احتجاج بروز جمعہ اور نسیم حجازی کا دور اندیش ہیرو


آج تحریک انصاف سے ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے ایک صاحب سے نماز جمعہ سے قبل کے تیس منٹ والے احتجاج کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی۔ گفتگو سے مراد وہی جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ پہلے تو وہ مجھے ڈاکو پارٹی اور غدار پارٹیوں کا انتہائی اہم رکن سمجھ کر رگید رہے تھے۔ پھر میں نے ان کو یقین دلایا کہ قبلہ میں تو جاہل مطلق اور ملکی سیاست سے نابلد انسان ہوں بس اس احتجاجی کال کا ہندوستان پہ کیا اثر پڑے گا اور اس کے ہوش کیسے ٹھکانے آئیں گے، یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی ۔۔۔۔

پہلے تو انہوں نے غور سے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا اور جب انہیں یقین آ گیا کہ میں واقعی سچ کہہ رہا ہوں تو بڑی فراخ دلی سے کہا چلیں بیٹھ کے بات کرتے ہیں۔ یہ تھوڑی منطقی قسم کی بات ہے، آہستہ آہستہ سمجھ آئے گی۔ خیر ہم ان کی معیت میں ایک بنچ پر بیٹھ گئے تو انہوں نے مجھ سے نسیم حجازی صاحب کے ناول “معظم علی” کے بارے پوچھا کہ میں نے پڑھ رکھا ہے یا نہیں اور جب میں نے نفی میں سر ہلایا تو ان کو شدید افسوس ہوا کہ میں تو ان کی توقع سے بھی زیادہ جاہل نکلا۔ خیر تھوڑی ناگواری اور ہمدردی کے ملے جلے تاثرات سے انہوں نے مجھے سمجھانا شروع کیا۔

نسیم حجازی بہت بڑے ناول نگار تھے۔ انہوں نے اپنے ایک ناول میں ایک شخص معظم علی کے بارے لکھا ہے جو احمد شاہ ابدالی جیسے عظیم فاتح کو ہندوہستان بلا کر مسلمانوں کو مرہٹوں کے ظلم و ستم سے نجات دلواتا ہے جیسے عمران خان نے قوم کو آصف علی زرداری اور نواز شریف سے نجات دلوائی اور وہ شخص ٹیپو سلطان کے باپ حیدر علی کا بھی قریبی ساتھی تھا۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب لوگ اسے پاگل سمجھتے تھے۔ مجھے سمجھ نہ آئی تو پوچھ لیا ۔ کسے؟

ارے بھائ معظم علی کو

اچھا۔۔۔ وہ کیوں بھلا؟

ایک دفعہ انگریزوں کے حملے کے بارے میں اسے شک ہوا تو اس نے اپنے گاوں میں پیشگی قلعہ بنوانا اور حفاظتی انتظامات کرنے شروع کر دیے۔ اور لوگ اس وجہ سے اس کا مذاق اڑاتے تھے اور اسے پاگل سمجھتے تھے لیکن وہ بہت دور کی سوچ رہا تھا، لیکن عام لوگ جو اس کی سوچ تک نہیں پہنچ سکتے تھے، اسے پاگل سمجھتے تھے جیسے ۔عمران، نواز اور زرداری وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔

پھر ایک دن دنیا نے دیکھا کہ انگریزوں نے اس کے گاؤں پہ دھاوا بول دیا لیکن معظم علی کے پیشگی انتظامات کی بدولت انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تب لوگوں کو معظم علی کی قابلیت سمجھ آئی۔

یہ احتجاج بھی عمران خان کا ایسا ہی فیصلہ ہے جس کو آج تم جیسے لوگ نہیں سمجھ پا رہے لیکن ایک نہ ایک دن ضرور ان کو اندازہ ہو گا کہ ایماندار لیڈر کیسے ملک و قوم کا وقت بھی بچاتا ہے اور دنیا کو احتجاج بھی ریکارڈ کرواتا ہے۔

میں نے سر ہلانے پہ ہی اکتفا کیا جیسے کچھ کچھ سمجھ میں آ رہا ہو تو وہ مجھے مزید سمجھاتے ہوئے فرمانے لگے۔

زرداری اور نواز دور میں اگر ایسا واقعہ ہوتا تو وہ ملکوں کے دورے کرتے اور ہر ملک کے سامنے گڑگڑاتے اور ان سے ہمدردی اور حمایت کی بھیک مانگتے جس سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی کہ یہ دیکھو، پاکستانی سیاستدان جن کے پاس عزت نفس نام کی چیز ہی نہیں، ایسی صورتحال میں ہم خود کو ہندوہستان کے مقابلے میں کمزور بنا کر پیش کرتے اور یہ کیس کمزور ہو جاتا۔ اور سب سے اہم بات ملکی معیشت بھی ان کے غیر ملکی دوروں کے اخراجات کے بوجھ کی وجہ سے تباہی کے دھانے پہ پہنچ جاتی جبکہ عمران خان ایک دور اندیش لیڈر ہے اس نے اس پوری صورت حال کے دوران کوئی دورہ بھی نہیں کیا بس چند دوست ممالک کو ٹیلی فون کر کے اپنا ساتھ نبھاہنے کی تاکید کی ہے۔ اب خود ہی سوچو کہ عمران خان نے کتنے ارب ڈالر بچائے؟

میں حیرت اور خاموشی سے اس عظیم مفکر کو دیکھ رہا تھا جو ایک بار پھر گویا ہوا

ایک کام اگر ہونا ہو تو ایک فون کال پہ ہو جاتا ہے جیسے کارگل اور کلنٹن کا فون، یعنی دورے ضروری نہیں ہوتے۔ کام فون پہ بھی ہو جاتے ہیں۔ بس نیت درست ہونی چاہیے۔ پچھلے حکمرانوں کی نیت درست نہیں تھی لیکن اب جب خوش قسمتی سے ہمیں ایک دور اندیش لیڈر مل ہی گیا ہے تو یہ سب اپوزیشن والے اس کے خلاف ہو گئے ہیں کہ وہ انہیں این آر او کیوں نہیں دے رہا۔۔۔۔۔

رہی بات اس آدھے گھنٹے کے احتجاج کی تو اسے جمعہ کے دن رکھنا بھی عمران خان کی دور اندیشی کا نتیجہ ہے جس کی بڑی سادہ سی وضاحت یہ ہے کہ پاکستان اسلامی ملک ہے اور جمعہ مسلمانوں کا مقدس دن ہے۔ اس دن عام طور پر بھی بارہ بجے کے بعد کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے اور تقریباً ہر شہر اور گاوں سے لوگ جمعہ پڑھنے گھر سے نکلتے ہی ہیں تو اس طرح ایک بہت بڑا احتجاج بھی ریکارڈ ہو جائے گا اور ملکی معیشت کا نقصان بھی نہیں ہو گا۔

اب اس نے داد طلب نظروں سے مجھے دیکھا اور میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ پتہ نہیں اس کا کیا مطلب تھا۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں بس اس دور اندیش مفکر کی پہنچ سے دور نکلنا چاہتا تھا۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).