لائن آف کنٹرول پر تجارتی پاپندیاں: کشمیر کے ٹرک ڈرائیوروں کا روزگار خطرے میں


ٹرک ڈرائیور

دانش ایل او سی کے اُس پار ڈرائی فروٹ اور تازہ پھل لے کر جایا کرتے تھے

دانش عزیز کا تعلق مظفر آباد کے علاقے چکوٹھی سیکٹر سے ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے تو ایک ٹرک ڈرائیور ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گھر کے واحد کفیل بھی ہیں۔

30 برس کے دانش عزیز تقریباً دس سال سے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف ٹرک کے ذریعے سے سامان کی ترسیل کا کام کر رہے ہیں۔

چند ماہ پہلے تک وہ ہر قسم کے معاشی مسائل سے آزاد تھے لیکن ایل او سی پر تجارتی سرگرمیوں کی بندش کی وجہ سے اب انھیں ہر طرف سے مالی پریشانیوں نے گھیر رکھا ہے جس سے ان کے گھر کا چولہا بھی ٹھنڈا پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

دانش عزیز کا کہنا ہے کہ وہ ایل او سی کے اُس پار ڈرائی فروٹ اور تازہ پھل لے کر جایا کرتے تھے جبکہ واپسی پر انڈین کشمیر سے مصالحہ جات اور دیگر چیزیں لایا کرتے تھے جس سے وہ ہر ماہ لاکھ سے ڈیڑہ لاکھ روپے کمایا کرتے تھے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ جب سے دو طرفہ تجارت معطل ہوئی ہے اس کے بعد سے انھیں گاڑی کی قسطیں جمع کرانا اور گھر کا خرچہ چلانا مشکل ہورہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

تجارت کی معطلی سے زیادہ نقصان کسے ہو گا؟

’کشمیر کی تحریک پہلی ترجیح، تجارت دوسرے نمبر پر‘

ایل او سی: وہ واحد راستہ جو اب بھی کھلا ہے

دانش عزیز نے قسطوں پر ٹرک خریدا تھا جس کی وہ ہر مہینے باقاعدگی سے 35 ہزار روپے بطور قسط جمع کرواتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق کوئی 50 کے قریب ٹرک ڈرائیور ایسے ہوں گے جنھوں نے قسطوں پر گاڑیاں خرید کر ایل او سی کے آر پار یہ کام شروع کیا۔

‘اگر حالات مزید ایک ڈیڑھ ماہ تک اسی طرح رہتے ہیں تو پھر میرے پاس اس کے علاوہ اورکوئی چارہ نہیں کہ اپنی گاڑی فروخت کردوں اور کوئی اور کام شروع کردوں۔’

ان کے مطانق تجارت پر پابندیوں سے قبل ان کے سرحد پار بیوپاریوں کے ساتھ تقریباً تین لاکھ روپے پھنسے ہوئے تھے جس کا اب تقاضا کرتا ہوں تو تاجر کہتے ہیں کہ کاروبار کی بحالی کے بعد ہی رقم ملے گی۔

‘گذشتہ تین ماہ جس مشکل میں گزرے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں۔ لیکن اب مزید اس کی سکت باقی نہیں رہی۔ لگتا ہے اب کوئی متبادل روزگار ہی تلاش کرنا پڑے گا، یا تو کوئی سٹور کھولوں گا یا پھر کوئی اور کام۔’

پاکستان اور انڈیا کے درمیان لائن آف کنٹرول پر دو مقامات سے تجارت ہوتی رہی ہے جس میں چکھوٹی اور تتری نوٹ کے علاقے شامل ہیں۔ تاجروں کے مطابق اس باہمی تجارت کا حجم کروڑوں روپے میں بتایا جاتا ہے جس سے سینکڑوں تاجر، مزدور اور ڈرائیورز کا روزگار لگا ہوا تھا تاہم پابندیوں کی وجہ سے اب زیادہ تر افراد بے روزگاری کا شکار ہوچکے ہیں۔

تاجروں کے نمائندوں کے مطابق منقسم کشمیر میں کاروبار’مال کے بدلے مال’ کی بنیاد پر ہوتا ہے یعنی اس میں نقد رقم کا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ جو مال یہاں سے ایل او سی کے اس پار بھیجا جاتا ہے اتنی ہی قیمت کی اشیا یہاں آتی ہیں اور اس طرح یہ کاروبار چلتا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تاجروں کی تنظیم ایل او سی ٹریڈ یونین کے سیکرٹری اطلاعات اعجاز احمد میر کا کہنا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے وجود میں آنے کے بعد 2008 میں پہلی مرتبہ ایل او سی کے دونوں جانب تجارت کا آغاز ہوا اور اس وقت یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ ایل او سی کے ذریعے سے یہ تجارت صرف ‘مال کے بدلے مال’ سے ہوگی۔

کشمیر

پاکستان اور انڈیا کے وجود میں آنے کے بعد 2008 میں پہلی مرتبہ ایل او سی کے دونوں جانب تجارت کا آغاز ہوا

‘مثال کے طورپر اگر یہاں سے ایک کروڑ روپے کا مال جاتا ہے تو بدلے میں انڈین کرنسی میں اس کی جو قیمت بنتی ہے اسی ویلیو سے وہاں سے اشیا کی ترسیل یہاں ہوتی ہے اور اس طرح یہ تجارت جاری ہوتی ہے۔ یعنی اس میں نقد رقم کا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا۔’

تاہم انھوں نے کہا کہ اگر اس دوران سامان کی ترسیل میں کوئی کمی بیشی ہوتی ہے تو اگلے پھیرے میں اسے پورا کیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستانی کشمیر سے زیادہ تر قالین کا سامان ، کپڑا، خشک میوہ جات اور تازہ پھل جاتے رہے ہیں جبکہ اس کے بدلے میں انڈیا سے مصالحہ جات ، کپڑے اور پھلوں کی ترسیل ہوتی رہی ہے۔

ایل او سی

اگر یہ تجارت مستقل طورپر بند ہوتی ہے تو دونوں طرف ہزاروں افراد متاثر ہوں گے

اعجاز احمد میر نے دعوی کیا ہے کہ ایل او سی کے دونوں جانب تجارت سے کوئی پچیس ہزار کے قریب افراد منسلک تھے جس میں تاجر، مزدور، ڈرائیور اور ہوٹل مالکان شامل ہیں۔ تاہم انھوں نے کہا کہ زیادہ تر افراد اب تجارت پر پابندیوں کے باعث بے روزگاری یا مالی مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔

‘اگست کے مہینے میں ہمیں ایسی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ شاید دو طرفہ تجارت دوبارہ کھولی جائے لیکن کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد اب تو مستقبل قریب میں اس کی بحالی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔’

انھوں نے کہا کہ اگر یہ تجارت مستقل طورپر بند ہوتی ہے تو دونوں طرف ہزاروں افراد متاثر ہوں گے اور بے روزگاری بھی بڑھے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp