ملائیت کا استعارہ اور اسلامی انقلاب


اسلام، اسلامی نظام اور مسلمانوں سے متعلقہ افکار و نظریات اور تاریخی موضوعات پر گفتگو تو اپنے اندر وسعت کا ایک سمندر رکھتی ہے لیکن فی الوقت صرف ایک مخصوص پہلو پر بات، اور وہ بھی بہت زیادہ عمیق نہیں، مقصود ہے۔

لگ بھگ سسترھویں صدی میں جب برصغیر میں انگریز سامراج نے قدم جمانا شروع کیے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی، تو دراصل وہی وہ تاریخی اور فیصلہ کن مرحلہ تھا جب یہاں کے باسیوں پر غلامی عملاً مسلط ہو چکی تھی۔ اور یہ غلامی کسی مذہب سے بالاتر، اس خطہ زمین کے ہر ہر باسی کا مقدر ہوئی۔ جہاں برصغیر کے دیگر تمام شعبہ ہائے معاشرہ پر اس غلامی کے اثرات تھے، وہیں مسلمانوں کے کسی بھی معاشرے میں پایا جانے والا مسجد و ممبر کا ادارہ بھی اَن دیکھی، فکری، معاشی، سماجی، علمی اور عملی غلامی کا شکار ہوا۔

اس غلامی نے جہاں اس انسٹیٹیوشن کو انتظامی بد حالی کی طرف دھکیلا، وہیں جو سب سے بڑا کاری وار یہ کیا کہ ایک ایسی نسل کو بتدریج اس کار عظیم کی وراثت بخش دی جو معاشرے کی کلی طور پر غیر مراعات یافتہ کلاس تھی۔ ایسا اگر منصوبہ بندی کے تحت نہ بھی کیا گیا ہو اور با التفاق ہوا ہو، تب بھی اس کے نتیجے میں اسلام جیسے متنوع دین میں تجدید افکار کا رستہ روک کر فکری انحطاط کا وہ ناسور پیدا کر دیا گیا کہ جو آج ملائیت کے روپ میں پھن پھیلائے ہمارے سامنے کھڑا ہے۔

سامراجی نظام کے سامنے پہلے سے پست حوصلہ اور مغلوں کے پروردہ سہل طلب مسلمانوں نے یوں جنگی و عملی میدانوں میں گھٹنے ٹیکے کہ بالآخر اس ادارے کا حلیہ ہی بگڑ کر رہ گیا اور اس کی ایک ایسی شکل نمودار ہو گئی جسے اگر اصل کا الٹ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ایک دور تو ایسا بھی آیاجب یہ کہاوت مشہور ہوا کرتی تھی کہ ”گاؤں دیہاتوں میں ایسے شخص کو امام بنا دیا جائے جس کے بارے میں یہ گمان ہو کہ اگر یہ نظروں سے اوجھل رہے گا تو کہیں نمازیوں کی جوتیاں چرا کر نہ بھاگ کھڑا ہو۔“

یہ کہاوت دراصل ایک استعارہ تھی، اس دور کا ستعارہ کہ جس دور میں اسلام جیسا عظیم دین، ان ورثاء کی وراثت کہلایا جو فالور ہوں سو ہوں، مگر اس کے نمائندہ ہونے یا کہلانے کے لائق بہرحال نہیں تھے۔ لیکن ہوا کیا؟ ہوا اس کے برعکس۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسلام کے وارث یہی لوگ کہلائے۔ متمول مسلمانوں کی اگر اسے مجرمانہ غفلت کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا، کہ انہوں نے دین ٹھیکے پر اس طبقے کو دے دیا۔ اور یہ طبقہ ”ملا“ یا ”مولوی“ کہلایا۔

پھر اولاً تواس طبقے نے اپنی بساط بھر دین مبین کی تعلیمات کو اپنے تئیں گھمایا۔ پھر بتدریج یہ سانحہ ہوا کہ یہ باقاعدہ ایک پروفیشن اور بعض اوقات تو مافیا بن گئے۔ گویا یورپ کی ڈارک ایج کی طرح وہ دوربھی آیا کہ جب ان کا کہا آسمانی حکم کا درجہ رکھے۔ یہ جو چاہیں ایک حکم کی تشریح کریں، جب چاہیں سوال کھڑا کر دیں، جب چاہیں سوال پر قدغن لگا دیں، جب جسے چاہیں کافر قرار دیں، جب جسے چاہیں امیر المومنین بنا دیں، جب چاہیں لاؤڈ اسپیکر کو شیطان کا کان کہہ دیں، جب چاہیں اسی سے اپنی سلطنت چلائیں، جب چاہیں 4 شادیوں کے ساتھ ساتھ لونڈیاں بھی حلال کر دیں اور جب چاہیں دوسری شادی کو بھی اجازت سے مشروط کر دیں، جب چاہیں ریاستی جہاد کر لیں اور جب چاہیں نجی جہاد کر لیں، جب چاہیں کسی کی سرکاری یا نجی زمین پر ایک چھپر ڈالیں، جھنڈا لگائیں اور مسجد کے نام پر قبضہ کر لیں اور جب چاہیں عوام کو بھڑکا کر دوسرے فرقے کی مسجد پر قبضہ کروا لیں، جب چاہیں ایک عمل کو حلال اور جب چاہیں اسی کو حرام قرار دے دیں، لوگوں کے ایمان پر فیصلے صادر کرنے لگیں، لوگوں کی گردنیں مارنے کے حکم جاری کرنے لگیں، بد اخلاقی اور مذہبی لبادے کو ہم معنی قراردینے کا باعث بنیں، زعم ِتقویٰ کی بیماری کے موجد بنیں، جب چاہیں ناموس رسالت مآب ﷺ کے جھوٹے دعویدار بن کر مملکت خدادادپاکستان کو آگ اور خون میں دھکیل دیں۔

جب چاہیں گھروں میں وہ ماحول پیدا کردیں کہ عورتیں ایام حیض میں بھی نماز کی نیت باندھ لیں اور جب چاہیں قندیلوں کو قویوں کے ہاتھوں انجام تک پہنچا دیں، کبھی اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے کروا لیں اور کبھی ہجوم کو اکسا کر مذموم مقاصد کی تکمیل کروا لیں، کبھی تو عورت پر مرد کو حاکم مطلق بتا دیں اور جب حقوق نسواں کی تحریک کی زوردار یورپی چابک پڑے تو عورت کو یہ حق بھی دینے کو تیار ہو جائیں کہ وہ بچے کو دودھ پلانے کا معاوضہ اس کے باپ یعنی اپنے شوہرسے لے، مدارس کو لواطت اور ہم جنس پرستی سے منسوب کیے جانیں کا باعث بنیں، محلے اور گاؤں کے چوہدری کی جانب سے پڑوس میں ہوتے ظلم پر گاندھی جی کے بندر کی طرح برا نہ کہیں اور برا نہ سنیں مگر امت کے درد کو لے کر قوم کے جوانوں کو کرائے کے جہاد کی آگ میں جھونک دیں، نام نہاد فحاشی کے خلاف مہم جوئی کے لئے عوام کو لے کر سڑکوں پر نکلیں اور در پردہ کسی نئی مسجد میں اپنے کسی عزیز کو قبضہ دلوانے کے شرط پر پولیس اور انتظامیہ سے مک مکا کر لیں۔ یہ چند اشارات ہیں اگرچہ تفصیل بہت طویل ہے۔

اب اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کی جو حقیقی انسانیت دوست، انصاف پسند اور متنوع جبلت تھی وہ موہوم ہو کر رہ گئی۔ میں خود کو اس لائق تو نہیں سمجھتا کہ ایک آرٹیکل میں اسلام کے پیش کردہ اُس نظام معاشرت و ریاست کی تشریح پیش کردوں جس کی ایک جھلک صنعاء سے حضرموت تک ایک عورت کے نصف شب بلا خوف سونا اچھالتے جانے کی بات ہو، جس نظام میں دجلہ اور فرات کے کنارے کتے کے بھوکے مرنے کا ذمہ دار بھی خلیفہِ وقت خود کو قرار دے، جس نظام میں عثمانیوں جیسا انصاف اور ترقی ہو، جس نظام میں بغداد جیسی رسدگاہیں ہوں، جس نظام میں زکوٰۃ و عشر دینے والے موجود ہوں جبکہ لینے والے مفقود۔

جس نظام میں بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہ دینے والے تعزیراتِ ریاست کے تحت مجرم ہوں، جس نظام میں جہیز کا مطالبہ کرنے والے سرکاری عقوبت خانوں میں ہوں، جس نظام میں ریاست داشتہ اور مومنہ کو ایک جیسی شہری سہولیات فراہم کرنے کے پابند ہو، جس نظام میں سفید ریشوں کی پروردہ ریاست ہو، جس نظام میں نومولود کی کفالت ریاست کے ذمہ ہو، جس نظام میں یتیم کو سوائے باپ کی شفقت کے ہر شے بہم پہنچانا معاشرے کا اجتماعی اور ریاست کا اصولی فرض ہو، جس نظام میں نوجوانوں کو منشیات کی لت ڈالنے والے کو تختہِ دار پر لٹکایا جائے، جس نظام میں اظہار رائے کی اس قدر آزادی ہو کہ رسول اللہ کو جسمانی اذیت تک دینے والے کو بھی ”الیومَ یوم الملحم“ کے بجائے ”الیومَ یوم ُ المرحم“ کی صداء لگائی جائے، جس نظام میں انسانی برابری ہو، جس نظام میں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہ ہو، جس نظام میں انسان تو درکنار درختوں اور جانوروں کے حقوق کی تلفی بھی قابل گردن زدنی ہو۔

ہاں مگر اس قدر فطرت سلیم ضرور رکھتا ہوں کہ یہ جان اور سمجھا سکوں کہ درج بالا اطوار و نظریات کسی طور بھی خدا اور اس کے رسولﷺکے لائے ہوئے دین کا مقصود نہیں ہو سکتے۔ اسلام اور مسلمانوں کو جس قدر نقصان اس طبقے نے دیا اتنا نقصان کفار بھی نہ دے سکے۔ نقصانات کی وسیع فہرست میں چند ایک یہ ہوئے کہ عالم دنیا یہ سمجھائے نہ سمجھ سکی کہ یہ مسلمان ہیں، اسلام نہیں۔ یہ ان کی ذاتی خباثت ہے اسلام کا مقصد وجود نہیں۔ یہ چنداں اسلام کے سفیر نہ ہیں بلکہ اسلام کے انسانیت دوست معاشرے سے نفور کا باعث۔

میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ تمام مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی اگر دنیا کو اسلام کی برکات سے روشناس کروانا ہے اور حقیقتاً اسلام علی منہاج النبوۃ کی ترویج و اشاعت و نفاذ کی طرف بڑھنا ہے توسب سے پہلے بیک زبان و قلم اس طبقہِ ملا اور فکر ملائیت سے برآت کا اعلان کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).