چھ فٹ کے مرد میں چھپا ننھا ٹیڈی بئیر


ہفتہ گزر گیا جونسن کی موت کی خبر ملے۔ اس حساب سے مجھے اپنے غمگین جذبات کی چادر کو ایک جانب لپیٹ کر آگے سرک جانا چاہیے تھا۔ جس ادارے میں بطور تھریپسٹ کام کرتی ہوں، وہ منشیات کے عادی افراد کو تھرپی فراہم کرتا ہے۔ علاج کے بعد لوگ نشہ سے پاک ہو کر پھر دوبارہ نشہ کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور کچھ جانسن کی طرح اوور ڈوز(Over Dose)  یعنی منشیات کی مقدار کی زیادتی کے نتیجہ میں موت کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لئے غموں سے نجات پا لیتے ہیں۔

لمبا ترنگا، چھ فٹ قد کا صحت مند افریقی النسل امریکی بیالیس سالہ جانسن جو موت کے ظالم شکنجہ میں آ گیا۔ اوور ڈوز (Over Dose) نے اسے اس تلخ زندگی سے نجات دلا دی جو وہ محض جھیل رہا تھا۔

جانسن کی زندگی کا باب ختم ہوا تو میرے سامنے اس کی زندگی کے کتاب کے ورق پھڑپھڑانے لگے۔ گریہ کناں، نوحہ کناں جو بضد ہیں کہ میں اس کی کہانی کو ہوابرد کروں تاکہ درد کی لہر فضا میں دور تک پھیل سکے، اس کی کہانی جو سماجی ڈھانچے کی شکست و ریخت اور انفرادی شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کا زندہ مرثیہ ہے۔

جانسن تھرپی کے لئے اپنی خوشی سے نہیں آیا اسے قانونی ادارے نے بطور سزا بھیجا تھا۔ منشیات کی خریدو فروخت اور نشہ کا مثبت ٹیسٹ، یہ سب غیر قانونی ہیں۔ لہذا وہ انتہائی ناخوشی سے زبردستی ادارے میں داخل ہوا۔

تھرپی کے اس پروگرام میں گروپ اور انفرادی تھرپی کے باقاعدگی سے سیشن ہوتے ہیں۔ پہلے انفرادی سیشن میں ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ پتھرکی اس دیوار کی طرح ہے جسے توڑنا ایک مشکل کام ہے۔

بیزاری بلکہ حقارت سے میرے سوالات کے انتہائی مختصر جوابات دیتے ہوئے مجھے لگا جیسے سفید سماج سے نفرت نے اسے میری سانولی رنگت سے بھی خوامخواہ ہی بدظن کر دیا ہے۔ کسی قسم کے علاج بالخصوص سائیکو تھرپی میں افادیت کے لئے تھریپسٹ اور کلائینٹ کے درمیان اعتماد کا پُل بننا ضروری ہے تاکہ دل سے نکلی سچی بات مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد دے۔ لیکن جانسن کی طبیعت کی تلخی اور بدمزاجی نے ابتدا سے ہی گویا خطِ تنسیخ کھینچ دیا۔ گروپ میں بھی اس کا رویہ جارحانہ تھا۔ وہ اونچی آواز میں بات کرتا، دوسروں کی بات کاٹ کر اپنی بات کو حرفِ آخر قرار دینے میں کمال رکھتا تھا۔ تاہم گروپ کے قاعدہ قوانین سے میں نے اس کے مزاج کی طنابیں قابو میں کرنے کی کسی حد تک کامیاب کوشش کر لی تھی لیکن اس کی غیر منطقی سوچ، تلخی اور غصہ نے اسے لوگوں سے دور کر دیا تھا۔ شاید گروپ سے دور رہنے کو وہ اپنی فتح مندی قرار دیتا ہو کیونکہ اس نے بارھا کہا کہ میں الگ تھلگ رہنے والا بندہ ہوں، مجھے اپنی ماں اور بہن کے علاوہ کسی پہ اعتماد نہیں۔ جنسی عمل میرا نشہ ہے لہذا عورتیں میری زندگی میں آتی رہی ہیں، پانچ بچے بھی ہیں مگر کسی عورت کو مستقل اپنی زندگی میں جگہ نہیں دی۔ مجھے کسی پہ بھروسہ نہیں لہذا میں کسی کے ساتھ ٹک کر نہیں رہ سکتا۔ وہ ان عورتوں پہ کنٹرول کرنے کا عادی تھا۔ مخالفت کا وہ عادی نہیں تھا۔ گو امریکہ کی عورتیں عموماً برداشت نہیں کر پاتیں۔ اپنی طبیعت کی سختی اور مزاج کی تلخی کے سبب وہ انگزائیٹی، بلڈ پریشر اور کچھ عارضوں میں مبتلا تھا۔

ایک زمانہ میں جب اس کا مزاج کچھ زیادہ ہی بے قابو تھا اور اسی ہفتہ میرے انفرادی سیشن کا بھی وقت تھا، میں نے اس کو کچھ اس طرح کے سوالات پوچھنے شروع کیے کہ اس نے گھُٹنے ٹیک دیے، وہ ٹوٹ گیا، پھٹ پڑا اور یوں اپنی زندگی کی کہانی کے ان نہاں خانوں میں جا پہنچا جن سے ابھی تک وہ آنکھیں چراتا آیا تھا۔

اس نے کہا ، ” میری سب سے بڑی بیٹی جس کا دو سالہ بچہ ہے، مجھ سے ناراض ہے اور اپنے بچے سے ملنے نہیں دے رہی ہے۔ “ میں نے کہا، ” بات تو واقعی اداس کرنے والی ہے، لیکن یہ بھی تو ہے کہ اس نے تمہارا ناروا سلوک (اس کی) اپنی ماں کے ساتھ دیکھا ہو۔ تم نے کہا، تم کسی عورت پہ بھروسہ نہیں کرتے، تم ان سے محبت کی بجائے کنٹرول کرنے کے عادی ہو۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس رویہ کو بیٹی نہیں، عورت سمجھ کر دیکھ رہی ہو۔ اسی لیے تمہاری گود میں اپنا بچہ نہ دیکھنا چاہ رہی ہو۔ “

وہ میری بات سن کر خاموش ہو گیا جیسے بات دل کو لگ گئی ہو۔ اس کے جامنی ہونٹ جذبات کی شدت سے پھڑپھڑانے لگے اور آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ مگر میں اپنی ماں اور بہن سے بہت پیار کرتا ہوں اور ان کی خاطر سب کچھ کر سکتا ہوں، قتل بھی۔ دفعتاً اس کا جنگلی پن عود آیا۔ میں نے کہا، ’’تو وہ بھی تو اپنی ماں کو اسی طرح چاہتی ہو گی۔ اس کے غصے کا انداز چیخنا پکارنا نہیں بلکہ تم سے تعلقات منقطع کرنا اور نواسے کو نانا کی گود سے دور رکھنا ہے۔ تم سب کو کنٹرول کرنا چاہتے ہو مگر وہ تمہارے قابو نہیں آ سکتی۔ آخر وہ کون ہے جس نے تمہیں کنٹرول کیا ماضی میں یا بچپن میں؟ “

میرے اس سوال پہ جانسن کی آنکھوں میں بے بسی چھلکنے لگی۔ اور اس دن اس کا ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا ۔ اس نے کہنا شروع کیا، جب میں پیدا ہوا تو میرا باپ مر گیا۔ کسی جھگڑے میں قتل ہو گیا۔ شروع میں نانی نانا نے ہمیں رکھا۔ پھر ماں نے نوکریاں کیں اور مجھے اور میری بہن کو پالا۔ اس عرصہ میں ننھیال کی مدد شامل رہی تھی۔ وہ اس طرح کہ جب ماں کام پر جاتی تو مجھے اپنی بہن یعنی میری آنٹی کے پاس بے بی سٹنگ کے لئے چھوڑ جاتی۔ اس وقت میری عمر آٹھ سال اور آنٹی کی انیس سال کی تھی۔ اس نے میری چار سال بے بی سٹنگ کی اور ساتھ ہی جنسی استحصال بھی۔ مجھے اس وقت نہیں پتہ تھا کہ یہ سب کیا کھیل ہے۔ جب سمجھ آنے لگا تو شرم کی وجہ سے کسی کو نہیں بتایا۔

عمر کی دو دہائی تک بھی اس کا اندازہ نہ ہوا کہ وہ جنسی استحصال کتنا غلط تھا اور اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ میں نے ہر بات کو اپنے اندر یوں دفن کر لیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ پھر ایک دن پہلی بار ماں کو بتایا تو وہ بھی کچھ اس طرح کہ جیسے سارا قصور میرا ہی تھا۔ اس دن پہلی بار میری ماں پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ مجھے گلے لگایا اور بتایا کہ جب وہ سولہ برس کی تھی تو کس طرح اس کے سوتیلے باپ نے اس کی جنسی پامالی کی۔ اپنے راز کو ایک دوسرے سے بتا کر پھر کبھی ہم دونوں نے کسی سے اس کے بارے میں بات نہ کی۔

یہ پہلی بار ہے کہ میں کسی سے اس راز کو آشکار کر رہا ہوں۔ میرے لئے گروپ میں کہنا کچھ ندامت کی بات تھی۔ آج میں زندہ ہوں مگر اس نہ حل ہونے والے ٹراما نے میری زندگی کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ میں اس سے نپٹ نہیں پا رہا ہوں۔ نشہ کرتا ہوں تاکہ اپنے جذبات کو سُن کر سکوں۔ دوسروں کو اسی طرح کنٹرول کرتا ہوں جیسے مجھے کنٹرول کیا گیا۔ میں تو کھویا ہوا وہ بچہ ہوں جسے بچپن میں بالغ بنا دیا گیا۔ میری معصومیت کو چار سال مسلسل لوٹا گیا۔ مجھے اپنی ماں اور بہن کے سوا کسی پہ بھی بھروسہ نہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مرد ہی لڑکوں کا ریپ کرتے ہیں۔ مجھے تو میری ماں جیسی عورت نے مسلسل ریپ کیا۔ میری آنٹی آج بھی ملتی ہے تو ایسے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ نہیں ڈالتے۔” اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ آواز صدمے سے بوجھل تھی۔ مجھے اس وقت وہ بد مزاج کنٹرولنگ مرد کے بجائے زخم خوردہ، ٹوٹا پھوٹا خوفزدہ سا بچہ لگ رہا تھا۔ جو کرسی کے ایک کونے میں سمٹ گیا ہو۔ آج وہ چھ فٹ کے لمبے تڑنگے مرد میں دبکا ٹیڈی بئیر تھا۔

اپنی جنسیت پہ کنفیوژ، خجل، خوفزدہ، صدمہ، بے چارگی اور احساسِ تنہائی سے آغشتہ۔۔۔۔ اور پھر ایک دن وہ ننھا ٹیڈی بئیر اپنی ازلی تنہائی، شرمساری اور صدمہ کے بوجھ سے دم توڑ گیا۔۔۔

٭٭٭     ٭٭٭

جنسی استحصال سے متعلق کچھ حقائق:

تحقیق کے مطابق ہر چھ لڑکوں میں سے ایک، اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے یہ وہ جرم ہےجو ہر نسل، مذہب اور طبقہ میں پیش آتا ہے اور زندگی بھر کے لئے اثرات مرتب کرتا ہے۔

عام طور پہ زیادتی کرنے والے با اثر افراد مثلاً کوچ، ٹیچر، مذہبی پیشرو، کھلاڑی یا سماجی لیڈرہوتے ہیں۔ جو خواتین بھی ہو سکتی ہیں۔

جنسی زیادتی کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً غصہ، خوف، بے بسی، تنہائی، سماج سے دوری، تعلقات استوار کرنے میں دشواری، مردانگی کے مسائل، اپنی کم وقعتی کا احساس، منشیات اور الکوحل کا استعمال،ان کے علاوہ ڈیپریشن، انگزائیٹی، پی ٹی ایس ڈی جیسے ذہنی مسائل بھی دور رس اثرات کی مثالیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).