والے مرد ’ہوموسائیڈ ٹائم لائن‘ کو فالو کرتے ہیں اور پولیس اس کا سراغ لگا کر اس طرح سے ہونے والی اموات کی روک تھام ممکن بنا سکتی ہے۔

ڈاکٹر جین مونکٹون سمتھ نے برطانیہ میں ہونے والے 372 قتل کے واقعات کے طریقہ کار میں ’آٹھ مراحل‘ کا پتہ لگایا ہے۔

یونیورسٹی آف گلوسٹر شائر کی لیکچرار کا کہنا ہے کہ اپنے ساتھی پر کنٹرول حاصل کرنے کا رویہ کسی شخص کے بارے میں اس بات کا اہم اشارہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کر سکتا ہے۔

ایک قتل ہونے والی لڑکی کے والد کا کہنا ہے کہ ان نتائج سے زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر مونکٹون سمتھ کا کہنا ہے کہ 80 فیصد سے زیادہ متاثرین اپنے شریک حیات کے ہاتھوں قتل ہو جاتے ہیں اور زیادہ تر مقدمات میں قاتل ایک مرد ہی ہوتا ہے۔

ایلس رگلز کے والدین

Phil Mawson
ایلس رگلز کے والدین

اپنی رپورٹ کے لیے ڈاکٹر سمتھ نے ایسے تمام مقدمات کا تفصیلی جائزہ لیا، جن میں خواتین کا اپنے قاتل سے کوئی تعلق ضرور ہوتا ہے۔ اسی طرح ایسے بہت سارے دیگر مقدمات بھی ہیں جن میں مرد اپنے مرد پارٹنرز کے ہاتھوں قتل ہوئے۔

ڈاکٹر سمتھ نے ہر قتل میں تقریباً آٹھ مراحل کو دریافت کیا:

  • مجرم کا رشتہ شروع ہونے سے پہلے کا ماضی
  • رومانس جو بہت جلد ایک سنجیدہ رشتے میں بدل جائے
  • رشتے پر زبردستی کنٹرول حاصل کرنا
  • ایسے محرکات جن کی وجہ سے قاتل کا اپنے پارٹنر پر کنٹرول خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر رشتہ ختم ہو جانا یا مجرم کا مالی مشکلات کا شکار ہو جانا۔
  • تیزی: مجرم کے اپنے ساتھی کو کنٹرول کرنے کے حربوں میں شدت، جیسے کے تعاقب یا خود کشی کی دھمکی دینا۔
  • سوچ میں تبدیلی: مجرم کی سوچ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور وہ انتقام کے ذریعے آگے بڑھنے کا انتخاب کرتا ہے۔
  • منصوبہ بندی: مجرم ہتھیار خریدتا ہے یا اپنے شکار کو تنہائی میں پکڑنے کے مواقع تلاش کرتا ہے۔
  • قتل عام: مرد پہلے اپنے پارٹنر کو مارتا ہے اور پھر دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے، جیسے کہ مرنے والے کے بچوں کو۔

ڈاکٹر مونکٹون سمتھ نے بی بی سی کو بتایا ’ہم قتل کے معاملے میں ہمیشہ سے ’جذبات اور اچانک کسی کیفیت کے طاری ہوجانے‘ جیسی وضاحتوں پر بھروسہ کرتے رہے ہیں۔ یہ سچ پر مبنی نہیں ہے۔‘

’اگر آپ ان سارے کیسز کا جائزہ لینا شروع کریں تو ان میں منصوبہ بندی، عزم اور ہمیشہ زبردستی کنٹرول نظر آتا ہے۔‘

ایلس رگلز

Family photo
ایلس رگلز کو سنہ 2016 میں ان کے سابق بوائے فرینڈ نے قتل کیا

اس مطالعے پر ردعمل دیتے ہوئے قتل ہونے والی ایک 24 سالہ خاتون ایلس رگلز کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر پولیس کو ڈاکٹر مونکوٹن سمتھ کے آٹھ مراحل کے ماڈل کے بارے میں معلوم ہوتا تو صورتحال یکسر مختلف ہو سکتی تھی۔

ایلس رگلز کے سابقہ بوائے فرینڈ نے اس وقت ان کا تعاقب شروع کیا جب ان کے شدید تلخ باہمی تعلقات ختم ہو گئے۔ اکتوبر 2016 میں ایلس کو ان کے بوائے فرینڈ نے قتل کردیا۔

ایلس کے والد کلائیو رگلز کا کہنا ہے ’ایلس کے سابقہ بوائے فرینڈ کی پیچھا کرنے اور کنٹرول حاصل کرنے کی ایک تاریخ تھی اور خطرے کی نشانیاں واضح طور پر موجود تھیں۔‘

’اگر پولیس کو آٹھ مراحل کے بارے میں معلوم ہوتا تو وہ اس بات کا ادراک کر لیتے۔ (ایلس کے بوائے فرینڈ کی طرف سے) مستقل پیغامات، جذباتی بلیک میلنگ، اس طرح کی تمام باتیں، یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ پہلے ہی پانچویں مرحلے پر پہنچ چکا تھا۔

’ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ اگر اس ماڈل کو عام کیا جاتا ہے اور لوگ اس پر عمل کرنا شروع کردیتے ہیں تو اس سے لوگوں کے لیے معاملات میں بہتری آئے گی اور اس سے زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔‘

ڈاکٹر مونکوٹن سمتھ نے اپنے ماڈل کو وکلا، ماہرینِ نفسیات، برطانیہ بھر میں پولیس فورس اور ٹریننگ پر آئے افسران کو بھی پڑھایا ہے۔

ڈاکٹر سمتھ کی رپورٹ خواتین کے خلاف تشدد کے میگزین میں بھی شائع ہوئی ہے اور وہ امید رکھتی ہیں کہ ان کی اس رپورٹ کو وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے گا۔

’وہ جیسے ہی اس تحقیق کو دیکھیں گے تو متاثرین اور ماہرین یہ کہنے کے قابل ہوں گے ’او خدایا تیسرے مرحلے کا ایک کیس میرے سامنے آیا ہے‘ یا یہ کہ ’میرا رشتہ اب پانچویں مرحلے پر ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس مطالعے سے متعلق پولیس کا ردعمل ناقابل یقین حد تک اچھا رہا ہے اور وہ جن کیسز پر کام کر رہے ہیں ان میں ان مراحل کی تصدیق کرتے ہیں کیونکہ یہ رپورٹ ان کے تجربات سے عین مطابقت رکھتی ہے اور اس انتشار سے نکلنے کا حکم دیتی ہے جو گھریلو زیادتی، زبردستی کنٹرول اور تعاقب سے متعلق ہے۔

ڈاکٹر سمتھ کا کہنا ہے کہ اگر پولیس ان آٹھ مراحل کو سیکھ لے تو وہ کچھ ممکنہ مجرموں کا کھوج لگانے میں کامیاب ہوجائیں گے جبکہ متاثرہ افراد ماہرین کو آسانی سے بتا سکیں گے کہ وہ کس صورتحال سے دوچار ہیں۔

ڈاکٹر سمتھ کہتی ہیں کہ ان طریقوں کے بارے میں مزید تحقیق ہونی چاہیے جن کے ذریعے متاثرین ایسے رشتوں کو محفوظ طریقے سے ختم کیا جا سکتا ہے اور یہ جان سکتے ہیں کہ کیسے بعض لوگ رشتوں میں کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

DO NOT DELETE – DIGIHUB TRACKER FOR [49485230]


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp